ظفرعلی خان اور شبلی نعمانی ۔۔۔دوکوزہ گر ،ظفرعلی خان کے مضامین اور اسلوب پر شبلی کا رنگ نمایاں ہے

تحریر : ڈاکٹر زاہد منیر عامر


شمس العلما مولانامحمدشبلی نعمانی علی گڑھ کالج کا مایہ افتخارہیں۔ وہ فروری 1883ء سے اواخر 1898ء تک اس تاریخی درس گاہ سے وابستہ رہے۔ وہ یہاں عربی کے استاد اور طلبا کی ادبی تربیت کیلئے قائم کی گئی مجلس ’’لجنۃ الادب‘‘ کے نگران تھے۔ کم و بیش 16 سال کی اس مدت میں انھوںنے بہت سی جماعتوں کو درس دیا اور کئی نسلوں کی ذہنی آبیاری کی۔ علی گڑھ میں ان کے دامن تربیت اور خوانِ علم و فضل سے وابستہ رہنے والوں میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا حسرت موہانی، مولانا حمیدالدین فراہی، مولوی عزیز مرزا، خواجہ غلام الثقلین، مولوی عبدالحق، سید محفوظ علی بدایونی، ڈاکٹر سرضیاء الدین اور چودھری خوشی محمد ناظر جیسے لوگ شامل ہیں۔ اس سلسلۃ الذہب میں مولانا ظفر علی خان کا نام بھی شامل ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ مولانا شبلی کے تلامذہ میں قومی سطح پر خدمات انجام دینے والوں میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ ظفر علی خان 1892ء میں انٹر میڈیٹ کرنے کے بعد 1893ء میں علی گڑھ میں داخل ہوئے اور انھوںنے 1895ء میں فسٹ ڈویژن میںبی اے کا امتحان پاس کیا۔

