ملکی صورتحال‘ وزیراعظم کی نظر میں

تحریر : خاور گھمن


گزشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان سے تفصیلی ملاقات ہوئی، جس میں حالیہ دنوں میں زیر بحث رہنے والے تمام موضوعات پر بات ہوئی۔ میرے ذہن میں جو بھی سوالات تھے وہ میں نے پوچھے اور خان صاحب نے ان تمام سوالوں کے کھل کر جوابات دئیے۔ اس ملاقات کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت پانچ سال ضرور پورے کرے گی۔

 تمام اتحادی ان کے ساتھ ہیں اور انہیں کہیں سے کوئی خطرہ نہیں، خاص طور پر ان کرپشن زدہ پارٹیوں سے تو بالکل بھی نہیں۔ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لانا چاہتی ہے تو بسم اللہ کرے ، ہم حاضر ہیں۔ عسکری قیادت کیساتھ تعلقات مثالی نوعیت کے ہیں ۔ آرمی چیف کی مزید توسیع کے متعلق ابھی سوچا نہیں، نومبر ابھی بہت دور ہے۔

 وزیر اعظم عمران خان نے ایک سوال کے جواب میں اعتراف کیاکہ ہماری حکومت کی سب سے بڑی ناکامی احتساب کا عمل مکمل نہ ہونا ہے۔ہم کرپٹ لوگوں کو سزائیں دلوانے میں کامیاب نہیں ہو سکے ۔ تمام تر شواہد کے باوجود یہ لوگ بچ کر نکل رہے ہیں ،یہ پریشان کن امر ہے۔نیب مقدمات بنا کر ریفرنسز عدالتوں میں پیش کرتا ہے لیکن مختلف وجوہات کی بناء پر کرپٹ لوگوں کوسزائیں نہیں مل پا رہیں۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے خلاف کرپشن کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں اور مجھے قوی امید ہے کہ اس کیس میں اپوزیشن لیڈر بچ نہیں پائیں گے۔

 بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے وزیر اعظم نے کہاکہ خیبر پختونخواکے بلدیاتی انتخابات میں شکست کی وجہ سے پارٹی کو بہت نقصان ہوا اور تنظیمی سطح پر یہ پارٹی کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ وزیر اعظم کا دعویٰ تھا کہ ان کا ووٹ بنک اب بھی موجود ہے۔ ٹکٹوں کی تقسیم میں جو غلطیاں خیبرپختونخوا میں کی گئی ہیں ان کو پنجاب میں دہرایا نہیں جائے گا۔ 

 جب سوال کیاگیا کہ پنجاب تو خیبر پختونخوا سے زیادہ سخت محاذ ہے، اگر خیبر پختونخوا میں کامیابی نہیں ملی تو پنجاب میں کیسے ممکن ہو گی ؟ اس پر وزیر ا عظم عمران خان نے ایک بارپھر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی کارکردگی کا بھرپور دفاع کیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہاکہ وہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدارکی کارکردگی سے پوری طرح مطمئن ہیں ۔عثمان بزدار میڈیا کے سامنے اپنے بہت سے اچھے کاموں کی صیح طرح تشہیر نہیں کر پا رہے۔ پنجاب کے بلدیاتی الیکشن میں ان کی پارٹی مضبوط انداز میں سامنے آئے گی۔

 ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے دو ٹوک انداز میں کہاکہ حکومت کے لیے آئندہ تین مہینے کافی اہم ہیں جس میں ہمیں ہرصورت مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہو گا۔ علاقائی اور خارجہ پالیسی کی صورتحال بالخصوص پاکستان کے امریکہ اور چین کیساتھ تعلقات میں توازن کے حوالے سے وزیر اعظم کاکہناتھا کہ پاکستان کے چین اور امریکہ  دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ دباؤ کے باجود پاکستان اب تک دونوں ممالک کیساتھ اپنے تعلقات خوش اسلوبی کیساتھ آگے بڑھا رہاہے۔ 

