سیّدنا صدیقِ اکبرؓ کے امتیازی خصائص
غزوہ ٔ تبوک ہو یا غزوہ ٔ بدر ، شب ِ ہجرت ہو یا فتح مکہ ، رنج و کلفت ہو یا فرحت و انبساط ، صدیق ِاکبر ؓ نے ہر موقع پر جذبۂ ایقان کی قندیل روشن کی
سیرت صدیقؓ کا بغور مطالعہ کرتے ہوئے جہاں ہم انہیں رفیق غار کے اعزاز سے بہرہ ور دیکھتے ہیں، وہاں بعد ازوفات رفیق مزار ہونے کی عظیم سعادت سے بھی آپ ؓ سرفراز دکھائی دیتے ہیں۔ آپؓ کی حیات مطہرہ میں کچھ خصائص ایسے نظر آتے ہیں جو پوری ملت اسلامیہ میں آپؓ کو امتیازی حیثیت بخشتے ہیں۔ ان خصائص نے آپؓ کی شخصیت کو وہ نمایاں اور خصوصی شرف عطا کر دیا ہے جو حضور پاکﷺ کے اعلان نبوت کے بعد نہ اب تک کسی کو حاصل ہو سکا ہے اور نہ تاقیامت کسی کو حاصل ہو سکے گا۔ پوری امت مسلمہ پر حاصل ان امتیازات نے سیدنا صدیق اکبرؓ کو بعد از نبی کے عظیم ترین مرتبہ پر فائز کر دیا۔
مُسْلِم اوّل: جب سرورکونینﷺ نے اعلان نبوت فرمایا توسیدنا صدیق اکبرؓ بغرض تجارت یمن گئے ہوئے تھے۔ جب آپ ؓ وہاں سے واپس لوٹے تو سرداران قریش ابو جہل، عتبہ اور شیبہ انہیں ملنے کیلئے آئے اور دوران گفتگو تازہ خبر کے طور پر آپؓ کو بتایا کہ ابوطالب کے یتیم بچے محمدؐ بن عبداللہ نے نبی ہونے کادعویٰ کر دیا ہے۔ ہم تمہاری واپسی کے منتظر تھے تاکہ اس کی روک تھام کا کوئی پروگرام مرتب کیا جاسکے۔ یہ سن کو یوں معلوم ہوا کہ گویا یہ اڑتیس سالہ نوجوان اس خوشخبری کا پہلے ہی سے منتظر تھا۔ اپنے محبوب دوست کو ملنے کیلئے اس کے دل میں آتش اشتیاق بھڑک اٹھی۔ سرداران قریش کو رخصت کیا، خود بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر کلمہ شہادت پڑھا اور دولت اسلام سے بہرہ ور ہوگیا۔ نبی پاکﷺ نے ایک موقع پر خود فرمایا میں نے جس شخص کے سامنے اسلام پیش کیا اس میں ایک قسم کی جھجک اور تردد و فکر ضرور پائی سوائے ابو بکرؓ کے۔ جس وقت میں نے ان کی سامنے اسلام پیش کیا انہوں نے بے جھجک اسے قبول کر لیا۔ اس طرح آزاد مردوں میں اسلام قبول کرنے کی اوّلیت آپؓ کو نصیب ہوئی۔
مصدق اوّل: کفا ر مکہ ایک جگہ بیٹھے حضور پاکﷺ کے واقعہ معراج کے خلاف زہر افشانی کرنے کے بعد مسکن ابوبکرؓ کا رخ کرتے ہیں اور سیدنا صدیق اکبرؓ کو کہتے ہیں کہ تمہارا نبی تو اب عجیب و غریب باتیں کرنے لگا ہے، وہ کہتا ہے کہ میں راتوں رات آسمان کی سیر کر کے مکے میں واپس آگیا۔ ابوبکر ؓ نے یہ سن کر حیرانگی سے پوچھا کیا تم سے یہ باتیں رسول اللہ ﷺ نے فرمائی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا ہاں۔ اس پر زبان صدیق ؓ بلا تامل پکار اٹھی، اگر حضور ﷺ نے ایسا فرمایا ہے تو میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ یوں مصدق اوّل ہونے کا شرف بھی سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہی حصہ میں آیا۔