 اس دوسالہ قیام کے دوران ظفرعلی خان کو شبلی کے علم و فضل اور ان کی شخصیت سے کسب فیض کے مواقع اور خصوصی توجہ حاصل رہی اسی لیے انھیں مولانا شبلی کے ’’مخصوص تلامذہ‘‘ میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس زمانے میں مولانا شبلی کا درس قرآن مشہور تھا۔ ظفر علی خان ان کے درس میں شریک ہونے والوں میں بھی شامل تھے، اس درس سے اثر پذیری کا اظہارکرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مولانا شبلی کو خداوند کریم نے لحن دائودی سے نوازا تھا۔ وہ جب قرآن کی تلاوت کرتے تو گویا قلوب کو مسخرکر لیاکرتے تھے۔ ظفرعلی خان نے اس دوران میں جہاں علمی اعتبار سے مولانا شبلی سے اکتساب ِفیض کیا وہاں تقریر و تحریر میں بھی مولانا نے ان کی شخصیت پر اثرات مرتب کیے۔ ظفر علی خان ایک طالب علم کی حیثیت سے ’’لجنۃ الادب‘‘ کے رکن تھے اور مولانا شبلی ’’لجنۃ الادب‘‘ کے نگران کی حیثیت سے طالب علموں کو تقریر وتحریر کا ملکہ سکھاتے تھے۔ اس تعلق کے بہت دور رس نتائج نکلے۔ ظفر علی خان کی شخصیت اور ان کے فن نے اس تجربے سے گہرے اثرات قبول کیے۔ ظفر علی خان کے مضامین اور اسلوب پر بھی شبلی کا اثر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ شبلی کی علمی تحریریں الگ انداز کی حامل ہیں البتہ عصری سیاسی مسائل پر ان کا انداز کہیں کہیں ظفر علی خان کے ہاں بھی دکھائی دے جاتا ہے اور شبلی کی طرح ظفر علی خان کی نثر میں بھی خطیبانہ لہجہ اور شاعرانہ اسلوب دکھائی دیتا ہے۔ یہ اثر پذیری نثر تک محدود نہیں بلکہ شاعری کی دنیا تک پھیلی ہوئی ہے۔ ظفر علی خان کے ہاں قومی شاعری کا جو رنگ روپ دکھائی دیتا ہے اس پر بھی شبلی کے اثر ات کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ظفرعلی خان سے پہلے شبلی ہی تھے جنھوں نے عصری سیاسی حالات و واقعات کو شعر کا پیراہن عطا کیا اور اس موثر ذریعہ ابلاغ کو قومی جذبات کی بیداری کیلئے استعمال کیا۔ ’’کلیات شبلی‘‘ کی سیر ہمارے اس دعوے کا ناقابل تردید ثبوت فراہم کردیتی ہے۔ یوں تو اپنے والد کے زیر اثر ظفر علی خان کی بنیادی تربیت ہی میں قومی خدمت کا جذبہ شامل تھا لیکن علی گڑھ کی فضا نے اس جذبے کوخوب چمکایا اور اس میں جہاں سرسید کے پیدا کردہ ماحول کا اثر تھا وہاں ظفرعلی خان کے استادگرامی مولانا شبلی نعمانی کا فیضان بھی تھا۔ نوجوانی اور طالب علمی کے زمانے میں ظفرعلی خان نے کچھ عاشقانہ غزلیں کہیں تو استاد گرامی نے ان کی حوصلہ شکنی کی۔ ظفرعلی خان کی اپنی طبیعت بھی تنگنائے غزل سے کچھ زیادہ مناسبت نہیں رکھتی تھی اس پر استاد کی ہدایت مستزاد ہوئی۔ انھوں نے فروری 1928ء کی ایک ریڈیائی تقریر میں اس بیتے زمانے کی باز آفرینی کرتے ہوئے بتایا ’’مجھے خوب یاد پڑتاہے کہ ایک دفعہ جب میںنے ایک طرحی غزل کہی جو لکھنو کے ایک گلدستہ میں چھپ گئی اور استاذی شبلی مرحوم کی نظر سے گزری تومرحوم نے مجھے سختی سے ڈانٹااور فرمایاکہ آئندہ اس قسم کی خرافات کا سلسلہ جاری رکھاتو جماعت میں نہ آنے دیاجائے گا۔ اس کا اثر یہ ہواکہ میںنے عاشقانہ غزل سرائی سے توبہ کرلی اور نظم میں اظہار خیالات کا ایک نیارستہ تجویزکرلیا جس کا نقشہ سالہاسال بعد میںنے یوںکھینچا۔

’’شبلی ایک محبوب استاد تھے ان کا انداز تدریس طالب علموں کو اپنی جانب متوجہ کر لینے والا تھا۔ وہ شاعر، ادیب اور مورخ تھے، ان کی جماعت میں بیٹھ کر جی خوش ہوتا تھا۔ موقع موقع سے ادبی نکات اور اساتذہ کے اشعار اور لطائف سنا کر تاریخی واقعات اس طرح بیان کرتے تھے کہ درس کا حق ادا ہو جاتا تھا‘‘ ایسے استاد کی بات طالب علموں پر زیادہ اثرکرتی ہے اور پھر جب اس کے پیچھے جذبے کا چراغ بھی روشن ہو تو بات کی تاثیر اور بڑھ جاتی ہے۔ ایسا ہی ہوا اور ظفر علی خان تاریخی، اخلاقی اور سیاسی موضوعات کی طرف متوجہ ہو گئے اور اس میں اس قدر ریاض کیا کہ اب سیاسی، تاریخی اور اخلاقی شاعری کی تاریخ ظفر علی خان کے تذکرے کے بغیرمکمل نہیں ہوسکتی۔ 

