سینیٹ میں آرٹسٹ رائلٹی کا بل منظور اب چوری اور سینہ زوری نہیں چلے گی

تحریر : اشفاق حسین


ڈرامہ ، پروگرام جتنی بار نشر ہوگا فنکاروں کو اتنی بار معاوضہ دیا جائے گا

اس وقت پوری دنیا میں کاپی رائٹ ایکٹ کی خلاف ورزی دیدہ دلیری سے کی جارہی ہے اور ترقی پذیر ممالک میں تو کاپی رائٹس قوانین کی خلاف ورزی عام ہے۔ پاکستان شوبز انڈسٹری کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے جن کے حل کے لئے ہر دور میں کوششیں کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود آج تک ہر حکومت نے عملی اقدامات کے بجائے باتیں اور دعوئے ہی کئے۔یہی وجہ ہے اس وقت ہماری فلم، ٹی وی، فیشن، تھیٹر اور میوزک انڈسٹری میں مسائل کے انبار ہیں۔ ویسے تو ان مسائل کی ایک طویل فہرست ہے لیکن سالہا سال سے جو مسئلہ سب سے زیادہ اہم اور حل طلب ہے وہ ”رائلٹی“ اور ”کاپی رائٹس“ کا ہے جس پر کبھی سنجیدگی سے کام نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے تخلیق کار کا کریڈٹ اور معاوضہ کوئی اور ہی لے جاتا ہے۔ محنت کوئی کرتا ہے، شاباش کسی دوسرے کو ملتی ہے۔ جس کا دل چاہتا ہے کسی کا گانا،کوئی شاعری یا کہانی اپنے نام سے چلا دی جاتی ہے۔ اسی طرح کوئی بھی دوسرے کا گایا ہوا گانا خود گا کر مشہور ہو جاتا ہے۔ جو اصل مالک ہوتا ہے وہ منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ چوری کرنے والا سینہ زوری سے اسے اپنی ملکیت بنا لیتا ہے اور اسے کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا۔

 اگرچہ ملک میں کاپی رائٹ ایکٹ موجود ہے تاہم وہ ایک طرح سے غیر موثر ہی ہے کیونکہ اس میں بے شمار چیزوں کی وضاحت ہی نہیں کی گئی۔ بین الاقوامی کاپی رائٹ قوانین کے مطابق ”انٹیلکچوئل پراپرٹی“ تخلیق کار کی ملکیت ہوتی ہے، جس کی مدت نوے سال ہوتی ہے، جس کے بعد اسے ”ٹریڈیشنل“ قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی ماضی میں انہی قوانین کا سہارا لیا جاتا رہا لیکن کئی چیزوں میں ابہام کی وجہ سے آج تک انڈسٹری کے لوگ اپنے حقوق کے بارے میں ہی نہیں جان سکے۔ پاکستان میں تخلیق کار کی کیٹیگری میں رائٹر، شاعر اور کہانی نویس کو ہی سمجھا جاتا ہے جب کہ نہ تو گلوکار، نہ میوزیشن، اور نہ ہی ڈائریکٹر کو اس میں شامل کیا جاتا ہے۔ 

پاکستان میں ملکیت کا قانون یعنی ”انٹیلکچوئل کاپی رائٹس آرڈیننس 1962ء“ موجود ہے۔ اس آرڈیننس میں سیکشن18سے لے کر سیکشن23  تک، مختلف کاموں کے حوالے سے کاپی رائٹ کی اصطلاحات بتائی گئی ہیں۔ جیسا کہ کسی شائع شدہ ادبی، ڈرامائی، موسیقی یا فنی کام کے کاپی رائٹس کی مدت اس کے خالق کی موت کے 50 سال بعد تک مقرر کی گئی ہے۔ سنیماٹوگرافی، ریکارڈ اور تصویر کے معاملے میں، کام کی اشاعت کے سال کے آغاز سے آئندہ پچاس سالوں تک مقرر کی گئی ہے۔ 2000ء میں کی گئی ترمیم کے مطابق، آرٹیکل 24اے جو کہ فونوگرام یعنی آڈیو ریکارڈنگ کے فنکاروں اور پروڈیوسرز کے حقوق سے متعلق ہے، پرفارمر کے پاس ”فِکسڈ یا ان فِکسڈ“ پرفارمنس کو درست کرنے یا روکنے کا حق حاصل ہے۔ وہ اس پرفارمنس کو براہ راست نشر بھی کر سکتا ہے۔ پروڈیوسر اور آرٹسٹ کے پاس اس سیکشن کے تحت دیئے گئے حقوق کی حد پچاس سال ہے۔ 

