سیاسی رسہ کشی جاری، عوام پریشان

تحریر : عابد حسین


صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کا راج ہے۔وفاق میں پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں ہے۔

دونوں پارٹیاں کافی عرصے سے محاذ آرائی کے ساتھ وقت پاس کررہی ہیں۔وفاقی حکومت کا الزام ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں  حکومت ہونے کے باوجود ڈیلیور نہیں کیا،کے فور کا منصوبہ لٹکا رہا،ٹرانسپورٹ کا نظام قائم نہیں ہوسکا،بلدیات کو فنڈز نہ دینے سے شہر کھنڈر بن گیا۔دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس بھی وفاق سے شکوے شکایت کے لیے بہت کچھ ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وفاق نے سندھ کے حصے کا این ایف سی ایوارڈ نہیں دیا۔صوبائی معاملات میں بے جا مداخلت کی جاتی ہے۔اس ساری کشمکش میں عوام بے چارے پسے ہوئے ہیں۔بڑی مشکل اور طویل انتظار کے بعد وفاق کی مسلسل دلچسپی کے بعد کراچی میں گرین لائن بس سروس شروع ہوئی تو عوام نے کسی قدر سکھ کا سانس لیا لیکن بدقسمتی سے گزشتہ ہفتے گرین لائن منصوبے کی جدید بسوں پر بعض شرپسندوں نے پتھراؤ کردیا۔پولیس ابھی تک اصل وجہ تک نہیں پہنچ سکی ہے۔

سیاسی رسہ کشی کے اس دور میں پیپلز پارٹی نے بلدیات سے متعلق ایک ترمیمی بل منظور کرالیا ہے جس پر کئی جماعتیں مخالف ہوگئی ہیں اور اس بل کو اختیارات کا ارتکاز قرار دے رہی ہیں۔کراچی میں جماعت اسلامی کے دھرنے کو تین ہفتے سے زائد ہوگئے ہیں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے تادم تحریر کوئی واضح نرم رویہ سامنے نہیں آیا ۔ سعید غنی نے یہ کہہ کر ماحول کو مزید کشیدہ کردیاہے کہ بلدیاتی قوانین کا فیصلہ سڑکوں پر نہیں ہوسکتا،چاہے یہ لوگ ساری عمر بیٹھے رہیں۔ البتہ اسمبلی میں آئیں اور بات چیت کریں تو بعض شقوں پر بات ہوسکتی ہے۔سعید غنی کا خیال ہے کہ سندھ کی اپوزیشن جماعتیں اس وقت وفاقی حکومت کی بی ٹیم بنی ہوئی ہیں۔ ایم کیو ایم نے ہمیشہ تقسیم کی سیاست کی اور آج جماعت اسلامی بھی تقسیم کی سیاست کر رہی ہے۔سانحہ ٹنڈوالہ یار ایک باہمی جھگڑا ہے جسے ایم کیو ایم لسانی فسادات بنانے کی کوشش کررہی ہے۔

سیاسی حلقوں کے مطابق سعید غنی کم عمر سیاست دانوں کی فہرست میں سب سے زیرک سیاست دان کے طور پر جانے جاتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ہوم ورک کے بغیر پریس کانفرنس نہیں کرتے۔سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعید غنی کی جانب سے دھرنے والوں کو اس طرح چیلنج کرنا کہ وہ ساری زندگی دھرنا دیں لیکن اسمبلی سے باہر بات چیت نہیں ہوسکتی کسی طرح مناسب طرز عمل نہیں ہے۔سیاسی حکومتیں ہر وقت ہر جگہ مذاکرات کے لیے تیار رہتی ہیں۔اس قدر شدید سردی میں ناراض کو منانے کی بجائے انہیں غصہ دلانے کا کیا مقصد ہوسکتا ہے۔ان تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دھرنے کا ایشو اور سانحہ ٹنڈو الہ یار اب پیپلز پارٹی کے لیے چیلنج بن چکے ہیں۔اگر اس نے سیاسی تدبر کا مظاہرہ نہ کیا تو صوبے میں اس کا مستقبل خطرے میں پڑسکتا ہے۔ٹنڈو الہ یار کے واقعے پر ایم کیو ایم پاکستان سراپا احتجاج ہے۔ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے بلدیاتی بل اور ٹنڈوالہ یار واقعے پر اپنے کارکنوں کو تحریک شروع کرنے کی تیاری کا عندیہ دے دیا ہے۔ اس احتجاج میں مہاجر قومی موومنٹ ،پی ایس پی اور پاکستان تحریک انصاف بھی اپنے اپنے طور پر آواز اٹھارہی ہیں۔

 امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے دھرنے کے شرکاء سے خطاب کے دوران کہا کہ سندھ حکومت کے بلدیاتی قانون کے خلاف مرد وخواتین، بچے، بوڑھے،جوان 24دن سے دھرنا دیے بیٹھے ہیں لیکن سندھ کے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی،چیف جسٹس آف پاکستان اس سنگین مسئلے پر ازخود نوٹس لیں اور اہل کراچی کو انصاف دلوائیں۔انہوں نے اعلان کیا کہ بلاول بھٹو نے بات نہیں سنی تو اندرون سندھ گوٹھوں کے عوام آپ کے گھروں اور دفترو ں کا رخ کریں گے۔ٹنڈو الہ یار کے واقعے پر مہاجرقومی موومنٹ کے سربراہ آفاق احمد نے کہا ہے کہ یہ واقعہ مہاجروں پر ظلم کا آغاز ہے۔بھولوکے قتل کی منصفانہ تحقیقات کرائی جائیں۔جولوگ روزگارکے حصول کے لیے کراچی آئے ہیں وہ ہمارے بھائی ہیں۔البتہ شہرمیں ہوٹل کھول کرقبائلی علاقہ بنانے کی کوشش نہ کریں۔

