سندھ حکومت کے خلاف اپوزیشن متحد!

تحریر : عابد حسین


ملکی سیاست میں آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے اس موضوع پر حسب معمول قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اپوزیشن جماعتیں پرامید ہیں کہ اگلے تین ماہ میں’’ان ہاؤس ‘‘تبدیلی ہونے والی ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی اگلے عام انتخابات تک عبوری مدت کیلئے وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیگی۔

اس طرح اسے پنجاب میں پیپلز پارٹی کو منظم کرنے کا موقع مل جائیگا ۔مسلم لیگ ن کو ان ہاؤس تبدیلی کے نتیجے میں قلیل مدت حکومت بنانے سے زیادہ اگلے عام انتخابات میں بڑی کامیابی کی فکر ہے اور اس کی کوشش ہے کہ مرکز میں اگلے پانچ سال کے لیے ن لیگ کی حکمرانی قائم ہوجائے۔اپوزیشن حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مہنگائی کا طوفان ’’سونامی ‘‘ بن کر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو کھا جائے گا۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے ملک بھر کے کسانوں کا ساتھ دینے کے لیے 21 جنوری سے ریلیاں نکالنے کا اعلان کردیا ہے۔پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ملک میں کسانوں کے مسائل کے حوالے سے کہا ہے کہ گندم کی فصل کے لیے یوریا 1768 روپے کی سرکاری قیمت کے بجائے 3500 روپے تک فی بوری بلیک مارکیٹ میں فروخت ہورہی ہے۔انہوں نے الزام لگایا کہ عمران خان نے ایک زرعی ملک کے زراعت کے شعبے کو تباہ کرکے معاشی دہشت گردی کی ہے جسے کسی قیمت پر معاف نہیں کیا جائے گا۔

سیاسی حلقوں کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنے دور اقتدار میں پارٹی کو منظم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ خصوصا ًکراچی سے واضح کامیابی کے باوجود ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اپنے اپنے حلقوں کے عوام سے مسلسل رابطے رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کی تنظیم نو کی کوشش بھی گئی ہے۔پی ٹی آئی رہنما بلال غفارکو کراچی ریجن کا صدر ،رکن قومی اسمبلی و رہنماء تحریک انصاف سیف الرحمن کو کراچی ریجن کا جنرل سیکرٹری مقرر کردیا گیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ نے خرم شیرزمان کی کارکردگی کو سراہا ہے ۔پی ٹی آئی کے نئے پارلیمانی لیڈر خرم شیر زمان کا ان تبدیلیوں پر کہنا ہے کہ ہمارے کیپٹن ہمارے وزیراعظم عمران خان ہیں وہ جانتے ہیں کس کھلاڑی کو کہاں کھلانا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے حلقوں کو امید نہیں بلکہ یقین ہے کہ اگلی حکومت بھی پی ٹی آئی کی ہوگی اور عمران خان کی کپتانی میں مہنگائی کا جن ’’کلین بولڈ‘‘ ہو جائے گا۔

 وزیر اعظم عمران خان، وفاقی وزیر برائے ترقیات و منصوبہ بندی اسد عمر، گورنر سندھ عمران اسماعیل کی کوششوں سے طویل عرصے سے زیر التوا منصوبے گرین لائن بس سروس کا آغاز ہوگیا ہے تاہم اسے کامیابی کی کنجی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کراچی کے شہریوں کا اس وقت دیرینہ مسئلہ بااختیار بلدیاتی نظام ہے جو نچلی سطح پر عوام کے دیرینہ مسائل کو حل کر سکے۔ان حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے کراچی کو ترقی دینے کی ’’ٹرین‘‘ مس کردی ہے۔گزشتہ دو ادوار سے سندھ کے بڑے شہروں کا جو حال ہے ،وہ سب کے سامنے ہے۔گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ایک حیران کن بیان دیا ، جس میں انہوں نے کہا کہ سندھ میں اگلی حکومت ہماری ہوئی تو تھرپارکر ،کراچی کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ اس بیان کے بعد مخالف سیاسی حلقوں کے ان سیاسی خدشات کو تقویت مل رہی ہے کہ کراچی کو جان بوجھ کو اتنا پیچھے کیا گیا کہ تھر آگے جاتا محسوس ہورہا ہے۔