چند روز پہلے سینیٹ سے ”آرٹسٹ رائلٹی ریزولوشن“ پاس کی گئی جس کے لئے سینیٹر فیصل جاوید خان کافی عرصہ سے متحرک تھے۔ اب تک پاکستان میں کسی بھی اداکار یا گلوکار کو اگر ٹی وی کے بعد تھیٹر یا پھر کسی تقریب میں پرفارمنس کرنی پڑتی ہے یا پھر ان کا ڈرامہ یا فلم دوبارہ نشر یا ریلیز ہوتا ہے تو فنکار کو صرف ایک بار ہی معاوضہ ملتا ہے مگر نئی قانون سازی کے بعد آرٹسٹ کو ہر بار معاوضہ ملنا شروع ہوجائے گا۔ رائلٹی ریزولوشن پاس ہونے سے کاپی رائٹس ایکٹ 1962ء میں ترامیم کر کے نئی قانون سازی کی راہ ہموار ہو گئی ہے جبکہ ملک میں کاپی رائٹس کے قوانین بھی سخت ہو جائیں گے۔ مذکورہ ریزولوشن پاس ہونے کے بعد اب آرٹسٹ لفظ کی بھی دوبارہ تشریح کی جائے گی اور مذکورہ بل تمام پرفارمنگ آرٹس کو تحفظ فراہم کرے گا۔ 

رائلٹی ریزولوشن کو پیش کرنے اور اسے پاس کروانے پر شوبز کے مختلف شعبوں کی شخصیات نے امید ظاہر کی ہے کہ اس کے بعد سب کو ان کا حق ملے گا۔ اداکار عدنان صدیقی نے فنکاروں کو دوبارہ معاوضہ ملنے کی قانون سازی پر فنکار برادری کو مبارک باد پیش کی۔ ہمایوں سعید نے بھی رائلٹی پر قانون سازی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے نہ صرف سینیٹر فیصل جاوید خان بلکہ ایوان کا بھی شکریہ ادا کیا۔ اس سلسلہ میں اداکار جاوید شیخ کا کہنا تھا کہ اس ریزولوشن کے بعد امید ہے ہر کسی کو اس کا حق ملے گا لیکن یہ بھی نہیں سوچنا چاہئے کہ یہ سب جادو کی چھڑی سے فوری ممکن ہو جائے گا۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف فلم اور ڈرامہ پروڈیوسر حسن ضیا کا کہنا تھا کہ ملک کے مقتدر ایوان میں یہ بات ہونا ہمارے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے جس کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ کاپی رائٹ کا دیرینہ مسئلہ ضرور حل ہو گا۔ میرے خیال میں یہ بہت اچھا عمل ہے جس سے پوری انڈسٹری مستفید ہو گی لیکن اس پر ابھی کافی کام کی ضرورت ہے۔جس طرح کہا گیا کہ ”آرٹسٹ“ کی دوبارہ تشریح ہوگی کہ کون کون اس کیٹیگری میں شامل ہوتا ہے۔جہاں تک ڈرامہ کی بات ہے تو اس کا معاہدہ پرسن ٹو پرسن ہوتا ہے۔ چینل اور پروڈیوسر کے درمیان چیزیں طے ہوتی ہیں۔ اس بارے میں بھی کئی چیزیں قابل توجہ ہیں۔ ان تمام چیزوں کے باوجود یہ حکومت کا بہت ہی اچھا اقدام ہے۔

معروف رائٹر اور ڈائریکٹر امین اقبال نے کہا کہ جب تک اس لفظ آرٹسٹ کی پوری وضاحت نہیں ہو جاتی اور اس کو انٹیلکچوئل پراپرٹی لاز کا حصہ بنا کر مکمل طور پر فنون لطفیہ کے باقی شعبہ جات پر کار فرما نہیں کیا جاتا تو میری نظر میں یہ ایک اچھی کوشش بھی رد ہوجائے گی جو ہمارے شعبے کیلئے انتہائی نقصاندہ بات ہوگی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ”انٹیلکچوئل پراپرٹی لا“ کو پوری دنیا کی طرح بہت پہلے پاکستان میں بھی لاگو کردیا جاتا لیکن میرے خیال میں ہر حکومت دو دن کی سوشل میڈیا کوریج کیلئے ایسے کمزور قدم اٹھاتی ہے جو کہ ایک نامناسب عمل ہے۔