رفاقت سفر کا اعزاز: نبی پاک ﷺ کا معمول تھا کہ آپ ﷺ صبح و شام حضرت ابوبکر صدیقؓ کے مکان پر تشریف لے جاتے تھے۔ ایک روز خلاف عادت دوپہر کے وقت چلچلاتی دھوپ میں سرکاردوعالمﷺ تشریف لے گئے، سر مبارک کو تمازت سے بچانے کیلئے چادر سے ڈھانپ رکھا تھا۔ ابوبکرؓ اپنی فراست سے سمجھ گئے کہ آپؐ کا بے ٹائم آنا بے وجہ نہیں ہو سکتا۔ آپ ﷺ نے بتایا کہ ابوبکر ؓ رب ذوالجلال کی طرف سے مکہ چھوڑنے کی اجازت آگئی ہے۔ یہ سن کر حبیب خداﷺ کے حبیبؓ نے ملتجیانہ نگاہوں سے رخ انور کی طرف تکتے ہوئے عرض کی اور میری رفاقت یا رسول اللہﷺ۔ ارشاد فرمایا رفاقت کی بھی اجازت ہے۔ رفاقت سفر کا مژدہ جاں فزا سنتے ہی فرط مسرت سے حضرت ابو بکرؓ کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔
مرکب سرورکونینﷺ: حضور اکرم ﷺ ہجرت کی رات جب سیدنا صدیق اکبرؓ کو ساتھ لے کر مدینہ کی جانب روانہ ہوئے تو آقائے دوجہاں ﷺ نے نعلین مبارک اتار لئے اور پنجوں کے بل چلنے لگے۔ اس طرح حضور اکرمﷺ کے پاؤں مبارک زخمی ہو گئے۔ اپنے محبوب کو اس مشکل میں دیکھ کر صدیق اکبرؓ نے انہیں اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔ اس طرح اللہ نے صدیق اکبرؓ کو مُرکب مُصطفیٰؐ بننے کا شرف عطا فرماکر بار نبوت کو اٹھانے کی حیران کن قوت سے نوازدیا۔
یارِ غارِ رسولﷺ: مکہ سے مدینہ کا سفر ہر طرح سے پر خطر اور کٹھن تھا۔ دوران سفر پہلا مرحلہ غار ثور میں قیام تھا۔ سیدنا صدیق اکبرؓ نے آپ کو اپنے کندھوں پر سوار کیا اور پہاڑی کی چوٹی پر لے گئے۔ غار کو اندر جاکر صاف کیا اس پر خطر جگہ پر صرف اور صرف سیدنا صدیق اکبرؓ کو صحبت سرکارﷺ کے انمول لمحات میسر آئے۔ اسی لئے رہتی دنیا تک قرآن گواہ بن کر مسلمانوں کو آپؓ کی شان کا بتاتا رہے گا۔ ان ساعتوں کی عظمت کے سبب ہی تو آقائے دوجہاں ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کے استفسار پر بتایا کہ حضرت عمرؓ کی نیکیاں آسمان کے ستاروں سے بھی زیادہ ہیں اور حضرت ابوبکرؓ کی غار ثور کی ایک رات کی نیکیاں حضرت عمرؓ کی ساری زندگی کی نیکیوں سے بھاری ہیں۔
مسجد اوّل کی زمین کی خریداری کاشرف: نبی پاکﷺ کے مدینہ تشریف آوری پر فرزندان توحید کھنچے چلے آئے اور ایک مرکز پر جمع ہونے لگے۔ نبی پاک ﷺ نے تعمیر مسجد کا حکم فرمایا۔ اس سلسلہ میں مدینہ کے دو یتیم بچوں کی زیر ملکیت زمین پسند فرمائی گئی۔ جسے اگرچہ وہ اور ان کے لواحقین بلا قیمت دینے پر مصر تھے تاہم رحمت عالم ﷺ نے یتیموں کا مال بلا قیمت لینا پسند نہیں فرمایا اور اس کی قیمت ادا کرنے کا شرف سیدنا صدیق اکبرؓ کو بخش دیا گیا۔
محافظ دربان رسولﷺ : حضرت علیؓ روایت کرتے ہیں کہ یوم بدر میں ہم نے تمازت آفتاب سے رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کیلئے ایک سائبان بنا دیا۔ ہم نے کہا رسول اللہﷺ کے ساتھ کون رہے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مشرکین میں سے کوئی آپؐ پر حملہ کردے۔ بس خدا کی قسم!سوائے ابوبکرؓ کے ہم میں سے کوئی قریب نہ گیا۔ وہ ننگی تلوار سے رسول کریمﷺ پر سایہ فگن رہے۔ جس کسی نے آپ ﷺ پر حملہ کیا ابوبکر ؓ اس پر حملہ آور ہوئے۔ جس خیمے میں سرکارؐ کا قیام تھا اسی میں سیدنا حضرت ابوبکرصدیقؓ ٹھہرے اور آپؐ کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیا۔