خود شبلی کے ہاں قومی شاعری کا ظہور علی گڑھ کے ماحول کے زیراثر ہوا، علی گڑھ جانے سے پہلے وہ قدیم خیالات کے شخص تھے۔ اس دور میں وہ تسنیم تخلص کرتے تھے اور رواجِ عام کے مطابق عشقیہ شاعری کو پسند کرتے تھے لیکن علی گڑھ آنے کے بعد ان کی شاعری کا محور بدل گیا اور غزلوں کی جگہ قومی نظموںنے لے لی۔ قیام علی گڑھ کے زمانے میں انھوںنے تین چار سے زیادہ غزلیں نہیں کہیں وہ بھی محض ہیئت کی حد تک غزلیں ہیں زیادہ توجہ مثنوی مسدس اور قصیدے کی طرف رہی چنانچہ علی گڑھ میں ان کا اپنے شاگرد کو قومی شاعری کی طرف متوجہ کرنا قابلِ فہم ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب شبلی حیدر آباد چلے گئے تو ’’دکن کے کیف آور ماحول میں ان کا ابتدائی ذوق پھر ابھر آیا اور انھوں نے اردو غزلیں لکھیں افسوس کہ یہ غزلیں محفوظ نہیں رہیں‘‘۔ ایک خط میں نقل کیے جانے والے کچھ اشعار سے ان کے رنگ ڈھنگ کا اندازہ کیا جا سکتاہے۔ واضح رہے کہ یہ بات محض اردو کلام کی ہو رہی ہے فارسی شاعری میں تو شبلی کا تغزل مسلسل روز افزوں رہا۔ ادھر شاگردِ عزیز ظفر علی خان تھے کہ انھوں نے غزل کو ایسا چھوڑا کہ پھر اس کا نام تک نہ لیا حیدر آباد کے زمانے میں ان کی اکا دکا غزل ’’دکن ریویو‘‘ کے صفحات پرا بھری۔

علی گڑھ میں تعلیم کی تکمیل کے بعد ظفر علی خان کو ملازمت کی ضرورت تھی۔ انگریز کی ملازمت وہ کرنا نہیں چاہتے تھے یوں بھی اس کا تجربہ انھیں اپنے والدکے ساتھ محکمہ ڈاک میں کچھ وقت گزار کر ہو گیا تھا۔ ان کی اس مشکل کو مولاناشبلی نعمانی نے حل کیا۔ نواب محسن الملک کو انگریزی خط کتابت اور اپنے دوسرے علمی منصوبوں کے لیے کسی معاون کی ضرورت تھی، پہلے خواجہ غلام الثقلین ان کی یہ خدمت انجام دیتے رہے تھے۔ ایک نئے گریجوایٹ اور باصلاحیت نوجوان کے طور پر اب ظفر علی خان ان کیلئے بہترین انتخاب ہو سکتے تھے۔ مولانا شبلی نے اس مقصد کیلئے اپنے لائق شاگرد کا نام تجویز کیا اور ظفر علی خان ان کی اس تجویز پر نواب محسن الملک کے پرائیویٹ سیکریٹری مقرر ہوگئے۔ یہ تعلق ان کی علمی زندگی کیلئے ایک سنگ میل کی حیثیت اختیارکرگیا اور انھوںنے یہاں رہ کر صرف نواب محسن الملک ہی کی نہیں بلکہ پوری اردو دنیاکی خدمت انجام دی۔ نواب محسن الملک انگریزی تحقیقات اور نئے فن پاروں کو اردو میں منتقل کروانے کے شائق تھے چنانچہ ان کے ایما پر ظفر علی خان نے جہاں ان کے ذاتی معاون کے طور پر خدمت انجام دی اوران کے لیے فلسفے کے مضامین کا اردو ترجمہ کرتے رہے وہاں انھوں نے سائنس اور مذہب کے موازنے پر مشتمل جان ولیم ڈریپر کی مشہورکتاب کا اردو ترجمہ ’’معرکہ مذہب و سائنس‘‘ کے نام سے کیا۔ نواب صاحب کی علمی خدمت کا اعتراف کرتے ہوئے ظفر علی خان نے اس کتاب کے انتساب میں لکھاکہ ’’محسن الملک کا نام مسلمانان ہندکی تاریخ میں آب زر سے لکھاجاچکاہے‘‘ انھی کی ’’تحریک پر میں نے آج سے پندرہ سال پہلے اس کتاب کا ترجمہ اردو میں کیا تھا‘‘

