چار ملکی کرکٹ سیریز کی پاکستانی تجویز، ایشیا کپ اور چمئینز ٹرافی کا میزبان پاکستان، بھارت پریشان

تحریر : عباد اللہ خان


کیا مودی حکومت میں پاک بھارت کرکٹ ممکن ہے؟،آئی سی سی کے آئندہ اجلاس میں پی سی بی پاکستان ، بھارت ، آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان سیریز کی تجویز پیش کرے گا

پاک بھارت کرکٹ جیسے دیکھنے کیلئے دونوں ممالک کے عوام ناصرف انتظار کرتے ہیں بلکہ اپنی ٹیموں کی کامیابی کیلئے دعائیں کرتے نظر آتے ہیں۔ جب روایتی حریف آمنے سامنے آتے ہیں تو ہر شخص ٹی وی سکرین کے سامنے ہوتا ہے ۔اس کی تازہ مثال متحدہ عرب امارات میں ہونے والے ٹی 20 ورلڈ کپ کی ہے، جب پاکستان نے بھارت کوریکارڈ شکست دی تو ہر سطح پر پاک بھارت سیریز کی باتیں ہونے لگیں۔ یہ تو ماننا پڑے گا کہ پاکستان اور بھارت کے لوگوں کی خواہش ہے کہ دونوں ممالک کے مابین کرکٹ دوبارہ شروع ہو، لیکن پاک بھارت سیریز ہمیشہ سے ہی سیاست کا شکار رہی ہے۔ ہربار بھارتی حکومت اور وہاں کی انتہا پسند تنظیموں کی وجہ سے پاک بھارت سیریز متاثر ہوجاتی ہے۔

 رمیز راجہ نے پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنتے ہی پاکستان کرکٹ کی ترقی کیلئے کام شروع کر دیا ہے۔ رمیز راجہ چیئرمین شپ سنبھالنے کے بعد آئی سی سی اور ایشین کرکٹ کونسل کے اجلاس میں بھی شرکت کر چکے ہیں ۔ اس دوران انھوں نے بی سی سی آئی کے سربراہ سارو گنگولی اور دیگر حکام سے بھی ملاقات کی ۔ ایشین کرکٹ کونسل کے اجلاس میں رمیز راجہ نے ایشین بلاک کو مضبوط کرنے کی بات کی اور تمام ایشین ممبران کے تعلقات میں بہتری کی خواہش ظاہر کی۔ سارو گنگولی بھی اپنے بیانات میں دبے الفاظ میں پاک بھارت سیریز کی حمایت کرتے نظر آئے ہیں،لیکن وہاں کی حکومت کی وجہ سے وہ کھل کر اس کا اظہار نہیں کرسکتے۔

چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ ایک غیر ملکی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے اور اپنے ٹوئٹ میں ایک بار پھر حریف ٹیموں کو آئی سی سی ایونٹس سے علیحدہ گراونڈ میں مد مقابل کرنے کے خواہاں نظر آئے۔ انھوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ،آئی سی سی کے آئندہ اجلاس میں چار ملکی کرکٹ سیریز کی تجویز پیش کرے گا۔ جس میں پاکستان ، بھارت ، آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان ہر سال سیریز منقعد ہوا کرے گی۔ جس سے آئی سی سی کے آمدن میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس طرح بگ تھری، بگ فور میں تبدیل ہوجائے گا۔ اس سیریز کا نظام چلانے کیلئے ایک الگ کمپنی بنائی جائے گا جس کا سربراہ بھی ہوگا۔ سیریز سے آنے والی آمدنی آئی سی سی کے ممبران بورڈز میں تقسیم کی جائے گی۔ اگر آئی سی سی اس تجویز کو مان لیتا ہے تو بھارت کرکٹ بورڈ کے فیصلے میں حکومت اور ہندو انتہا پسند تنظمیں رکاوٹ بنیں گی کیونکہ وہ نہیں چاہتے بھارت پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلے۔ بھارتی کرکٹ بورڈمیں بھی سیاسی اثرو رسوخ شدت سے پایا جاتا ہے جو کرکٹ کے آزادانہ فیصلے کرنے میں حائل رہتا ہے۔ بھارتی بورڈ کے سیکریٹری جے امتبھائی شاہ وزیرداخلہ امت نیل چندرا شاہ کے بیٹے ہیں جو بھارتیہ جنتا پارٹی کے بڑے سیاست دان ہیں، اور پارٹی کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔

