ایوانِ بالا میں ’’ صوبہ جنوبی پنجاب‘‘ کی گونج

تحریر : افتخارالحسن


موجودہ حکومت کے چار سال تقریبا ًمکمل ہونے کو ہیں۔ عام انتخابات سے پہلے تمام سیاسی جماعتیں اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔

 گزشتہ عام انتخابات میں تحریک انصاف اور صوبہ محاذ نے جنوبی پنجاب کے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ اقتدار کے پہلے 100 دن میں جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنا دیں گے مگریہ وعدہ 4 سال گزرنے کے باوجود وفا نہ ہو سکا۔ پہلے پیپلزپارٹی نے جنوبی پنجاب الگ صوبہ کو اپنے منشور میں شامل کیا اور یہاں الگ تنظیم سازی کی جس کے بعد تحریک انصاف نے بھی جنوبی پنجاب کیلئے پارٹی کی الگ تنظیم سازی کی اور جنوبی پنجاب کے عوام کے امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنی جماعت کے منشور میں بھی شامل کیا۔ جنوبی پنجاب کیلئے پہلی بار الگ بجٹ مختص کیا گیا اور الگ سیکرٹریٹ بھی بنا دیا گیا جو آدھا ملتان جبکہ آدھا بہاولپور میں قائم کیا گیا ہے ۔مختلف محکموں کے 17 سیکرٹریز تعینات کر دیئے گئے مگر ابھی تک اختیارات منتقل نہیں کئے گئے ۔سیکرٹریٹ کو مکمل بااختیار بنانے کیلئے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی پرعزم اور اختیارات کی منتقلی کیلئے کوشاں ہیں مگر اب وقت کم ہے۔ 

گزشتہ دنوں جنوبی پنجاب الگ صوبہ کی گونج ایوان بالا میں بڑے زور سے سنا ئی دی جب مسلم لیگ (ن)سے تعلق رکھنے والے سینیٹر رانا محمود الحسن نے سینیٹ میں جنوبی پنجاب الگ صوبہ کا بل پیش کیا اور حکومت کو وعدہ یاد دلایا اور کہا کہ اگر پٹھانوں کیلئے ان کے نام پر ، بلوچوں کیلئے بلوچستان، سندھیوں کیلئے سندھ بنائے جا سکتے ہیں تو سرائیکیوں کیلئے الگ سرائیکی صوبہ کیوں نہیں بنایا جا سکتا ؟ دلچسپ بات یہ کہ رانا محمود الحسن سرائیکی نہیں لیکن ان کی اس خطہ سے محبت کا یہ ثبوت ہے اور ان لوگوں کیلئے بھی خوبصورت جواب ہے جو لسانی بنیادوں پر پروپیگنڈا کرتے ہیں ۔رانا محمود الحسن کی اس کاوش نے تمام پروپیگنڈا اور سازشوں کو نفی کردیا۔ سینیٹ میں جنوبی پنجاب الگ صوبہ پر بحث کرتے ہوئے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم الگ صوبہ کیلئے پر عزم ہیں مگر ہمارے پاس اکثریت نہیں ہے جبکہ اس قانون سازی کیلئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ہم نے اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے جنوبی پنجاب الگ سیکرٹریٹ قائم کردیا جس سے الگ صوبہ کی بنیاد رکھی گئی۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ پہلی بار ہم نے جنوبی پنجاب کیلئے الگ بجٹ مختص کیا اور اب جنوبی پنجاب کا بجٹ جنوبی پنجاب پر ہی لگایا جائے گا۔ اگر ہمارے پاس قانون سازی کیلئے مینڈیٹ ہوتا تو الگ صوبہ بنانے میں دیر نہ کرتے۔

ایوان بالا میں جنوبی پنجاب الگ صوبہ پر بحث کرتے ہوئے لیڈر آف دی اپوزیشن سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ اگر حکومت جنوبی پنجاب الگ صوبہ کیلئے سنجیدہ ہے تو بتائے کس سیاسی جماعت سے بات کی ؟4 سال گزرنے کو ہیں کسی بھی سیاسی جماعت سے مشاورت نہیں کی۔ اگر حکومت مخلص ہے تو آئیں ہمارے ساتھ بات کریں ہم الگ صوبہ کیلئے مکمل سپورٹ کریں گے۔ سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ دو تہائی اکثریت نہ ہونا ایک بہانہ ہے ۔دوتہائی اکثریت کوئی مسئلہ نہیں ہے، اصل مسئلہ حکومت کی غیر سنجیدگی ہے ۔ سید یوسف رضا گیلانی نے مزید کہا کہ ہمیں الگ صوبہ چاہئے ،الگ سیکرٹریٹ نہیں  ہمیں اپنا وزیر اعلیٰ چاہیے ،الگ گورنر اور الگ صوبائی اسمبلی چاہیے، الگ سینیٹ کی نمائندگی چاہیے ،ہمیں ہمارا پورا حق چاہئے ہم کسی کے رعایا نہیں ۔ آپ کون ہوتے ہیں بہاولپور اور ملتان دو شہروں میں سیکرٹریٹ بنائیں ؟یہ کام جنوبی پنجاب کے عوام کا ہے اور یہ فیصلہ وہاں کی اسمبلی کرے گی کہ جنوبی پنجاب کا ہیڈ کوارٹر کہاں ہونا چاہیے۔ 

