فکشن کے انسانی زندگی پر اثرات

تحریر : ضیغم رضا


فکشن پڑھنا وقت کا ضیاع نہیں، شعورو لاشعور پہ اس کے تاثرات مرتب ہوتے ہیں علمی فکری موضوعات سے شغف رکھنے والے دوستوں سے اکثر سُنا کہ فکشن پڑھنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ ان کے بقول اس سے آپ کی ذہنی بالیدگی، فکری ارتقاء میں کم ہی معاون ہوتی ہے۔

 جہاں تک ذاتی تجربہ ہے، فکشن پڑھتے ہوئے میرے شعور و لاشعور پہ کئی ایسے عوامل اثر انداز ہوئے جنہوں نے وقتی طور پر یا مستقل میری کایا بدلی۔ 

آغاز اگرچہ شاعری سے ہوا کہ ادب کی جس صنف سے میرا ابتدائی تعارف ہوا وہ شاعری ہی تھی۔ ہوا یوں کہ جب میں چھٹی جماعت میں تھا تو اماں سے اپنی سالگرہ کا تحفہ مانگا۔ انہوں نے کہیں سے فیض احمد فیض کا نام سن رکھا تھا سو کچھ دنوں بعد مجھے نسخہ ہائے وفا کی شکل میں سالگرائی تحفہ مل گیا۔ مجھے اس وقت شاعری کی تو ککھ سمجھ نہیں تھی مگر کتاب گود میں لیے یہ سوچتا رہتا کہ یہ کتنے پیارے الفاظ ہیں۔ وہ الفاظ جن میں سے زیادہ تر کے معنی میں نے کوئی دس سال بعد ایم اے اردو کرتے ہوئے معلوم کیے۔

پھر انٹر کے دوران میں بیدی کے افسانوں کا ایک انتخاب ہاتھ لگا تو ’’اپنے دُکھ مجھے دے دو‘‘ نامی افسانہ پڑھا۔ جہاں اندو اپنے شوہر کو کہتی ہے آپ سے بس ایک ہی چیز مانگنی ہے کہ اپنے سارے دکھ مجھے دے دیں تو میں نے کتاب ٹھپ دی۔ مجھے اپنا آپ وہی شوہر لگا اور میرے لیے پریشانی یہی تھی کہ اپنی ساری پریشانیاں اپنی بیوی کو کیسے دی جا سکتی ہیں؟ 

جہاں تک ادب سے باقائدہ جڑنے کا تعلق ہے تو اس کا سب سے بڑا محرک منٹو تھا۔ انٹر کے بعد جب میں نے منٹو کے کچھ افسانے، مضامین، خاکے اور سوانح سے متعلق کچھ چیزیں پڑھیں تو مجھے یہ شوق چڑھا کہ کیوں نہ رائگانی کے احساس کو شدت سے محسوس کروں۔ بی ایس چھوڑنے اور پھر آگے کی خواری جتنا آپ جانتے ہیں، اس گناہ کا بیشتر حصہ منٹو کے سر ہی جاتا ہے۔

افسانے کی ہی سنئے کہ میں نے اشفاق احمد کے ’’گڈریے‘‘ سے متعلق بہت کچھ سن رکھا تھا مگر پڑھا نہیں تھا۔ ماسٹر کرنے کے بعد یہ مجموعہ ہاتھ لگا تو سب سے پہلے ’’گڈریا‘‘ پڑھا۔ اس کے اختتام پہ جہاں شاگرد اپنے استاد کو نظر انداز کرتا گزر جاتا ہے، میں سن ہو کے رہ گیا۔ وہ ہتک زدہ کردار، مجھے لگا میں خود ہوں اور پھر میں نے وہ کرب محسوس کیا جو بطور شاگرد اپنے ایک استاد کو میں بھی بخش چکا تھا۔ اس کی تلافی کیلئے میں نے استاد جیوایا کے کردار کو زندہ رکھنے کی کوشش کی۔ 