کراچی کے شہری حلقے گزشتہ کئی سال سے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ کراچی کو جان بوجھ کر کھنڈر بنایا جارہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی ترمیمی آرڈیننس کی منظوری کے بعد جماعت اسلامی عملی طور پر میدان میں آگئی ہے اوروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت ملنا شروع ہو گئی ہے۔’’کراچی کو حق دو‘‘ کے نعرے کے ساتھ جماعت اسلامی کے تحت سندھ اسمبلی کے سامنے جاری دھرنے کا دائرہ وسیع کردیا گیاہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے پہلے اس دھرنے کو لسانی تقسیم کے الزام لگاکر نظر انداز کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پھر دھرنے کی پذیرائی دیکھتے ہوئے اسے ختم کرانے کی کوشش کی گئی۔ بلدیات کے وزیر سید ناصر شاہ ،وقار مہدی اور دیگر رہنما جماعت اسلامی کے کراچی کے امیر انجینئر حافظ نعیم الرحمن کو منانے پہنچ گئے۔کچھ ترامیم واپس لینے کا بھی عندیہ دیا گیا لیکن دھرنے کے شرکاء نے دھرنا ختم کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ انہیں کراچی کا مکمل حق چاہیے۔ حافظ نعیم کے مطابق بلدیاتی ترمیمی آرڈیننس سے لسانی تقسیم کی جارہی ہے۔

ادھر جیسے جیسے آئندہ عام انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے ایم کیوایم کے بعض دھڑوں کے اتحاد اور انضمام کی بازگشت بھی نمایاں ہورہی ہے جو آنے والے وقت میں پیپلزپارٹی کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں۔ پہلی بار مہاجر قومی موومنٹ کے وفد نے متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز بہادرآباد کا بھی دورہ کیا ہے اور خالد مقبول صدیقی کو آفاق احمد کا پیغام پہنچایاہے۔ تین دہائیوں قبل ایم کیوایم سے راستے جدا کرکے حقیقی کی بنیاد ڈالنے والے آفاق احمد کراچی میں اپنے حالیہ جلسے کی کامیابی پر پراعتماد ہیں۔ حقیقی کا ایک وفد ڈاکٹر فاروق ستار سے ان کی رہائش گاہ پر بھی ملاقات کرچکا ہے۔ آفاق احمد ایک نجی گفتگو میں اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ اگر اتحاد کے لیے انہیں فی الوقت عملی سیاست سے کنارہ کشی بھی اختیار کرنا پڑی تو وہ تیار ہیں۔ آفاق احمد کی جانب سے ’’لچک‘‘ کا یہ مظاہرہ کراچی کی ’’بدلتی سیاست‘‘کا پتا دے رہی ہے ۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی ملاقاتوں کے سلسلے کو تیز کردیا ہے۔پی ایس پی سربراہ مصطفی کمال پہلے ہی حکومت سندھ کے خلاف اس ماہ کے آخر میں بڑے احتجاج کی تیاری کررہے ہیں۔دوسری جانب سندھ میں بلدیاتی قانون کے خلاف سندھ بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ جی ڈی اے کے رہنما سردار عبدالرحیم نے کہا ہے بلدیاتی قانون کے خلاف سندھ کے عوام سراپا احتجاج ہیں ۔ایم کیوایم پاکستان اور تحریک انصاف اس احتجاج میں پیش پیش ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

خیبرپختونخوا میں مایوسی!

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورہر طرف سے مسائل میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ایک طرف صوبے کو مالی بحران درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھیلتی نظرآرہی ہے ۔ اب انہیں کابینہ کے اندر بھی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔

بلدیاتی اداروں کو بجٹ جاری

آزاد جموں وکشمیر حکومت نے بالآخر بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بجٹ جاری کر دیا۔ 32 سال کے بعد آزاد جموں وکشمیر کے بلدیاتی نمائندوں کی نشاندہی پر وزارت محکمہ مقامی حکومت و دیہی ترقی مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے پیسے جاری کرے گی تاکہ نچلی سطح پر لوگ اپنی نگرانی میں تعمیر و ترقی کا کام کرائے جا سکیں۔