کتاب پڑھیں، خرید کر پڑھیں
نامور ادیبوں کی کتاب کلچر کو پروان چڑھانے کی کوششاطہر شاہ خان جیدی مرحوم کا اولین مجموعہ کلام رنگ جیدی کا نیا اڈیشن منظر عام پر آکر شائقین کتب سے داد سمیٹ رہا ہے
ادب اور ادیب کو بند گلی میں دھکیلنے کا مکروہ عمل ہمارے ہاں عشروں سے جاری ہے۔ جس کے نتیجے میں ادیب معاشرے کا شودر اور ادب ہم عصر زندگی سے رفتہ رفتہ بے دخل کئے جا چکے ہیں۔ غضب خدا کا 22کروڑ کے اس انسانی جنگل میں سنجیدہ کتاب 2200 کی تعداد میں بھی نہیں چھپتی۔ ہزار کوہ ندا ٹاپنے کے بعد کتاب چھپ جائے تو اس کی نکاسی اور فروخت کا تماشہ یہ ہے کہ اس کارتیشہ گری میں کیا ناشر، کیا کمپوزر، کیا چھاپہ خانے والا، کیا جلد ساز سبھی کماتے ہیں لیکن ادیب کی صرف جیب کٹتی ہے۔ گویا دکھ اٹھائیں بی فاختہ اور مزے کریں۔۔۔۔۔!
ستم بالا ستم یہ کہ حکومت، معاشرہ، ادب سے متعلق ادارے سبھی اس دگرگوں صورت حال کے تدارک کے لئے پہلا قدم اٹھانے پر بھی آمادہ نہیں۔ یہ نوحہ معروف شاعر، دانشور، مصنف اور اردو کے قدیم جریدے ’’ادب لطیف‘‘ کے سابق مدیر اعلیٰ حسین مجروح کا ہے۔ جنہوں نے تیزی سے ختم ہوتے کتاب کلچر اور اس سے وابستہ جملہ تمام عوامل کو سہارا دینے کے لئے ادبی دنیا کی دیگر شخصیات کے ساتھ مل کر ’’سائبان‘‘ کا آغاز کیا ہے۔ اس کا نعرہ ہے ’’کتاب پڑھیں، خرید کر پڑھیں‘‘۔
یہ تحریک اپنے نام کی طرح ’’کتاب کنبہ‘‘ سے وابستہ تمام افراد کی فلاح و بہبود کا بیڑا اٹھانے کا عزم ہی نہیں بلکہ تین ماہ کے مختصر عرصے میں باعمل آغاز بھی کر چکی ہے۔ بہت سے ادارے اپنے کارکنوں کا جتنا خیال ان کی زندگی میں رکھتے ہیں، اس سے کئی گنا زیادہ خیال ان کی زندگی کے بعد ان کے خاندان والوں کا بھی رکھتے ہیں۔ شاید اس کاوش کے روح رواں کے پیش نظر بھی یہی جذبہ کار فرما ہے،تبھی تو انہوں نے مرحوم ادیبوں کے غیر مطبوعہ لیکن معیاری مسودات کو ترجیحی بنیادوں پر مرحوم کے لواحقین کو پیشگی ادائیگی کر کے ان کی اشاعت کا آغاز کر دیا ہے۔
اس سلسلے کی پہلی کتاب معروف شاعر، اداکار، ڈرامہ نگار، اطہر شاہ خان جیدی کے اولین مجموعہ کلام ’’رنگ جیدی‘‘ کے نام سے مذکورہ ادارے کے زیر اہتمام منظر عام پر آ کر شائقین کتب سے داد سمیٹ رہی ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کا مقصد جہاں مرحوم اطہر شاہ خان جیدی کے نام کو ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ رکھنا ہے وہیں ان کے اہل خانہ کے لئے ایک مستقل آمدنی کا سلسلہ بنانا بھی ہے۔یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے کسی سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد اس کی بیوہ یا بیٹی کو پینشن ملتی رہتی ہے۔ یہ کتاب ان کے اہل خانہ کے لئے پینشن کا ہی کام کرے گی۔ اطہر شاہ خان جیدی ہی کی طرح مزید ادیبوں کی تین کتب کی اشاعت کا کام بھی تکمیلی مراحل میں ہے۔