ناول کی طرف آیا تو مجھے یاد آیا ’’سرخ میرا نام‘‘ پڑھتے ہوئے میں اس مقام پہ پہنچا جہاں استاد، خود کو امر کرنے کے لیے اپنی آنکھوں میں سوئی چبھو کر اپنے آپ کو اندھا کرلیتا ہے۔ ناول نگار اگرچہ پہلے سے ذہن سازی کر چکا تھا کہ فنکاروں کے لیے اندھا ہونا کیا معنی رکھتا ہے اور سوئی چبھونے کے بعد کردار کی آہ و بکا قاری سے بے جا ترحم کا تقاضا بھی نہیں کرتی لیکن جب میں نے یہ سطر پڑھی تو ایک سنسناہٹ میرے وجود میں پھیل گئی۔ اگر میں کتاب بند نہ کرتا تو نہیں معلوم کب تک میری آنکھوں سے خون رِستا رہتا۔ 

اور مارکیز سے کون واقف نہیں؟ میرا ان سے پہلا تعارف ’’تنہائی کے سو سال‘‘ کی صورت میں ہوا۔ میں احمد پور شرقیہ کے کالج ہاسٹل میں یہ ناول پڑھ رہا تھا اور اس مقام پہ تھا جہاں کئی سالوں تک بارش ہونے کا ذکر ہے۔ میں اسی ماحول میں تھا اوربارش کی ہولناکیوں کا مشاہدہ کر رہا تھا کہ باہر کالج کے سٹوڈنٹ شور مچانے لگے، سب آجاؤ والی بال کھیلیں۔ یہ ہمارا روز کا معمول تھا مگر مجھے حیرت ہوئی کہ ادھر بارش نے جل تھل کیا ہوا ہے اور انہیں والی بال کھیلنے کی پڑی ہے۔

مارکیز کے ہی ایک اور ناول ’’وباء کے دنوں میں محبت‘‘ کے اختتام نے مجھے خاصا سٹپٹایا۔ اس کے اختتام پہ جہاں فلورینٹینو کئی دہائیوں کے انتظار کے بعد بالآخر اپنی محبوبہ فرمینا کے ساتھ تنہائی میں وقت گزارنے کے لیے جہاز پہ سوار ہو رہا ہے، مجھے بے پناہ رقابت کا احساس ہوا۔ کیا میں اس کے ساتھ کسی اور کو نہیں دیکھ سکا؟ یا کیا تھا، میں نہیں جانتا۔ 

فکشن کی یہ اثر پذیری اچھی ہے یا بری، میرے لیے یہ سوال کبھی اہم نہیں رہا البتہ اثر ضرور ہوتا ہے اتنا میں جانتا ہوں۔ یہ اثر تبھی ہوتا ہے جب فکشن رائٹر اپنی معصومیت ظاہر کر کے قاری کی معصومیت بیدار کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ ورنہ جہاں بھی فکشن رائٹر سیانا بننے لگے تو قاری یا تو گاؤدی ثابت ہوتا ہے یا پھر وہ علمی مکالمہ کرتا ہے فکشن میں ڈوب کے نہیں رہ جاتا۔

ضیغم رضا افسانہ نگار ہیں،  درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ ان کی تخلیقات ادبی جرائد کی زینت بنتی رہتی ہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آپسی میل ملاقات کے آداب

اسلام انسانی زندگی کی حفاظت اور اُس کی بقاء کا سب سے بڑا ضامن ہے وہ پوری انسانیت کو معاشرے میں ایک دوسرے کی جان ومال کی حفاظت اور حرمت کا پابند بناتا ہے اور جزا وسزا کے اُصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے متوازن انداز میں تنبیہ کرتا ہے: ’’اور جس جاندار کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی شریعت کے فتویٰ کی رُو سے) اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے (کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے) تو اس کو چاہیے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ وہ منصورو فتح یاب ہے‘‘(سورۃ الاسراء:33)۔

شوال کی فضیلت

شوال کا شمار 4 حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے، جن کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے

غزوہ اُحدمعرکہ حق و باطل

غزوہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے مشرکین مکہ نے مسلمانوں سے یہ جنگ لڑی غزوہ اُحد میں70 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، جن میں زیادہ تر انصار تھے

مسائل اور ان کا حل

غیر محرموں کی موجودگی میں نماز پڑھنے کی صورت میں عورت کا چہرہ ڈھانکنا سوال:عورت اگرگھرسے باہرنمازپڑھے توچہرہ ڈھانک کرپڑھ سکتی ہے؟ جواب:جی ہاں غیر محرموں کے سامنے نماز پڑھنے کی صورت میں چہرہ ڈھانک کرہی نماز پڑھیں۔(جامع ترمذی)

حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