ادھر کراچی سمیت صوبے کے دیگر حصوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کے تحت کسان مارچ کیا گیاہے۔ یہ کسان مارچ مستقبل میں پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف ایک بڑی تحریک کی تیاریاں کا آغاز قرار دیا جارہا ہے۔پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جیالوں کو ’’وارم اپ‘‘کال دے دی ہے۔یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی ضلع ملیر کے صدر اور وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی سلمان عبداللہ مراد بلوچ کی قیادت میں سلمان ٹاور سے مزار قائد تک کسان ریلی میں اعلان کیا گیا ہے کہ حکومت کے خلاف27 فروری کو چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا جائے گا۔اس طرح فروری میں سندھ ،وفاق کی جانب پیش قدمی کرے گا لیکن اس سے قبل اسی ماہ کراچی کی کئی سیاسی قوتیں سندھ حکومت کے خلاف میدان میں اترنے والی ہیں۔ پاک سر زمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال نے 30 جنوری کو فوارہ چوک سے وزیر اعلیٰ ہاؤس تک مارچ کا اعلان کردیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سندھ کے حکمران 30 جنوری کو جان جائیں گے کہ جب باکردار اور قابل قیادت سامنے کھڑی ہوجائے تو ظالم کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ظلم کا وقت اب ختم ہورہاہے۔

 مصطفی کمال کے ان اعلانات کے جواب میں وزیرِ بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر برائے قانون اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کے ہمراہ پاک سرزمین پارٹی کے دفتر آکر چیئرمین مصطفی کمال سے ملاقات کی۔بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر بلدیات ناصر شاہ نے کہا کہ ہمارے مطابق بلدیاتی ترامیم بہتر ہیں لیکن اگر اس پر کسی بھی قسم کے تحفظات ہیں تو ہم ان پر بات چیت، مشاورت اور بہتری کے لیے تیار ہیں۔سیاسی حلقوں کے مطابق اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی واقعی بلدیاتی ترامیم پر سنجیدہ ہے یا یہ اعلان بھی سیاسی دباؤ کم کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

سالگرہ پر بچے چاہتے ہیں کچھ خاص!

بچوں کو اس کائنات کی سب سے خوبصورت اور معصوم مخلوق کہا جاتا ہے ۔سب کیلئے ہی اپنے بچے بہت خاص ہوتے ہیں اور بچوں کیلئے خاص ہوتا ہے ان کا جنم دن۔جب وہ سمجھتے ہیں کہ گھر والوں کو سب کام چھوڑ کر صرف ان کی تیاری پر دھیان دینا چاہئے۔ بچوں کی سالگرہ کیلئے سجاؤٹ میں آپ ان تمام چیزوں کی فہرست بنائیں جن میں آپ کے بچوں کی دلچسپی شامل ہو تاکہ وہ اپنے اس خوبصورت دن کو یادگار بنا سکیں۔

’’ویمپائرفیس لفٹ‘‘

کیا آپ کے چہرے پر بڑھاپے کے یہ تین آثار نظر آتے ہیں؟ (1)جلد کی رنگت کا خون کی گردش کی کمی کی وجہ سے سر مئی ہو جانا۔ (2) چہرے کی ساخت کا گرنا اور لٹک جانا، پٹھوں اور کولاجن کے کم ہوجانے کی وجہ سے۔(3) جلد کی بناوٹ کا کم ملائم ہوجانا۔اس کے نتیجے میں چہرہ تھکاہوا اور لٹکا ہوا نظر آتا ہے۔ چہرے کی زندگی سے بھرپور اور گلابی رنگت (جیسا کہ جلد کی ہر رنگت کے چھوٹے بچوں میں اور نوجوانی میں دیکھی جاتی ہے)مدھم ہو کر بے رونق سرمئی ہو جاتی ہے۔

آج کا پکوان

کشمش کا بونٹ پلائو:اجزاء:گوشت ایک کلو، چاول ایک کلو، گھی آدھا کلو، دار چینی، الائچی، لونگ، زیرہ سفید 10، 10گرام، پیاز250گرام، ادرک 50گرام، بونٹ کی دال آدھا کلو، دھنیا20گرام، مرچ سیاہ 10گرام، کشمش200گرام، نمک حسب ضرورت، زعفران 5گرام۔

عزیز حامد مدنی اک چراغ تہ داماں

عزیز حامد مدنی نے نہ صرف شاعری بلکہ تنقید، تبصرے اور تقاریر میں ان روایات کی پاسداری کی جو عہد جدید میں آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں

اردوشعریات میں خیال بندی

معنی آفرینی اور نازک خیالی کی طرح خیال بندی کی بھی جامع و مانع تعریف ہماری شعریات میں شاید موجود نہیں ہے اور ان تینوں اصطلاحوں میں کوئی واضح امتیاز نہیں کیا گیا ہے۔ مثلاً آزاد، ناسخ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

علامہ محمداقبالؒ کا فکروفلسفہ :شاعر مشرق کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی، مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبالؒ بیسویں صدی کی نابغہ روز گار شخصیت تھی۔ وہ ایک معروف شاعر، مفکر، فلسفی،مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کے اہم رہنما تھے۔اپنے فکر و فلسفہ اور سیاسی نظریات سے اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو بے حد متاثر کیا۔ ان کے فکر اور فلسفے کو عالمی شہرت ملی۔