صوبائی حکومت میں بڑھتے اندرونی اختلافات!

تحریر : عابد حمید


خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کیلئے سیاسی جماعتوں کی تیاریاں جاری ہیں۔ حکمران جماعت سمیت اپوزیشن جماعتیں بھی بھرپور نتائج حاصل کرنے کیلئے مضبوط امیدوار سامنے لانے کیلئے کوشاں ہیں۔

 پی ٹی آئی کو انتخابات کے پہلے مرحلے میں شکست کا سامنا کرناپڑا تھا ،اسی لئے اب پارٹی چیئرمین عمران خان خود متحرک ہوگئے ہیں۔ گزشتہ روز اسی سلسلے میں انہوں نے پشاور کا دورہ کیا جہاں انہیں ایک بارپھر اپنے ارکان اسمبلی کے گلے شکوے اور سخت باتیں سننی پڑیں۔ اس سے قبل وفاقی وزیر پرویزخٹک بھی منی بجٹ کی منظوری سے قبل پارٹی چیئرمین کے ساتھ تلخ جملوں کا تبادلہ کرچکے ہیں۔ پرویزخٹک ہوشیار سیاستدان سمجھے جاتے ہیں جن کی کسی بھی پارٹی سے اڑان کی ٹائمنگ انتہائی اہم ہوتی ہے۔ پرویزخٹک مختلف جماعتوں کا حصہ رہے ہیں اور ہر بار کسی نہ کسی حکومتی عہدے پر بھی رہے ہیں ۔جوڑ توڑ کے انتہائی ماہر ہیں اور پی ٹی آئی کے اندر بھی ان کا ایک مضبوط گروپ موجود ہے۔ پرویزخٹک کے آدھے سے زیادہ خاندان کے افراد بھی اس وقت اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

 وزیراعظم عمران خان نے دورہ پشاور کے دوران ارکان اسمبلی کے سامنے پرویزخٹک کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے جس سے دو تاثر اجاگر ہوئے ایک یہ کہ پارٹی چیئرمین اور پرویزخٹک کے مابین اختلافات نہیں اور دوسرا یہ کہ پرویزخٹک کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات بجا تھے۔ اب خیبرپختونخوا میں بجلی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے وفاقی سطح پر امداد کی جائے گی ۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پرویزخٹک نے خیبرپختونخوا کے حوالے سے جن مسائل کا ذکر کیاتھا انہیں وزیراعظم کے سامنے رکھنا وزیراعلیٰ محمود خان کا کام تھا۔ صوبے کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے انہیں یہ مسائل نہ صرف وفاق میں موجود اپنی حکومت کے سامنے رکھنے چاہئیں تھے بلکہ بجلی کے خالص منافع سمیت قبائلی اضلاع کیلئے اعلان کردہ فنڈز کے حصول کیلئے بھی کوشش کرنی چاہئے تھی۔پرویزخٹک کے بعد ایم این اے نورعالم خان نے بھی مہنگائی اوربجلی کی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے اپنی ہی حکومت پر شدید تنقید کی ہے۔ وزیراعظم کی زیرصدارت پشاور میں ہونے والے اجلاس میں نور عالم خان سمیت 28 ارکان اسمبلی غیر حاضر رہے۔

 اجلاس میں پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی ایک بارپھر ایک دوسرے کے خلاف برس پڑے۔ اس وقت پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ نقصان ان کے اندرونی اختلافات ہی پہنچارہے ہیں۔ صوبائی وزراء کو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں،یوں لگ رہا ہے کہ وزیراعلیٰ محمود خان اور صوبائی وزیر عاطف خان کے مابین اختلافات تاحال ختم نہیں ہوسکے ۔ اسی طرح گورنر اور وزیراعلیٰ کے مابین بھی قربتیں پہلے جیسی نہیں رہیں۔ ایوان کی غلام گردشوں میں خیبر پختونخوا میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلی کی باتیں کی جارہی ہیں۔ اس بات کا امکان ظاہر کیاجارہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے قبل یا فوری بعد صوبے میں کوئی بڑی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے فیز کے نتائج نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ ملک بھر کی سیاست پر مرتب ہوں گے ۔

اس وقت جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سب سے زیادہ مطمئن نظر آرہے ہیں اور انہوں نے مارچ میں ’’لانگ مارچ‘‘کا اعلان کررکھا ہے۔ وفاق اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کو اس وقت اپوزیشن جماعتوں سے زیادہ بڑا مسئلہ مہنگائی کا درپیش ہے جس کا فی الوقت کوئی توڑ نظر نہیں آرہا۔