ملک کے معروف کمپوزر اور نغمہ نگار عاصم رضا نے کہا کہ ہمارے ملک میں سالوں سے فنکارکا استحصال ہو رہا ہے۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں ہے جس نے پچھلے 25 سال میں کسی بھی فنکار کو رائلٹی دی ہو۔ ملک میں موثر قوانین نہ ہونے کہ وجہ سے کوئی بھی کسی کی چیز کاپی کر سکتا ہے۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے، لوگ یو ٹیوب پر دوسرے کی چیز اٹھا کر اپنے نام سے چلادیتے ہیں لیکن فنکار یو ٹیوب پر اپنا ہی گانا خود استعمال نہیں کر سکتا، اس لئے کاپی رائٹ ایکٹ میں ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ 

اشفاق حسین سینئر صحافی ہیں، مختلف موضوعات پر مہارت رکھتے ہیں، ان کے معلوماتی مضامین مختلف جرائد اور ویب سائٹس پر شائع ہوتے رہتے ہیں 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

سالگرہ پر بچے چاہتے ہیں کچھ خاص!

بچوں کو اس کائنات کی سب سے خوبصورت اور معصوم مخلوق کہا جاتا ہے ۔سب کیلئے ہی اپنے بچے بہت خاص ہوتے ہیں اور بچوں کیلئے خاص ہوتا ہے ان کا جنم دن۔جب وہ سمجھتے ہیں کہ گھر والوں کو سب کام چھوڑ کر صرف ان کی تیاری پر دھیان دینا چاہئے۔ بچوں کی سالگرہ کیلئے سجاؤٹ میں آپ ان تمام چیزوں کی فہرست بنائیں جن میں آپ کے بچوں کی دلچسپی شامل ہو تاکہ وہ اپنے اس خوبصورت دن کو یادگار بنا سکیں۔

’’ویمپائرفیس لفٹ‘‘

کیا آپ کے چہرے پر بڑھاپے کے یہ تین آثار نظر آتے ہیں؟ (1)جلد کی رنگت کا خون کی گردش کی کمی کی وجہ سے سر مئی ہو جانا۔ (2) چہرے کی ساخت کا گرنا اور لٹک جانا، پٹھوں اور کولاجن کے کم ہوجانے کی وجہ سے۔(3) جلد کی بناوٹ کا کم ملائم ہوجانا۔اس کے نتیجے میں چہرہ تھکاہوا اور لٹکا ہوا نظر آتا ہے۔ چہرے کی زندگی سے بھرپور اور گلابی رنگت (جیسا کہ جلد کی ہر رنگت کے چھوٹے بچوں میں اور نوجوانی میں دیکھی جاتی ہے)مدھم ہو کر بے رونق سرمئی ہو جاتی ہے۔

آج کا پکوان

کشمش کا بونٹ پلائو:اجزاء:گوشت ایک کلو، چاول ایک کلو، گھی آدھا کلو، دار چینی، الائچی، لونگ، زیرہ سفید 10، 10گرام، پیاز250گرام، ادرک 50گرام، بونٹ کی دال آدھا کلو، دھنیا20گرام، مرچ سیاہ 10گرام، کشمش200گرام، نمک حسب ضرورت، زعفران 5گرام۔

عزیز حامد مدنی اک چراغ تہ داماں

عزیز حامد مدنی نے نہ صرف شاعری بلکہ تنقید، تبصرے اور تقاریر میں ان روایات کی پاسداری کی جو عہد جدید میں آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں

اردوشعریات میں خیال بندی

معنی آفرینی اور نازک خیالی کی طرح خیال بندی کی بھی جامع و مانع تعریف ہماری شعریات میں شاید موجود نہیں ہے اور ان تینوں اصطلاحوں میں کوئی واضح امتیاز نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً آزاد، ناسخ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

علامہ محمداقبالؒ کا فکروفلسفہ :شاعر مشرق کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی، مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒ بیسویں صدی کی نابغہ روز گار شخصیت تھی۔ وہ ایک معروف شاعر، مفکر، فلسفی،مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کے اہم رہنما تھے۔اپنے فکر و فلسفہ اور سیاسی نظریات سے اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا۔ ان کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی۔