نادار ادیبوں کی فلاح اور خبر گیری سائبان کے منشور کا بنیادی نقطہ ہے۔کسمپرسی کی زندگی گزارنے والے ادیبوں کو میدان میں دوبارہ واپس لانے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں اور اسی حوالے سے ان ادیبوں کے گھر گھر جاکر انھیں دوبارہ لکھنے کی جانب راغب کیا جارہا ہے ۔ اس حوالے سے سائبان کے تحت باقاعدہ اقدامات کیے جارہے ہیں تاکہ ان ادیبوں کو اچھا معاوضہ بھی دیا جائے جس سے ان کے ضروریات زندگی سمیت دیگر معاملات میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔
معقول تعداد، مصنفین سے براہ راست خرید کر ’’سائبان‘‘ کے اراکین کو رعائتی نرخوں پر فراہم کی گئی ہیں تاکہ مصنفین کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ کتاب کلچر کے فروغ کاپہیہ رواں دواں رہے۔
وطن عزیز میں چونکہ کتاب کلچر تیزی سے زوال پذیر ہے جس کے سبب ادب سے جڑے اکثر جرائد مالی بحران سے دوچار ہیں۔اس حوالے سے کئی ادبی جرائد کی اشاعت بڑھانے کے لیے انھیں کثیر تعداد میں خرید کر بھی قارئین تک مفت پہنچانے کے اقدامات کیے گئے ہیں۔
معروف کالم نویس اور اخبارات میں ادیبوں کے سائبان کی کاوشوں پر مسلسل کالم اور اداریے لکھے جارہے ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ ملک میں دم توڑتی ادبی سرگرمیوں کو دوبارہ سے زندہ کیا جاسکے۔
اس کے ساتھ اس تحریک نے ادیبوں کو درپیش سنگین اور پیچیدہ مسائل کے تدارک، ان کی اخلاقی اور قانونی معاونت اور دیگر معاملات کی رہنمائی کیلئے ایک ماحول دوست سیل کا قائم کیا ہے تاکہ باوقت ضرورت وہ اس سے استفادہ حاصل کر سکیں۔
نئے لکھنے والوں کی ذہنی تربیت، تخلیقی ہنر مندی کو اجاگر کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کیلئے سلسلہ وار ورکشاپوں اور تربیتی نشستوں کے انعقاد کا پروگرام بنایا ہے۔ اسی پر ہی بس نہیں کتاب کلچر کا فروغ، ادیبوں کی فلاح و بہبودکے ساتھ ساتھ ان کی سماجی اور ثقافتی حیثیت کی بحالی اس تحریک کے مستقبل قریب کا حصہ ہیں۔
ادب کی دنیا سے وابستہ افراد کی اس تحریک کو پورے پاکستان کے ادیبوں اور کتاب کے شائقین تک کو شامل کیا جارہا ہے۔ ادبی دنیا میں لاہور سے جنم لینے والی اس تحریک کو ایک امید کی کرن سمجھا جارہا ہے۔ معروف ادبی شخصیات اس حوالے سے خاصی سرگرم نظر آتی ہیں اور ہر طرح کا تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ادبی تحریک کو کس حد تک کامیابی ملتی ہے تاکہ ہمارا وہ شعبہ جو ماضی میں درخشاں روایات رکھتا ہے دوبارہ ناصرف اپنے پائوں پر کھڑا ہوسکے بلکہ اپنا کھویا ہوا عروج بھی حاصل کرلے۔
خاورنیازی لاہور میں مقیم ایک سابق بینکر اور لکھاری ہیں، قومی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک رہ چکے ہیں، تحقیقی اور سماجی موضوعات پر مہارت رکھتے ہیں