دوسری جانب ن لیگ کی جانب سے دعویٰ کیاجارہا ہے کہ پی ٹی آئی کے متعدد ارکان ان سے رابطے میں ہیں۔ جے یو آئی کی جانب سے بھی ایسے دعوے کئے جارہے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں نے اگرچہ اس حوالے سے خاموشی اختیار کررکھی ہے لیکن تشویش ضرور پائی جاتی ہے۔ موجودہ صورتحال سے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی خود بھی کچھ مایوس اور پریشان نظر آرہے ہیں ۔ مارچ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کا امتحان بھی آن پڑا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر نگاہ دوڑائی جائے تو خیبرپختونخوا میں ایک بارپھر مذہبی ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے ۔پیپلزپارٹی ،قومی وطن پارٹی اور جماعت اسلامی کی اس صوبے میں سیاست دم توڑتی نظر آرہی ہے ۔صوبائی سیاست میں تحریک لبیک کے ظہور نے بھی سیاسی تجزیہ کاروں کو حیران کردیا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں تحریک لبیک نے ڈی آئی خان ،ہری پور ،نوشہرہ اور ٹانک سے تحصیل چیئرمین کیلئے سات امیدوار اتارے جنہوں نے مذہبی جماعتوں جماعت اسلامی ،جے یو آئی اور قومی وطن پارٹی سے زائد ووٹ حاصل کئے۔

 الیکشن کمیشن کے ڈیٹا کے مطابق سب سے زیادہ گھاٹے میں قومی وطن پارٹی رہی جنہیں بہت کم تحصیلوں سے امیدوار مل سکے ۔پیپلزپارٹی بھی امیدوار ڈھونڈتی رہ گئی۔ ان انتخابات میں اگرچہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف زیادہ نشستیں نہیں حاصل کرسکی لیکن ووٹ کی مناسبت سے پی ٹی آئی اب بھی ٹاپ پوزیشن پر ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی اب بھی صوبے کی مقبول جماعت ہے جس نے ہر تحصیل سے اپنے امیدوار کھڑے کئے اور انہیں دیگر جماعتوں کی طرح امیدوار ڈھونڈنے میں زیادہ مشکل کا سامنا نہیں کرناپڑا۔ یہ الگ بات ہے کہ امیدوار کا چناؤ ٔکیسے کیاگیا اور ٹکٹ میرٹ پر دیاگیا یا سفارش پر؟پی ٹی آئی کی تمام تر توجہ انہی غلطیوں کو نہ دوہرانے پر مرکوز ہے۔

 پرویزخٹک کی سربراہی میں امیدواروں کو ڈھونڈا جارہا ہے ۔بلدیاتی انتخابات سے قطع نظر عوامی نمائندوں کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کا اجلاس بار بار کورم کی نظر ہورہا ہے۔ سوشل میڈیا پر مہنگائی اوربیروزگاری کے خلاف بیانات داغنے والے اپوزیشن جماعتوں کے رہنما بھی اسمبلی کے پلیٹ فارم سے آواز اٹھانے کیلئے تیار نظر نہیں آتے ۔ صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف وزراء ایوان سے غائب ہیں تو دوسری جانب حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی بھی اسمبلی اجلاس میں شرکت نہیں کررہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔

الزامات لگاتے رہو،کام نہ کرو!

سندھ کی سیاست بڑی عجیب ہے، یہاں ایک دوسرے پر الزامات اور پھر جوابی الزامات کا تسلسل چلتا رہتا ہے۔ اگر نہیں چلتی تو عوام کی نہیں چلتی۔ وہ چلاتے رہیں، روتے رہیں، ان کی پکار سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ پیپلز پارٹی میں البتہ ایک صلاحیت دوسری تمام سیاسی جماعتوں سے زیادہ ہے، اور وہ یہ کہ کم از کم عوام کو بولنے کا موقع تو دیتی ہے۔ شاید وہ اس مقولے پر عمل کرتی ہے کہ بولنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے، اور عوام بھی تھک ہار کر ایک بار پھر مہنگائی اور مظالم کا سامنا کرنے کیلئے خود کو تیار کرلیتے ہیں۔ پہلے بات کرتے ہیں سیاست کی۔

خیبر پختونخوا کے دوہرے مسائل

خیبرپختونخوا اس وقت بارشوں،مہنگائی، چوری رہزنی اور بدامنی کی زد میں ہے ۔حالات ہیں کہ آئے روز بگڑتے چلے جارہے ہیں۔

بلوچستان،صوبائی کابینہ کی تشکیل کب ہو گی ؟

آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ صوبائی حکومت اور کابینہ کی تشکیل تین ہفتوں تک کردی جائے گی اور انتخابات کی وجہ سے التوا کا شکار ہونے والے منصوبوں پر کام کا آغاز کردیا جائے گا مگر دو ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود صوبے میں اب تک صوبائی اسمبلی کے تعارفی اجلاس اور وزیر اعلیٰ کے حلف اٹھانے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوسکا۔

آزادکشمیر حکومت کی ایک سالہ کارکردگی

20 اپریل کو آزاد جموں وکشمیر کی اتحادی حکومت کا ایک سال مکمل ہوجائے گا۔ گزشتہ سال آزاد جموں وکشمیر ہائی کورٹ کی طرف سے سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کو نا اہل قرار دیا گیا تو مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے فارورڈ بلاک کے ارکان نے مشترکہ طور پر چوہدری انوار الحق کو وزیر اعظم بنالیا جو اُس وقت آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کے سپیکر تھے۔ حلف اٹھانے کے بعد چوہدری انوار الحق نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ آزاد کشمیر میں تعمیر وترقی، اچھی حکمرانی ، میرٹ کی بالادستی اور کرپشن کے خلاف مؤثر کارروائی کی عملی کوشش کریں گے۔