اِن ہائوس تبدیلی کی افواہیں
منی بجٹ پاس کرانے کیلئے حکومتی تیاریاں مکمل ہیں اور یہ کسی بھی وقت پاس ہو سکتا ہے۔ منی بجٹ کے حوالے سے قومی اسمبلی میں ہونے والی بحث کا بڑا فائدہ اپوزیشن کو اتنا ضرور ہوا ہے کہ قائد حزب اختلاف مسلم لیگ (ن) شہباز شریف، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جمعیت علماء اسلام کے مولانا اسد محمود نے اپنے اپنے انداز میں حکومت کی معاشی پالیسیوں خصوصاً منی بجٹ کے معاشی صورتحال پر اثرات، عام آدمی کی زندگی پر مہنگائی کے پڑنے والے بوجھ پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا حکومت کے خلاف انداز بڑا جارحانہ تھا اور انہوں نے حکومتی معاشی پالیسیوں کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے حکومت کو یوٹرن کا ماہر قرار دیا۔ ساتھ ہی ایسے سگنل بھی دیئے کہ مسائل زدہ عام سڑکوں پر آئیں گے تو حکومت ان کا سامنا نہ کر سکے گی۔
شہبازشریف نے اس تقریر میں فارن فنڈنگ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس میں پکڑے گئے 18والیمز سامنے آئیں گے تو ان کی شرافت اور دیانت کا کچا چھٹا کھل جائے گا۔ شہبازشریف کا جارحانہ انداز بتا رہا تھا کہ وہ حکومت سے مفاہمتی موڈ سے نکل چکے ہیں۔ حکومت کے خلاف ان کے تابڑ توڑ حملے بتا رہے ہیں کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ یہی انداز بلاول بھٹو زرداری نے بھی اختیار کیا اور حکومت کی معاشی پالیسیوں کو ظالمانہ قرار دیتے ہو ئے کہا کہ ہر صدی میں کوئی نہ کوئی بحران آتا ہے، اس صدی کا بحران عمران خان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اپوزیشن کے دبائو کو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کیلئے استعمال کر سکتی تھی مگراپنی ضد اور انا میں ایسے فیصلے کئے جنہیں پاکستان کی خود مختاری کے منافی قرار دیا جا سکتا ہے۔
اپوزیشن لیڈر شپ کی حکومت پر تنقید کا جواب وفاقی وزیر اسد عمر نے دیا اور انہوں نے دفاعی انداز اختیار کرنے کے بجائے اپوزیشن کو ہی معیشت کی ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالنے کے ذمہ دار یہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ معیشت کا رونا رونے والے اکٹھے بیٹھ کر ٹی ٹی لگانا سیکھیں گے۔ حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے کی جانے والی تقاریر اور طرز عمل سے ظاہر ہو رہا تھا کہ ملک کو درپیش معاشی صورتحال اور اس کے اثرات پر وہ ابھی تک سنجیدگی اختیار کرنے کو تیار نہیں۔ اپوزیشن لیڈر شپ کی جانب سے منی بجٹ کو ناکام بنانے کے حوالے سے تو سنجیدگی نظر نہیں آ رہی۔ شاید وہ یہ سمجھ چکی ہے کہ منی بجٹ کا پاس ہونا مجبوری ہے۔
اپوزیشن لیڈر شپ میں ایوان کے اندر آپس کی سرد مہری کا خاتمہ اور ایشوز کے حوالے سے مل جل کر چلنے کی تحریک بتا رہی ہے کہ آنے والے چند ہفتے اہم ہیں۔ دیکھنا یہ پڑے گا کہ اپوزیشن کا اصل ٹارگٹ کیا ہے۔ ان کی ایوان کے اندر کی جانے والی تقاریر اور طرز عمل سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اپوزیشن میں اب حکومت سے نجات کے نکتہ پر اتفاق رائے ہو چکا ہے، البتہ اس حوالے سے کنفیوژن طاری ہے کہ حکومت سے نجات کیلئے احتجاج اور لانگ مارچ کے آپشن کو بروئے کار لایا جانا ہے یا ان ہائوس تبدیلی کے عمل کو آزمانا ہے۔ اس مقصد کی اہم پیش رفت مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کی جانب سے ان ہائوس تبدیلی کے حوالے سے دیا جانے والا گرین سگنل ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اب جبکہ حالات بلدیاتی اور عام انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہیں یکا یک ان ہائوس تبدیلی کے عمل پر کام شروع ہو گیا ہے۔ کیا ان ہائوس تبدیلی ممکن ہے؟ اس کے نتیجہ میں وزیراعظم کون ہوگا؟ اور ان ہائوس تبدیلی کے مقاصد کیا ہوں گے؟۔ فی الحال اس حوالے سے صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر اپوزیشن ان ہائوس تبدیلی کے حوالے سے سنجیدہ ہے تو پھر اس کے پیچھے کچھ نہ کچھ ہے۔
ملکی سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یقیناً ایوانوں کے اندر نمبرز گیم کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ ایوان میں تبدیلی کے حوالے سے نمبرز گیم کے ساتھ کچھ اور عوامل بھی اہم ہوتے ہیں اور ان کی جانب سے سگنل بھی معاملات میں پیش رفت کا باعث بنتے ہیں۔ ویسے تو سیاسی حلقوں میں بلوچستان کی طرز پر ہونے والا فارمولا زیر بحث ہے مگر اس کا اپوزیشن کو کیا فائدہ ہوگا؟ اپوزیشن اگر ان ہائوس تبدیلی کی خواہاں ہو گی تو اس کا مقصد ایوانوں کی مدت پوری کرنا نہیں بلکہ آنے والے انتخابات کا آزادانہ اور شفاف قیام ہوگا۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اس کے جواب میں حکومتی حکمت عملی کیا ہوگی؟ جب تک حکومتی اتحادی ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق و دیگر جماعتیں حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں، تو پھر ان ہائوس تبدیلی کا آپشن کارگر نہیں ہو سکتا۔
نئی پیدا شدہ صورتحال میں حکومت کی جانب سے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ کابینہ کے حالیہ اجلاس میں نواز شریف کی وطن واپسی کیلئے شہباز شریف کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا بیرون ملک جانا بیماری نہیں فراڈ تھا۔ بیرون ملک ان کی سرگرمیاں ریاست پاکستان اور قانون سے مذاق ہیں۔ نوازشریف کو بیرون ملک بھیجنے میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف مکمل طور پر ملوث ہیں لہٰذا ان کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے۔
شہبازشریف کے خلاف عدالت سے رجوع کا اعلان اس سے قبل بھی دو مرتبہ وزیر اطلاعات فواد چودھری کر چکے ہیں۔ حکومت کو اس حوالے سے ضرور عدالت سے رجوع کرنا چاہئے اور اس حوالے سے حتمی فیصلہ بھی عدالت کا ہوگا لیکن یہ بات سیاسی حلقوں میں زیر بحث ہے کہ آخر نوازشریف کی وطن واپسی کیلئے شہبازشریف کے خلاف عدالت سے رجوع کا خیال حکومت کو اتنی دیر بعد کیوں آیا؟ سیاسی معاملات کا سیاسی حل ہی کارگر ہوتا ہے۔ کسی سیاستدان کو عدالتی سزا کے ذریعہ نااہل تو کروایا جا سکتا ہے مگر اس کی سیاست ختم نہیں کی جا سکتی۔ اگر حکومت کا سیاسی کیس مضبوط ہے تو پھر نوازشریف یا شہبازشریف کا بخار حکومت پر سوار نہیں ہونا چاہئے۔