ٹرانسپیرنسی رپورٹ: حکومت دباؤ میں

تحریر : سلمان غنی


اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں کہا گیا کہ موجودہ حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اور اس نااہل حکومت سے نجات حاصل کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

 اجلاس کی صدارت مولانا فضل الرحمن نے کی جس میں صدارتی نظام کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ پارلیمانی سسٹم کے خلاف سازش ہو رہی ہے اسے کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو حکومت کے خلاف چارج شیٹ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس نے حکومت کی دیانتداری، کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے ۔ اب دیکھنا ہوگا کہ اپوزیشن کی جانب سے یہ لانگ مارچ جسے مہنگائی مارچ کا نام دیا گیا ہے کس حد تک کامیاب ہو گا۔جہاں تک لانگ مارچ کے آپشن کو بروئے کار لانے کا سوال ہے تو اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت پہلے روز سے ہی پی ٹی آئی حکومت کو ہضم کرنے کو تیار نہیں اور اس کے خلاف سرگرم عمل ہے ۔دیگر بڑی جماعتیں خصوصاً مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی بھی وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے خلاف شدید تحفظات رکھنے کے باوجود حکومت کے خلاف اس حد تک جانے کے خلاف رہی ہیں جس کے باعث ملک میں جاری سسٹم کو نقصان پہنچے ۔

 پیپلزپارٹی آنے والے انتخابات کے پیش نظر اپنا اپوزیشن جماعت کا تاثر قائم رکھنے کیلئے 27فروری کو لانگ مارچ کا اعلان کر چکی ہے اور اس کی جانب سے پی ڈی ایم کے لانگ مارچ سے قبل لانگ مارچ کا اعلان خود حکومت سے زیادہ اپوزیشن کیلئے پریشان کن ہے۔ البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ حکومت نے اپنے خلاف احتجاجی سیاست کا جواز اپنی عدم کارکردگی کے باعث مہیا کیا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری نے شروع سے حکومت کو دفاعی محاذ پر لاکھڑا کیا ہے اور حکومت کی جانب سے مہنگائی کے خلاف جتنے بھی اقدامات کئے گئے ہیں انکا الٹا اثر ہوا ہے۔سیاسی اور عوامی سطح پر تو حکومت کے خلاف بڑا ردعمل موجود ہے مگر اپوزیشن کے احتجاج اور لانگ مارچ کیلئے ایک بڑا چیلنج یہ ضرور ہوگا کہ کیا وہ مسائل زدہ، مہنگائی زدہ عوام کی توجہ حاصل کر پائیں گے ۔ ویسے تو ملکی سیاسی تاریخ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اپوزیشن کی کسی تحریک کی کامیابی کے امکانات تبھی ہوتے ہیں جب انہیں بعض غیر سیاسی قوتوں کی بالواسطہ یا بلاواسطہ تائیدو حمایت حاصل ہو۔ لہٰذا اس حوالے سے بھی ملک بھر میں افواہوں کا سلسلہ عام ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اپنی عدم کارکردگی کے باعث مقتدر قوتوں کے اندر بھی اس حوالے سے مایوسی پائی جاتی ہے۔ ملک میں حکومت کے حوالے سے پیدا شدہ فضا بہت کچھ ظاہر کرتی نظر آتی ہے۔ کیا اپوزیشن اس صورتحال کا فائدہ اٹھا پایئے گی؟ یہ دیکھنا ہوگا اور اس کی کامیابی کا انحصار اس بات پر بھی ہوگا کہ اس میں دونوں بڑی جماعتوں ،مسلم لیگ (ن) اور پیلزپارٹی کا کتنا کردار ہوگا۔

 ویسے تو پیپلزپارٹی کے موجودہ کردار کو بعض ماہرین طاقتور حلقوں سے رازو نیاز کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور اسی بناء پر پیپلزپارٹی صرف ان ہائوس تبدیلی کی بات کرتی ہے جبکہ اس تبدیلی پر قدرت سیاسی جماعتوں کو نہیں بلکہ نادیدہ قوتوں کو حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف و دیگر مسلسل یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ یہ تبھی ممکن ہو سکتا ہے کہ حکومتی اتحادی ایم کیو ایم اور ق لیگ حکومت کو چھوڑیں کیونکہ ان کے خلاف شدید تحفظات کی حامل پی ٹی آئی کی حکومت میں ان کی شمولیت جن کی وجہ سے تھی وہی ان سے علیحدگی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ ہر دو صورتوں میں سیاسی تبدیلی کا انحصار سیاسی قوتوں کی بجائے نادیدہ قوتوں پر ہے۔ 

