حکومت ابتری کا شکار
بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پی ٹی آئی کی شکست کے بعد معاملات تبدیل ہوگئے ہیں۔
حکومتی صفوں میں انتشار کے بعد بیوروکریسی میں بھی شدید اختلافات کی بازگشت سامنے آرہی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے سے قبل درجنوں سرکاری افسروں کے تبادلے کئے گئے ہیں جس پر اپوزیشن سمیت افسر شاہی میں بھی شدید بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے ۔پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں تو ہڑتال بھی شروع کردی گئی ہے ۔پی ڈی اے اس وقت صوبائی حکومت کے کئی فلیگ شپ منصوبوں کودیکھ رہا ہے جن میں بی آرٹی پلازہ ،رنگ روڈ پشاور،جنرل بس سٹینڈ، نیو پشاور سٹی پراجیکٹ اور دیگر میگا منصوبے شامل ہیں ۔ایسے وقت میں کہ جب پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے پاس وقت بھی کم رہ گیا ہے اور عام انتخابات کا مرحلہ آنے والا ہے ایسی رکاوٹیں وزیراعلیٰ محمود خان کی ٹیم کی کارکردگی پر برے اثرات مرتب کریں گی۔
اس کے علاوہ دیگر محکموں میں کئے جانے والے حالیہ تبادلوں پر بھی بیوروکریسی میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں ۔بیوروکریسی کے دو اعلیٰ افسروں کے مابین اختیارات کی جنگ سے بھی سرکاری امور متاثر ہورہے ہیں جن کے خاتمے کیلئے وزیراعلیٰ کو فوری مداخلت کرنی چاہئے۔ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے گزشتہ ساڑھے تین سالہ دور حکومت پر نظر دوڑائی جائے تو پرویزخٹک کی حکومت کے برعکس موجودہ صوبائی حکومت کی گرفت بیوروکریسی پر کافی کمزور نظر آتی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ قبائلی اضلاع میں تیز تر ترقیاتی منصوبے نہ صرف شروع کئے جائیں بلکہ انہیں اسی دورمدت میں پایہ تکمیل تک پہنچایاجائے لیکن بیوروکریسی کے ہی سرخ فیتے کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوپارہا۔ ان اضلاع میں اہل افسروں کی بھی انتہائی شدید کمی ہے ۔
دوسری جانب ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ پی ٹی آئی کے متعدد ایم این ایز مختلف سیاسی جماعتوں سے رابطوں میں ہیں ۔جے یوآئی کی جانب سے بھی یہ دعویٰ کیاجارہا ہے اور پیپلزپارٹی اور ن لیگ بھی ایسے ہی دعوے کررہی ہیں ۔آزاد ذرائع بھی اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے کچھ لوگ ایک مذہبی جماعت سے رابطے میں ہیں۔ پی ٹی آئی کو خیبرپختونخوا اسمبلی میں دو تہائی کے قریب اکثریت حاصل ہے لیکن اس کے باوجود کسی بھی رکن اسمبلی کا پارٹی چھوڑ کر جانا نہ صرف وزیراعلیٰ محمود خان بلکہ پارٹی چیئرمین عمران خان پر بھی عدم اعتماد ہوگا۔ پرویزخٹک کو اب صوبے میں پارٹی کو سمیٹنے اور متحد کرنے کاٹاسک سونپا گیا ہے ۔وزیراعلیٰ محمود خان کو بھی ان سے تعاون کی ہدایت کی گئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پرویزخٹک اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں ،فی الوقت تو ان کی توجہ بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے پر جمی ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پرویزخٹک کے دور میں سرکاری محکموں کی کارکردگی میں نمایاں بہتری آئی اور کرپشن میں کمی واقع ہوئی ۔یہی وجہ ہے کہ ان پر ایک بار پھر اعتبار کیاگیا ہے ۔جہانگیر ترین کے بعد پرویزخٹک ہی ہیں جو کسی بھی مشکل میں پارٹی کو باہر نکالنے میں مہارت رکھتے ہیں اور اس وقت پی ٹی آئی بہت سی مشکلات کاشکار ہے ۔ ایم این اے نورعالم اپنی ہی جماعت پر گرج برس رہے ہیں جنہیں پارٹی کی طرف سے شوکاز نوٹس بھی بھجوادیاگیا ہے اسی طرح ایم این اے ناصر موسیٰ زئی بھی پارٹی سے ناراض ہیں ۔کچھ اور ایم پی ایز بھی پارٹی قیادت اور ان کی پالیسیوں سے خوش نہیں ۔