یہ وہ زمانہ تھا جب شبلی خود ریاست حیدر آباد سے وابستہ ہو چکے تھے۔ ایک بار وہ حیدر آباد سے بمبئی آئے تو انھوںنے ظفر علی خان کو بھی حیدر آباد آنے کا مشورہ دیا۔ نواب محسن الملک نے بھی تائید کر دی، ادھر ظفر علی خان خود انگریزی ملازمت سے نفور اور کسی مسلم ریاست میں جا کر قسمت آزمائی کرنے کے خواہش مند تھے گویا یہ تو پہلے ہی ان کے دل میں تھا۔ وہ اس مشورے پر فوراً ہی عمل پیرا ہو گئے۔ یہاںسے ظفر علی خان کی علمی و عملی زندگی کا ایک اہم دور شروع ہوتا ہے۔ وہ شبلی کی تجویز اور محسن الملک کی سفارش پر حیدرآباد پہنچ جاتے ہیں۔ شبلی 1899ء میں یہاں آچکے تھے اب ظفرعلی خان کو ایک بار پھر اپنے اس آئیڈیل استاد کی صحبت اور راہ نمائی میسر آگئی۔ اس پر اظہار مسرت کرتے ہوئے انھوںنے لکھا کہ ’’ہم حیدرآباد میں شبلی جیسے وحیدالعصر ویکتائے زمن کے خرمنِ فیوض سے خوشہ چینی کررہے ہیں اور حالی کی عدیم النظیر سخنوری و سخن سنجی سے مذاقِ سلیم کو بہرہ اندوز بنا رہے ہیں‘‘ ظفر علی خان کی زندگی کا یہ زمانہ ہم مذاقوں اور دوستوں کی صحبت کے باعث خوش کن اور پرثروت گزرا۔ اس خوش وقتی کا اظہار مولوی عبدالحق مرحو م نے بھی کیاہے۔ قیام حیدر آباد ہی کے زمانے میں ظفر علی خان نے ’’دکن ریویو‘‘ جاری کیا۔ اس میں بھی انھیں مولاناشبلی کا بھرپورتعاون حاصل رہا۔ ’’دکن ریویو‘‘ کے متعدد شماروں میں مولاناکی تخلیقات کی اشاعت ظفرعلی خان کے ساتھ ان کے تعاون اور خورد نوازی کا پتا دیتی ہے۔ دکن ریویو کے متعدد شماروں میں مولاناشبلی کا کلام اور ان کے مقالات شائع ہوتے رہے۔ ظفر علی خان نے جس طرح نواب محسن الملک کے فیضان کا اعتراف کیا تھا اسی طرح شبلی کے قلمی تعاون کا اعتراف کرتے ہوئے بھی کسی بخل سے کام نہیں لیا۔ صرف یہی نہیں انھوں نے تو اپنی تمام ادبی مساعی کا منبع شبلی ہی کے فیضان کو قرار دیا ہے۔

یہ فیض صحبت علامہ شبلی کا صدقہ ہے

کہ دنیائے ادب میں دھوم ہے میرے مقالوں کی

پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامرجامعہ پنجاب کے ادارہ زبان و ادبیات کے ڈائریکٹر ہیں، 650سے زائد ریسرچ آرٹیکل لکھ چکے ہیں، 52 کتب شائع ہوچکی ہیں،ملکی و غیر ملکی جریدوں میں ان کے مضامین چھپتے رہتے ہیں)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

خیبرپختونخوا میں مایوسی!

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورہر طرف سے مسائل میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ایک طرف صوبے کو مالی بحران درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھیلتی نظرآرہی ہے ۔ اب انہیں کابینہ کے اندر بھی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔

بلدیاتی اداروں کو بجٹ جاری

آزاد جموں وکشمیر حکومت نے بالآخر بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بجٹ جاری کر دیا۔ 32 سال کے بعد آزاد جموں وکشمیر کے بلدیاتی نمائندوں کی نشاندہی پر وزارت محکمہ مقامی حکومت و دیہی ترقی مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے پیسے جاری کرے گی تاکہ نچلی سطح پر لوگ اپنی نگرانی میں تعمیر و ترقی کا کام کرائے جا سکیں۔