ملکی صورتحال میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی آنے والی رپورٹ اور اس میں کرپشن کے حوالے سے پاکستان کے 124 سے 140نمبر پر پہنچ جانے کے عمل نے وزیراعظم عمران خان کی حکومت اور ان کی جانب سے شفافیت کے دعوئوں کے آگے بڑا سوال کھڑا کر دیا ہے ۔ یہ وہ ادارہ ہے جس کی رپورٹس کی بناء پر خود وزیراعظم عمران خان اپوزیشن میں ہوتے ہوئے حکومتوں اور ان کی قیادتوں کو چارج شیٹ کرتے نظر آئے تھے۔ اس رپورٹ کے ذریعہ آنے والی تفصیلات نے خود حکومت کو دفاعی محاذ پر لاکھڑا کیا ہے اور اس کی ٹائمنگ کو بھی اس حوالے سے اہم قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ ایک روز پہلے ہی احتساب کے حوالے سے حکومتی مشیر شہزاد اکبر کے استعفے نے نئی صورتحال پیدا کر دی تھی اور سیاسی محاذ پر یہ بحث جاری تھی کہ ان سے استعفیٰ لیا گیا یا ان کی جانب سے دیا گیا۔ 

 یہ تاثر کھل کر سامنے آ گیا ہے کہ حکومت کا احتسابی بیانیہ اور اس حوالے سے جدوجہد کارگر اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔ اس کا اعتراف وزیراعظم عمران خاں بھی کچھ روز پہلے کر چکے تھے اور اگر حکومتی عدم کارکردگی کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ حکومت اور خود وزیراعظم عمران خان جتنا زور اپنے سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگانے ، انہیں سیاسی اعتبار سے نااہل قرار دلوانے اور مبینہ طور پر ان کے بیرون ملک پڑی دولت واپس لانے پر لگایا اور اس میں ناکام رہے۔ اس سے آدھا زور وہ ملک میں مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے خاتمہ پر لگاتے تو انہیں آج کی صورتحال سے دوچار نہ ہونا پڑتا۔ کیا اب آنے والے وقت میں وہ ان پر قابو پا سکتے ہیں؟ اس حوالے سے تو خود ان کے حامی بھی پرامید نہیں لگ رہے۔ لہٰذا حالات و واقعات کو جواز بناتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ہر آنے والا دن حکومت کیلئے پہلے سے زیادہ مشکل نظر آ رہا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آپسی میل ملاقات کے آداب

اسلام انسانی زندگی کی حفاظت اور اُس کی بقاء کا سب سے بڑا ضامن ہے وہ پوری انسانیت کو معاشرے میں ایک دوسرے کی جان ومال کی حفاظت اور حرمت کا پابند بناتا ہے اور جزا وسزا کے اُصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے متوازن انداز میں تنبیہ کرتا ہے: ’’اور جس جاندار کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی شریعت کے فتویٰ کی رُو سے) اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے (کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے) تو اس کو چاہیے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ وہ منصورو فتح یاب ہے‘‘(سورۃ الاسراء:33)۔

شوال کی فضیلت

شوال کا شمار 4 حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے، جن کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے

غزوہ اُحدمعرکہ حق و باطل

غزوہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے مشرکین مکہ نے مسلمانوں سے یہ جنگ لڑی غزوہ اُحد میں70 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، جن میں زیادہ تر انصار تھے

مسائل اور ان کا حل

غیر محرموں کی موجودگی میں نماز پڑھنے کی صورت میں عورت کا چہرہ ڈھانکنا سوال:عورت اگرگھرسے باہرنمازپڑھے توچہرہ ڈھانک کرپڑھ سکتی ہے؟ جواب:جی ہاں غیر محرموں کے سامنے نماز پڑھنے کی صورت میں چہرہ ڈھانک کرہی نماز پڑھیں۔(جامع ترمذی)

حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