وزیر اعظم سے یہ سوالات پوچھنے کا ایک پس منظر ہے۔اسلام آباد کے حلقوں میں آجکل ایک خبر بڑے زور و شور سے زیر بحث ہے اور اس کا تعلق مبینہ طور پر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا راولپنڈی جانا اور وہاں چند اہم ملاقاتیں کرنے سے ہے۔ ایک حلقے کا کہنا ہے ن لیگ کے لیڈران اورسابق اسپیکر ایاز صادق کے چند ہفتے پہلے کا بیان اور ان کے حالیہ بیانات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ مستقبل قریب میں کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ ایک دوسرے حلقے کے مطابق ن لیگ کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کو کہا جا رہا کہ بیشک ہمارے کیسز چلنے دیں،ہمیں نا اہل رہنے دیں۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ ہو یا پھر وزارت عظمیٰ ن لیگ کو کچھ بھی نہیں چاہیے۔ الیکشن بھی اپنے مقررہ وقت پر ہوں، ہمیں اس پر بھی اعتراض نہیں۔ ن لیگ کی صرف اور صرف ایک ہی ڈیمانڈ ہے اور وہ ہے موجودہ حکومت کا خاتمہ۔  

ن لیگ کی لیڈرشپ کا خیال ہے کہ عمران کے علاوہ کوئی بھی اقتدار میں ہو، اس کے ساتھ بات چیت ہو سکتی ہے لیکن عمران خان کی موجودگی میں ان کے مسائل موجود رہیں گے۔ 

جیسا کہ وزیراعظم نے کہا کہ ایف آئی اے کی طرف سے جاری تحقیقات میں شہباز شریف کے خلاف کافی ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ عمران خان اگر حکومت میں موجود رہتے ہیں تو ان کی بھرپور کوشش ہوگی کہ یہ کیس اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔ نواز شریف اور مریم نواز پہلے ہی نااہل ہو چکے ہیں۔ اس کیس میں اگر شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو سزا ہو جاتی ہے تو شریف فیملی کے لیے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ کے بھی ملتے جلتے مسائل کا سامنا ہے۔ اگر اپوزیشن جماعتیں مل کر کسی حکومتی پارٹی کو اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں اور عمران خان حکومت کو گھر بھجوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس کے بعد کیا ہو گا؟ ن لیگ اور پیپلزپارٹی انتخابات کی طرف جائیں گے یا پھر موجودہ اسمبلی کی میعاد جو کہ2023ء میں پوری ہو گی کا انتظار کریں گے؟ 

 اگر عمران خان وزیراعظم نہیں رہتے تو دونوں پارٹیز کا خیال ہے وہ اپنے خلاف چلنے والے کیسز کے علاوہ باقی معاملات بھی سنبھال لیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اہم سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا وزیراعظم عمران خان اس کے لیے تیار ہیں؟اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک قانونی راستہ ہے اور اگر قومی اسمبلی میں اعتماد کھو دیتا ہوں تو پھر ظاہر ہے تحریک انصاف کو اپوزیشن بینچز پر بیٹھنا پڑے گا اور اس کے لیے ہم تیار ہیں۔ چند تبصرہ نگاروں کا خیال ہے کہ ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا کیونکہ آئندہ انتخابات میں بہت کم وقت باقی ہے۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ نہیں چاہے گی ملک کسی سیاسی عدم استحکام کی طرف  جائے۔ جو بھی تبدیلی آنی ہے وہ 2023ء میں الیکشن کے ذریعے ہی آئے اور اگر عمران خان کو حکومت سے نکالا جاتا ہے تو وہ ایک بھرپور مزاحمتی تحریک لانے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

خیبرپختونخوا میں مایوسی!

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورہر طرف سے مسائل میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ایک طرف صوبے کو مالی بحران درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھیلتی نظرآرہی ہے ۔ اب انہیں کابینہ کے اندر بھی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔

بلدیاتی اداروں کو بجٹ جاری

آزاد جموں وکشمیر حکومت نے بالآخر بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بجٹ جاری کر دیا۔ 32 سال کے بعد آزاد جموں وکشمیر کے بلدیاتی نمائندوں کی نشاندہی پر وزارت محکمہ مقامی حکومت و دیہی ترقی مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے پیسے جاری کرے گی تاکہ نچلی سطح پر لوگ اپنی نگرانی میں تعمیر و ترقی کا کام کرائے جا سکیں۔