روحی بانو کردار کو حقیقت میں بدل دینے والی فنکارہ

تحریر : محمد ارشد لئیق


مصنف انہیں سامنے رکھ کے کہانی بُنتے تھے ، اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں ، پرائیڈ آف پرفارمنس بھی حاصل کیا ، ڈرامہ میں اپنی بہترین اداکاری کے انمٹ نقوش چھوڑے

روحی بانو صرف ایک نامور اداکارہ نہیں بلکہ ٹی وی ڈرامے کے ایک عہد کا نام تھا، وہ ایک ایسی اداکارہ تھیں، مصنف جن کی شخصیت کو سامنے رکھ کر کہانی کا تانا بانا بنتے تھے۔ روحی بانو بھی اپنے فن اداکاری سے کردار میں ایسا رنگ بھرتیں کہ دیکھنے والے اس کے سحر میں جکڑ جاتے۔ پاکستان کی اس عظیم فنکارہ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تین برس بیت گئے ہیں مگر وہ اپنے کام کی بدولت اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ 

روحی بانو 10اگست 1951ء میں بھارتی شہر ممبئی میں پیدا ہوئیں۔ وہ ہندوستان  کے ہی نہیں برصغیر کے مشہور طبلہ نواز استاد اللہ رکھا کی بیٹی تھیں جن کا فن موسیقی میں اپنا ایک مقام تھا۔ والد کی دوسری شادی کے باعث روحی بانو کی والدہ بچوں کو لے کر پاکستان چلی آئیں جبکہ والد 2000ء میں انڈیا میں ہی انتقال کر گئے تھے۔ بھارت کے معروف طبلہ نواز استاد ذاکر علی ان کے سوتیلے بھائی ہیں جبکہ ان کی ایک سگی بہن انگلینڈ میں مقیم ہیں۔

 روحی بانو کا شمار پاکستان کے ماضی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ فنکاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج سے سائیکالوجی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی۔ وہ جب گورنمنٹ کالج میں زیر تعلیم تھیں تب پہلی بار ٹی وی پر جلوہ گر ہوئیں، انہیں ایک کوئز شو میں مدعو کیا گیا تھااور یہی فن کے سفر میں ان کا نقطہ آغاز تھا۔ ٹی وی پر آنے کا یہ سلسلہ جو شروع ہوا تو پھر یہ تھما نہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ سرکاری ٹی وی کی ابتدائی کامیابیوں میں روحی بانو کی اداکاری کا بہت بڑا حصہ ہے تو غلط نہ ہو گا۔ جب آج کے ترقی یافتہ سرکاری ٹی وی کو یہ سب وسائل دستیاب نہیں تھے۔ اس لئے فنکار اور پروڈیوسرز بڑی محنت سے اپنا کردار نبھاتے اور لوگوں کو اس طرف متوجہ کرتے تھے۔ روحی بانو نے 1970ء کے عشرے میں بیشمار  ڈراموں میں یادگاری کردار نبھائے۔ روحی بانو کے ابتدائی ڈراموں میں حسینہ معین کا ڈرامہ ”کرن کہانی“ قابل ذکر ہے جو 1973ء میں نشر ہوا۔ اس کے بعد 1974ء میں ”زیر زبر پیش“ ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ یہ دونوں وہ ڈرامے ہیں جو سرکاری ٹی وی کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دونوں ڈرامے روحی بانو کی فنکارانہ صلاحیتوں کا بھی منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے ہر اہم ڈرامے میں، بہترین اداکار کے ساتھ،اہم کردار ادا کیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ڈراموں میں روحی بانو کی موجودگی لازمی سمجھی جانے لگی۔ 

اشفاق احمد کی مقبول ترین ڈرامہ سیریز ”ایک محبت سو افسانے“ کے کھیل ”اشتباہ نظر“ میں روحی بانو کی اداکاری کو فراموش کرنا ممکن ہی نہیں۔ ”دروازہ“، ”زرد گلاب“، ”دھند“، ”سراب“، ”قلعہ کہانی“ ہو یا پھر ”حیرت کدہ“ ان کے کس ڈرامے کو یاد رکھیں اور کسے بھولیں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ ان کے ڈرامے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں بالخصوص انڈیا میں بہت پسند کئے جاتے تھے۔ ٹی وی پر ان کے ساتھ کام کرنے والے فنکاروں میں قوی خان، ڈاکٹر انور سجاد، خیام سرحدی، فردوس جمال، مسعود اختر، آغا سکندر، جمیل فخری، عاصم بخاری اور عابد علی جیسے اداکار شامل تھے۔ یہ سب کے سب روحی بانو کی اداکاری کے معترف تھے۔ 

صرف چھوٹی سکرین ہی نہیں بلکہ بڑی سکرین پر بھی روحی بانو نے اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ فلمی دنیا میں ان کا کریئر ڈبل اننگز پر مشتمل ہے۔ پہلی اننگز میں وہ فلمی ماحول میں ایڈجسٹ نہ ہو سکیں اور وہاں سے واپسی اختیار کر لی۔ ہیرے کی پہچان رکھنے والے جوہری انہیں دوبارہ فلمی صنعت میں لے آئے۔ اس اننگز میں انہوں نے کئی شاندار فلموں میں کام  کیا۔ جن میں ”راستے کا پتھر“، ”نوکر“، ”زینت“، ”پہچان“، ”سیاں اناڑی“، ”دلہن ایک رات کی“،  ”اناڑی“، ”بڑا آدمی“، ”دل ایک کھلونا“،”گونج اٹھی شہنائی“،”آج کا انسان“، ”پالکی“، ”کائنات“، ”خدا اور محبت“، ”کرن اور کلی“ شامل ہیں۔