ایوان بالا میں سینیٹر رانا محمود الحسن نے جنوبی پنجاب الگ صوبہ کا بل پیش کرکے حکومت کو امتحان میں ڈال دیا ہے حالانکہ یہ کام اور ذمہ داری موجودہ حکومت کی تھی جو عوام سے صرف 100 دن میں الگ صوبہ کا وعدہ کرکے اقتدار تک پہنچی ۔ اب رانا محمود الحسن نے جنوبی پنجاب الگ صوبہ کیلئے سینیٹ میں بل پیش کیا مطلب مسلم لیگ(ن) الگ صوبہ کیلئے عملی اقدام کرگزری جبکہ سید یوسف رضا گیلانی نے حکومت کو دعوت دی کہ آئیں ہمارے ساتھ بات کریں ،جنوبی پنجاب الگ صوبہ کیلئے ہم ساتھ دیں گے ۔ اب دوتہائی اکثریت والی بات تو تقریباً ختم ہوچکی ۔اب بھی اگر تحریک انصاف عملی اقدامات نہیں کرپاتی تو یہ عوام پر واضح ہو چکا ہے کہ اب کوئی رکاوٹ نہیں۔

 غور کیا جائے تو تحریک انصاف کی ہی حکومت میں متعدد ایسی قانون سازیاں کی گئیں جہاں دو تہائی اکثریت کی ضرورت تھی اور وہ قانون سازی ہو بھی گئی ۔اب جب کہ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کا موقف عوام کے سامنے آ چکا تو حکومت کیسے راہ فرار اختیار کرے گی؟ بہرحال اب حکومت کیلئے کڑا امتحان ہے اور کوئی بہانہ بھی نہیں رہا۔ اقتدار میں پہنچنے کیلئے کیا گیا وعدہ وفا کرنے کا سنہری موقع فراہم کردیا گیا ہے۔ عوامی عدالت میں جانے کا وقت بھی ہوا جاتا ہے۔ ایک سال سے زائد کا وقت موجود ہے جس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔جس کا اشارہ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اپنی تقریر میں کیا کہ اگر نیت ٹھیک ہے تو وقت ابھی موجود ہے ۔ 

گزشتہ دنوں صوبہ محاذ کے سینئر راہنما سے بات چیت کے دوران انکشاف ہوا کہ وہ اس سال الگ صوبہ ہر صورت بنائیں گے اور ان کے مطابق وہ اب تک اس لئے خاموش رہے کہ پنجاب کی حکومت ہمارے ہاتھ سے نکل جاتی کیونکہ ہمارے پاس اکثریت نہیں۔ اب آخری سال ہے اور ہم یہ وعدہ وفا کریں گے ،بلکہ انہوں نے تو یہ بھی کہا کہ یہ بل میں خود قومی اسمبلی میں پیش کروں گا جس کیلئے میری وزیراعظم عمران خان سے مشاورت مکمل ہوچکی ہے۔اپوزیشن نے سینیٹ میں بل پیش کردیا گیا ہے۔ اس کا فیصلہ جو بھی ہو، ایک بات واضح ہے کہ اس بل کی جو بھی جماعت یا سیاستدان مخالفت کرے گا وہ کم از کم جنوبی پنجاب کے عوام کیلئے تو ناقابل برداشت ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

عزیز حامد مدنی اک چراغ تہ داماں

عزیز حامد مدنی نے نہ صرف شاعری بلکہ تنقید، تبصرے اور تقاریر میں ان روایات کی پاسداری کی جو عہد جدید میں آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں

اردوشعریات میں خیال بندی

معنی آفرینی اور نازک خیالی کی طرح خیال بندی کی بھی جامع و مانع تعریف ہماری شعریات میں شاید موجود نہیں ہے اور ان تینوں اصطلاحوں میں کوئی واضح امتیاز نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً آزاد، ناسخ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

علامہ محمداقبالؒ کا فکروفلسفہ :شاعر مشرق کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی، مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒ بیسویں صدی کی نابغہ روز گار شخصیت تھی۔ وہ ایک معروف شاعر، مفکر، فلسفی،مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کے اہم رہنما تھے۔اپنے فکر و فلسفہ اور سیاسی نظریات سے اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا۔ ان کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی۔

جاوید منزل :حضرت علامہ اقبال ؒ نے ذاتی گھر کب اور کیسے بنایا؟

لاہور ایک طلسمی شہر ہے ۔اس کی کشش لوگوں کو ُدور ُدور سے کھینچ کر یہاں لےآ تی ہے۔یہاں بڑے بڑے عظیم لوگوں نے اپنا کریئر کا آغاز کیا اور اوجِ کمال کوپہنچے۔ انہی شخصیات میں حضرت علامہ اقبال ؒ بھی ہیں۔جو ایک بار لاہور آئے پھر لاہور سے جدا نہ ہوئے یہاں تک کہ ان کی آخری آرام گاہ بھی یہاں بادشاہی مسجد کے باہر بنی، جہاںکسی زمانے میں درختوں کے نیچے چارپائی ڈال کر گرمیوں میں آرام کیا کرتے تھے۔

چمگاڈر کی کہانی

یہ کہانی ایک چمگادڑ کی ہے۔ دراصل ایک مرتبہ باز، شیر کا شکار کیا ہوا گوشت لے اڑتا ہے۔ بس اسی بات پر پرند اور چرند کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے اور جنگ کے دوران چالاک چمگادڑ اس گروہ میں شامل ہوجاتی جو جیت رہا ہوتا ہے۔ آخر میں چمگادڑ کا کیا حال ہوتا ہے آئیں آپ کو بتاتے ہیں۔

عادل حکمران

پیارے بچو! ایران کا ایک منصف مزاج بادشاہ نوشیرواں گزرا ہے۔ اس نے ایک محل بنوانا چاہا۔ جس کیلئے زمین کی ضرورت تھی اور اس زمین پر ایک غریب بڑھیا کی جھونپڑی بنی ہوئی تھی۔