ارکان اسمبلی کی ناراضی کا ایک سبب ان کو صوبائی حکومت سے فنڈز کا نہ ملنا بھی ہے۔ یہ صوبائی حکومت مالی مشکلات کا بھی شکار ہے ۔ وفاق کی جانب سے صوبائی حکومت کی ویسی مالی مدد نہیں کی جارہی جس کی ضرورت ہے ۔ پرویزخٹک اس معاملے پر بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ بری حالت قبائلی اضلاع کی ہے ،قبائلی عوام موجودہ حکومت سے زیادہ خوش نہیں کیونکہ انہیں جو خواب دکھائے گئے تھے ان میں سے کوئی پورا نہ ہوسکا ۔وزیراعلیٰ ملاکنڈ اور دیگراضلاع کے دورے پر دورے تو کررہے ہیں لیکن قبائلی اضلاع کی طرف رخ کرنے کے ان کے دعوے محض دعوے ہی رہے بلکہ اب تو ایسی اطلاعات آرہی ہیں کہ قبائلی اضلاع کی قومی اسمبلی کی نشستوں میں بھی کمی ہوسکتی ہے۔ اس وقت قومی اسمبلی میں قبائلی اضلاع کی بارہ نشستیں ہیں جنہیں انضمام کے تحت ایک پیکج کے تحت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیاگیا تھا، بعدازاں یہ رعایت دس سے پندرہ سال تک برقرار رکھنے کی سفارشات بھی منظور کی گئی تھیں ۔ اسی حوالے سے قومی اسمبلی سے ایک بل بھی منظور کیاگیاتاہم وہ بل تاحال سینیٹ سے منظور نہیں ہوسکا ہے جس کی وجہ سے ضلع مہمند ،اورکزئی اور سابق ایف آر کی نشستیں ختم ہونے کا خدشہ ہے ۔ باجوڑ سے بھی ایک نشست کم ہوسکتی ہے۔
اس حوالے سے قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی نے حکومت اور اپوزیشن سے بھی رابطے تیز کردیئے ہیں قومی اسمبلی میں قبائلی اضلاع کی نشستیں کم ہونے سے یہاں کے عوام کا ہی نقصان ہوگا ۔صوبائی حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ وفاق سے بات کرے ،قبائلی عوام پہلے ہی مختلف مسائل اور محرومیوں کا شکار ہیں ۔قومی اسمبلی میں ان کی نمائندگی کم ہونے سے یقینا ان کی شکایات بڑھیں گی ۔ دوسری جانب خیبرپختونخوا میں امن وامان کی صورتحال بھی گمبھیر ہوتی جارہی ہے، پولیس اور سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہورہا ہے ۔ کالعدم ٹی ٹی پی سے بات چیت ختم ہونے کے بعد ان حملوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن ٹی ٹی پی سے بھی بڑا خطرہ داعش کا ہے جو تیزی سے سر اٹھارہی ہے۔ گزشتہ روز آئی جی خیبرپختونخوا نے بھی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اشارہ دیا ہے ،داعش کے خلاف سی ٹی ڈی اور پولیس کی کارروائیاں تو جاری ہیں لیکن اس سے مقابلہ کرنے کیلئے سی ٹی ڈی کو مزید فعال کرنا ہوگا ۔جدید ٹیکنالوجی سے لیس سی ٹی ڈی کے اہلکار ان ملک دشمن عناصر کے خلاف مؤثر کارروائی کرسکتے ہیں ۔دوسرا سوشل میڈیا پر امن دشمن عناصر کے پروپیگنڈا کا مقابلہ بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ صوبائی حکومت کو اس طرف توجہ دینی ہوگی اورسکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر کوئی مربوط لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