اگر روحی بانو کی ذاتی زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو اس میں ہمیں دکھ ہی دکھ، ناکامیاں ہی ناکامیاں نظر آتی ہیں۔ صدارتی ایوارڈ حاصل کرنے والی روحی بانو پے درپے صدمات کی زد میں رہیں۔ دو بار شادی کے بندھن میں بندھیں مگر دونوں ہی بارخوشیوں سے محروم رہیں۔ پھر ان کے جگر کے ٹکڑے کو کسی نے قتل کر دیا۔ اکلوتے بیٹے فرزند علی کے قتل کے بعد گویا زندگی کی تمام رعنائیاں ہی اُن سے چھِن گئیں۔ یہ وہ صدمات تھے جنہوں نے خوش حال اور مایہ ناز فنکارہ کو نڈھال کر کے رکھ دیا۔ جس سے وہ نفسیاتی مرض ”شیزو فرینیا“  کا شکار ہو کر فاؤنٹین ہاؤس جا پہنچیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور صدارتی تمغہ برائے حُسن کارکردگی حاصل کرنے والی روحی بانو کو گردوں کا عارضہ بھی لاحق تھا۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ ترکی میں اپنے بھانجے کے پاس مقیم تھیں،وہیں ان کا انتقال ہوا اور وہیں تدفین کی گئی۔ 

اللہ سے دعا ہے کہ روحی بانو کو زندگی میں تو سکون نہ مل سکا، اللہ کرے مرنے کے بعد انہیں سکون حاصل ہو۔ امین

محمد ارشد لئیق ایک سینئر صحافی ہیں، آج کل روزنامہ ”دنیا“ کے ساتھ بطور ایڈیشن انچارج وابستہ ہیں، ان کے سیکڑوں مضامین ملک کے موقر جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں 

اداکار عاصم بخاری نے روزنامہ ”دنیا“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلاشبہ روحی بانو کو ٹی وی کی ان اداکاراؤں میں شمار کیا جاتا ہے جن کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جاتا ہے۔ روحی کا اداکاری کرنے کا اپنا ہی ایک انداز تھا، یعنی انہوں نے اداکاری میں ایک نیا اسلوب متعارف کرایا جو یقیناً روحی بانو کا اسلوب ہے۔ ان کے بعد آنے والوں نے انہیں کاپی کیا اور ان کے کردار نگاری کے اسلوب کو آگے بڑھایا۔ روحی بلاشبہ وہ فنکارہ ہیں جن کا آج بھی ایک زمانہ دیوانہ ہے۔ ان کے ادا کئے ہوئے کردار آج بھی ان کی عظمت کی دلیل کے طور پر موجود ہیں۔ افسوس اس امر کا ہے کہ ذاتی مسائل میں الجھ کر وہ فن کی دنیا سے دور ہو گئیں۔ان کی اداکاری بھارت کی ”پونا فلم اکیڈمی“ کے نصاب میں شامل ہے۔ ایک فنکار کے لیے اس سے بڑی خوش نصیبی کیا ہو گی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔

الزامات لگاتے رہو،کام نہ کرو!

سندھ کی سیاست بڑی عجیب ہے، یہاں ایک دوسرے پر الزامات اور پھر جوابی الزامات کا تسلسل چلتا رہتا ہے۔ اگر نہیں چلتی تو عوام کی نہیں چلتی۔ وہ چلاتے رہیں، روتے رہیں، ان کی پکار سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ پیپلز پارٹی میں البتہ ایک صلاحیت دوسری تمام سیاسی جماعتوں سے زیادہ ہے، اور وہ یہ کہ کم از کم عوام کو بولنے کا موقع تو دیتی ہے۔ شاید وہ اس مقولے پر عمل کرتی ہے کہ بولنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے، اور عوام بھی تھک ہار کر ایک بار پھر مہنگائی اور مظالم کا سامنا کرنے کیلئے خود کو تیار کرلیتے ہیں۔ پہلے بات کرتے ہیں سیاست کی۔

خیبر پختونخوا کے دوہرے مسائل

خیبرپختونخوا اس وقت بارشوں،مہنگائی، چوری رہزنی اور بدامنی کی زد میں ہے ۔حالات ہیں کہ آئے روز بگڑتے چلے جارہے ہیں۔

بلوچستان،صوبائی کابینہ کی تشکیل کب ہو گی ؟

آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ صوبائی حکومت اور کابینہ کی تشکیل تین ہفتوں تک کردی جائے گی اور انتخابات کی وجہ سے التوا کا شکار ہونے والے منصوبوں پر کام کا آغاز کردیا جائے گا مگر دو ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود صوبے میں اب تک صوبائی اسمبلی کے تعارفی اجلاس اور وزیر اعلیٰ کے حلف اٹھانے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوسکا۔

آزادکشمیر حکومت کی ایک سالہ کارکردگی

20 اپریل کو آزاد جموں وکشمیر کی اتحادی حکومت کا ایک سال مکمل ہوجائے گا۔ گزشتہ سال آزاد جموں وکشمیر ہائی کورٹ کی طرف سے سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کو نا اہل قرار دیا گیا تو مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے فارورڈ بلاک کے ارکان نے مشترکہ طور پر چوہدری انوار الحق کو وزیر اعظم بنالیا جو اُس وقت آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کے سپیکر تھے۔ حلف اٹھانے کے بعد چوہدری انوار الحق نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ آزاد کشمیر میں تعمیر وترقی، اچھی حکمرانی ، میرٹ کی بالادستی اور کرپشن کے خلاف مؤثر کارروائی کی عملی کوشش کریں گے۔