اس سے پہلے چار ملکی سیریز کی تجویز 2019ء میں بی سی سی آئی کے سربراہ سارو گنگولی نے دی تھی، جس میں انہوں نے آسٹریلیا ، انگلینڈ اور بھارت کے ساتھ چوتھی ٹیم کا نام حذف کرلیا تھا، ان کی یہ بھی خواہش تھی کے چار ملکی ٹورنامنٹ کے پہلے ایونٹ کی میزبانی بھارت ہی کرے، ٹی 20 ورلڈ کپ 2021ء جس کا میزبان بھارت تھا، ٹورنامنٹ کی بھارت سے منتقلی کی بڑی وجہ کویڈ کیسز میں شدت کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کی بھارت میں سکیورٹی تھی۔ بی سی سی آئی پاکستان کرکٹ ٹیم کی سکیورٹی کے لئے آئی سی سی کو تحریری طور پر مطمئن نہیں کر سکا تھا۔ چار ملکی سیریز کے وینیو کا بھی رمیز راجہ نے ذکر کیا کہ ہر سال چاروں کرکٹ بورڈ باری باری سیریز کی میزبانی کریں گے۔ اب یہ معاملہ آئی سی سی اور بھارتی کرکٹ بورڈ نے حل کرنا ہے کیونکہ ہمیشہ کی طرح پاکستان ایک بار پھر پاک بھارت کشیدگی سے بالا تر ہوکر کرکٹ کی بحالی کے لئے کوشاں ہے۔ اگر یہ کوشش ناکام بھی ہوتی ہے تو پاکستان نے ایشیا کپ اور آئی سی سی چمپئنز ٹرافی کی میزبانی کرنی ہے جس میں بھارتی ٹیم کو ہر صورت پاکستان آنا پڑے گا۔ رمیز راجہ نے صاف طور پر کہہ دیا ہے جو پاکستان نہیں آنا چاہتا ہم اس کیلئے ایونٹس کا وینیو تبدیل نہیں کریں گے، ان کا کراچی میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کیلئے پاکستان آنے یا نہ آنے کا پریشر اب بھارت پر ہے،پاکستان اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے ۔ ایشیا کپ اور چیمپیئنز ٹرافی کو پاکستان میں دنیا کا بہترین ایونٹ بنانا ہے۔یہ چار ملکی سیریز کوئی نئی بات نہیں، 1985میں پہلی بار پاکستان، بھارت ، انگلینڈ اور آسٹریلیا نے یو اے ای کے شارجہ اسٹیڈیم میں چار ملکی ٹورنامنٹ کھیلاتھا، پھر یہ چاروں ٹیمیں مختلف ٹورنامنٹس میں باقاعدگی سے مد مقابل آتی رہیں۔

 پاکستان اور بھارت کی ٹیموں نے اب تک مختلف کرکٹ فارمیٹس میں کْل 200 میچ کھیلے ہیں ، 70 بھارت کے نام رہے اور 87 میچز پاکستان جیتا،43 مقابلے بغیر نتیجہ رہے ، 2007ء سے 2021ء تک دونوں ٹیمیں 9 بار ٹی 20 فارمیٹ میں آمنے سامنے آئیں ۔6 انٹرنیشنل ٹی 20 میچز میں بھارت نے کامیابی حاصل کی جبکہ دو میں پاکستان فتح یاب رہا۔1978ء سے 2019ء تک 132ون ڈے انٹرنیشنل مقابلوں میں پاکستان کو 73 میچز میں فتح جبکہ 55 مقابلوں میں بھارت کے خلاف شکست کھانا پڑی۔ اس کے علاوہ1952ء سے 2007ء تک 59ٹیسٹ میچز میں 12 پاکستان اور 9 میں بھارت کامیاب رہا ،جبکہ 38 مقابلے ڈرا  ہوئے۔

پاکستان نے آخری سیریز 2012-13ء میں بھارت میں جاکر کھیلی تھی، ٹی 20سیریز 1-1 سے برابر رہی تھی جبکہ ون ڈے سیریز میں قومی ٹیم نے 1-2 سے کامیابی حاصل کی تھی۔

 چار ملکی سیریز کے بارے میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل تاحال چپ ہے ، آئی سی سی چیف ایگزیکٹو آفسر جیف الارڈائس کا کہنا ہے کہ فی الحال پی سی بی چیئرمین رمیز راجہ نے اس حوالے سے آئی سی سی کو نہیں بتایا ، آئی سی سی اس کی تفصیلات نہیں جانتا ،پی سی بی جب معاملات آئی سی سی پر واضح کرے گا تو اس پر بات ہوگی قبل از وقت بات کرنا نہیں چاہتے۔تاہم بھارت کو ایشیاکپ کھیلنے 2023ء میں پاکستان آنا ہے۔ ایشین کرکٹ کونسل کے اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ ایشیا کپ 2023ء کی میزبانی پاکستان نے کرنی ہے ، اب بھارتی حکومت کو ایک بڑا فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنی ٹیم کو ایشیا کپ کھیلنے پاکستان بھیجتی ہے یا نہیں۔ اگر انڈین ٹیم پاکستان نہیں آتی تو ایشین کرکٹ بلاک میں ایک غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوجائے گی ۔ چیمپئینز ٹرافی 2025ء کی میزبانی بھی آئی سی سی نے پاکستان کے سپرد کی ہے۔ یہ دونوں ایونٹس بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو استوار کر سکتے ہیں۔ ان ایونٹس میں اگر بھارتی ٹیم پاکستان کا دورہ کرتی ہے تو مستقبل میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ کی راہیں ہموار ہو جائیں گی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

خیبرپختونخوا میں مایوسی!

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورہر طرف سے مسائل میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ایک طرف صوبے کو مالی بحران درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھیلتی نظرآرہی ہے ۔ اب انہیں کابینہ کے اندر بھی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔

بلدیاتی اداروں کو بجٹ جاری

آزاد جموں وکشمیر حکومت نے بالآخر بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بجٹ جاری کر دیا۔ 32 سال کے بعد آزاد جموں وکشمیر کے بلدیاتی نمائندوں کی نشاندہی پر وزارت محکمہ مقامی حکومت و دیہی ترقی مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے پیسے جاری کرے گی تاکہ نچلی سطح پر لوگ اپنی نگرانی میں تعمیر و ترقی کا کام کرائے جا سکیں۔