سب کچھ حضور کے قدموں میں: غزوہ ٔ تبوک کے موقع پر جب بارگاہ رسالت ﷺ سے مالی قربانی پیش کرنے کا اعلان ہوا تو اگرچہ وہ زمانہ بڑی ہی تنگی کا تھا لیکن سیدنا صدیق اکبرؓ نے ا س کی کوئی پرواہ نہ کی اور گھر کا گھر لاکر حضور کی کے قدموں پر نچھاور کر دیا۔
امیر حج: 9ہجری میں مسلمانوں پر حج کی فرضیت کا حکم آنے پر مدینہ سے حج کی غرض سے مسلمانوں کا قافلہ تیار ہوا۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے امیر حج کا عظیم عہدہ صدیق اکبرؓ کو سونپ دیا۔
بار امت سیدنا صدیقِ اکبر ؓکے کندھوں پر:آقائے دوجہاں ﷺ کا مرض جب شدید ہو گیا تو آپؐ نے اُم المومنین حضرت عائشہؓ سے فرمایا ابو بکرؓ سے کہو کہ نماز کی امامت کریں۔ یہ سن کو حضرت عائشہؓ نے عرض کی وہ ایک رقیق القلب کمزور آواز آدمی ہیں جب قرآن پڑھتے ہیں تو بہت روتے ہیں مطلب یہ تھا کہ نماز کی امامت نہ فرماسکیں گے مگر حضورﷺ کے حکم پر آپؓ کو یہ فرض ادا کرنا پڑا اس طرح سترہ نمازوں کی حیات مقدسہ میں امامت کا شرف آپؓ کو حاصل ہوا۔
فرمان مصطفوٰیؐ کی پابندی کی درخشاں نظیر:مرض وصال میں حضور ﷺ نے اسامہ بن زیدؓ کی زیر نگرانی میں رومیوں کے خلاف سات سو جیالے نوجوانوں کا ایک لشکر روانہ کرنے کیلئے نامزد فرمایا، جو آپؐ کی علالت اور وصال کے باعث روانہ نہ کیا جا سکا۔ سیدنا صدیق اکبرؓ نے بیعت کے دوسرے دن ہی حکم دیا کہ جیش اسامہ تیار ہوکر بغیر وقت ضائع کئے روانہ ہو جائے، حالانکہ فتنہ ارتداد اور کاذب مدعیان نبوت کی سرکشی کے سبب اصحابہ کرام ؓ کی رائے اس کے خلاف تھی مگر آپؓ نے فرمایا خدا کی قسم اگر مدینہ اس طرح آدمیوں سے خالی ہو جائے کہ جنگل کے درندے مجھے اٹھا کر لے جائیں تب بھی اس مہم کو نہیں روک سکتا جس کے بھیجنے کا فیصلہ خود سرکارؐ نے فرمایا تھا۔
سرورکائنات سے عرصہ حیات کی مطابقت: 21جمادی الاخر 13ہجری غروب آفتاب کے وقت جب محبوب خداؐ کے حبیبؓ کی عمر 63 سال یعنی حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عمر کے برابر ہوگئی تو ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
رفاقت قبر کا اعزاز: امیر المومنین صدیق اکبرؓ کے فضل و شرف اعزاز و خصائص کی انتہا یہ ہے کہ آپ کو حضورﷺ کے ساتھ خصوصی اور امتیازی شرف رفاقت حاصل ہے۔ سفر و حضر کی رفاقت، غار ثور کی رفاقت،اور آخر میں پہلوئے مصطفیٰؐ میں تدفین کے ذریعہ رفاقت قبر کا نصیب ہونا پوری امت میں آپ ؓکو عظیم مرتبہ عطا کرتا ہے۔
نبی کو ناز تھا جس کی رفاقت اور محبت پر
وہ جس پر فخر ہے ملت کو وہ مسند نشیں تم ہو
جہاں ارشاد فرما تھے رسول اللہ ؐوہا ں تم تھے
جہاں آرام فرماں ہیں رسول اللہؐ وہیں تم ہو
صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی عالم دین ہیں،
25 سال سے مختلف جرائد کیلئے اسلامی موضوعات پر لکھ رہے ہیں