سیاسی جوڑ توڑ پھر عروج پر
رواں ہفتے کے دوران بھی بلوچستان کے سیاسی میدان میں ہلچل کم نہ ہو سکی ۔
ایک جانب صوبائی حکومت کی کوشش ہے کہ وہ اقتدار میں آنے سے قبل کئے جانے والے اپنے دعوؤں کو حقیقت کا روپ دے سکے اور صوبے کی ترقی و خوشحالی اور روزگار کے مسائل کے حل میں اپنا حصہ ڈال سکے جس کے لئے وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو بھی ان دنوں کافی متحرک نظر آرہے ہیں ۔ایک جانب صوبے کے مختلف علاقوں کے دورے کئے جارہے ہیں تو دوسری جانب سیاسی رہنماؤں اتحادیوں اور صوبائی وزراء سے ملاقاتوں کے دور بھی چل رہے ہیں۔ مختلف سرکاری محکموں میں ملازمتوں کے حوالے سے صوبے کے نوجوانوں کے تحفظات بھی اب ختم ہوتے نظر آرہے ہیں۔
تاہم گزشتہ دنوں بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے دوران صوبائی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی مبین خلجی نے احتجاجاً واک آؤٹ کیا ان کے مطابق محکمہ زراعت اور خوراک کی آسامیوں میں بندربانٹ ہوئی ہے اس لئے میں احتجاجاً واک آؤٹ کرتا ہوں۔ اس دوران ان کے ہمراہ کوئٹہ سے دیگر اراکین اسمبلی نے بھی واک آؤٹ کر لیاتاہم اس کے جواب میں صوبائی وزیر زراعت میر اسد بلوچ نے کہا کہ میرے محکمے میں بھرتیوں کے حوالے سے لگائے جانے والے الزام سنگین ہیں اور کسی صورت اس میں حقیقت نہیں ہے ۔ صوبائی وزیرپلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ میر ظہور بلیدی نے کہا کہ دونوں محکموں کی کوئٹہ کی آسامیوں کی انکوائری کرالی جائے۔ اسی اجلاس کے دوران بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل کے اجراء کو روکنے، پنجاب اور اسلام آباد میں زیر تعلیم طلباء کے تحفظ کو یقینی بنانے سے متعلق الگ الگ قراردادیں بھی منظور کی گئیں جس پر اسپیکر نے صوبے کے تمام اضلاع میں جاری ہونے والے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کا ریکارڈ اسمبلی میں پیش کرنے کی رولنگ بھی دی۔
اجلاس میں کہا گیا کہ جعلی ڈومیسائل کے اجراء سے بلوچستان کے تعلیم یافتہ اور باصلاحیت نوجوانوں کی حق تلفی کی جارہی ہے۔ دوسرے صوبوں کے لوگ جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد بلوچستان کے مختلف اضلاع سے میڈیکل سیٹس اور مختلف صوبائی محکموں اور بلوچستان کے کوٹے کی وفاقی ملازمتوں پر تعینات ہوتے ہیں ۔ یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ 2018ء تا2021ء صوبے کے تمام محکموں اور صوبے کے کوٹے پر وفاقی محکموں میں تعینات ہونے والے ڈاکٹرز ویٹرنری ڈاکٹرز اور دیگر آسامیوں پر تعینات ہونے والوں کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کی فوری تصدیق کو یقینی بنائے تاکہ جعلی ڈومیسائل کے اجراء کو روکا جا سکے۔
دوسری جانب وفاق میں حکومت کی غیریقینی صورتحال کے باعث بلوچستان میں سیاسی طورپر ملاقاتوں اور رابطوں کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے۔ حال ہی ہم نے دیکھا تھا کہ جمعیت علماء اسلام کی جانب سے مولانا فضل الرحمن بلوچستان میں کافی متحرک نظر آئے اور انھوں نے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی سے ملاقات کی جس میں انھوں نے جے یو آئی میں شمولیت کا فیصلہ کیا ۔ اس ملاقات میں مولانا عبدالغفور حیدری ،مولانا عبدالواسع آغا محمود شاہ خیبر پختونخوا کے اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی اور رکن قومی اسمبلی مولانا کمال الدین بھی شریک تھے۔ اس کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی ان دنوں بلوچستان کے حوالے سے اپنے لائحہ عمل کو ترتیب دینے میں مصروف ہیں تاہم موسم میں سردی کی شدت کے اضافے کے باعث معاملات کچھ طول پکڑتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کی تواتر سے ہوتی ملاقاتیں بھی صوبے میں کسی نئی سیاسی ہلچل کی جانب اشارہ کررہی ہیں۔
اس سب کے باوجود اگر ہم وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے حوالے سے بات کریں تو سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق انکی حکومت کو مستقبل قریب میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے حال ہی میں گوادر کا دورہ کیا تھا جہاں ایس ایس ٹی فورم گوادر کے ڈسٹرکٹ کنوینر علی محمد دلمراد ساجد اور طارق محمود نے وزیراعلیٰ بلوچستان سے ملاقات کی۔ اس موقع پررکن قومی اسمبلی محمد اسلم بھوتانی اور رکن صوبائی اسمبلی میر حمل کلمتی بھی شریک تھے۔ اس ملاقات میں وفد نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو ایس ایس ٹی فورم کی ڈیمانڈ فار ایس ایس ٹی، ہیڈ ماسٹر، ہیڈ مسٹریس اور ایس ایس ٹی کی گریڈ 18 کی اپ گریڈیشن پیش کی اور کہا کہ سیکنڈری سکول ٹیچرز 30/ 35 سال ملازمت کرنے کے باوجود ترقی سے محروم ہیں۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ بلوچستان نے وفد کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا اور کہا کہ بلوچستان میں کوالٹی ایجوکیشن کی فراہمی اور اساتذہ کو سہولیات فراہم کرنا، ان کے مسائل کو حل کرنا موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ میر عبدالقدس بزنجو نے کہا کہ تعلیم سے قومیں بنتی ہیں اس لیے ہم نے اس شعبے کو ابتدائی دنوں سے ترجیح دی ہے۔ ہم نے نہ صرف نئے سکول بنائے ہیں بلکہ سکولوں کو اپ گریڈ بھی کیا ہے۔ ان میں بنیادی سہولیات کی فراہمی پر بھی خطیر رقم خرچ کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تعلیم کے میدان میں وہ اصلاحات متعارف کرائی ہیں جس کے ثمرات آنے والے وقتوں میں لوگوں کو ملیں گے ۔
وزیراعلیٰ بلوچستان نے ایس ایس ٹی ٹیچرز فورم کی کارکردگی کی تعریف کی اور کہا کہ ہم سب کی یہی کوشش ہے کہ ہم اپنے آنے والے وقت اور مستقبل کی خاطر محکمہ تعلیم کو توجہ دیں۔ اس ضمن میں اساتذہ کرام کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پوری لگن اور جذبہ حب الوطنی کیساتھ ہمارے شانہ بشانہ کام کریں ۔انہوں نے کہا کہ ہم اساتذہ کرام کو سپورٹ کرتے ہیں، ہم نے ان کے تمام مطالبات پورے کیے ہیں۔ ان کی اپ گریڈیشن کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ ہم جلد از جلد اساتذہ کی اپ گریڈیشن پالیسی بنائیں اوراس پر محکمہ تعلیم نے کام شروع کررکھا ہے۔