شہرِاقتدار: افواہوں کی زد میں۔۔۔
اگست2018ء کے بعد جب سے تحریک انصاف کی حکومت بنی ہے، ہر مہینے حکومت کے جانے کی خبریں گردش کرنا شروع کر دیتی ہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔
اب ایک بار پھر حکومت کے جانے کی خبروں کے حوالے سے میڈیا پر زورو شور سے تبصرے اور تجزیے کیے جارہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ بیان کو لے کر جس میں انہوں نے کہا کہ اگر ان کی حکومت کو ختم کیا گیا تو وہ اور بھی خطر ناک انداز میں شریف اور زرداری خاندان کے پیچھے آئیں گے۔
موجودہ سیاسی حالات کا اگر بغور جائزہ لیں تو ممکنہ طور پر کس نوعیت کے حالات پیدا ہو سکتے ہیں؟اس سوال کو لے کر اسی ہفتے میری ملاقات وفاقی وزیر برائے پلاننگ اسد عمر سے ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی نظام حکومت میں ہونے کو تو کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر ہاؤس میں وزیر اعظم عمران اپنی اکثریت کھو دیتے ہیں تو کوئی دوسرا اکثریت رکھنے والا حکومت بنا لے گا۔ کیا وہ ایسا ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں؟اس پر ان کا کہنا تھا ماضی میں اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ خبریں پھیلائی گئیں، تاریخیں تک دے دی گئیں کہ اس مہینے تک حکومت ختم ہو جائے گی۔ کچھ حلقوں نے تو اتنے یقین سے شور کرنا شروع کر دیا تھا کہ ہمارے لوگ بذات خود پریشان ہو گئے تھے۔ چند ایک نے تو مان لیا تھا کہ اب ان کی حکومت ختم ہونے جا رہی ہے، لیکن اب ہم چوتھے سال میں ہیں اور حالیہ معاشی اعدادوشمار کے مطابق ہماری حکومت ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتری کی طرف جا رہی ہے۔ اسد عمر نے کہاکہ حقیقت میں ان کی حکومت کو کسی بھی طرف سے کوئی خطرہ نہیں لیکن اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ ہماری حکومت کو گرا سکتا ہے تو اس کو ضرور کوشش کرنی چاہیے۔ ہم ہر وقت اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے بیان کو لیکر جب ہماری بات چند باخبر حلقوں سے ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ سیاسی طور پر عمران خان نے متذکرہ بیان دے کر اپنے سارے کارڈز شو کر دئیے ہیں۔ ایک تجربہ کار سیاسی تبصرہ نگار کے خیال میں یہ بیان عمران خان کی سیاسی ذہنی پختگی کا مظہر ہے۔ سب سے اہم پہلو اس بیان کے مطابق عمران خان کا اپوزیشن سمیت ان تمام طاقتور حلقوں کو بتانا ہے کہ وہ ذہنی طورپر بھرپور انداز میں اپوزیشن کرنے کو تیار ہیں ۔ہمارے پیارے پاکستان میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی سازش ضرور چل رہی ہوتی ہے اور خاص طور پر ہمارے سیاستدانوں کی موجودہ لاٹ کا تعلق ہر دور میں کسی نہ کسی سازش سے رہا ہے۔ اس لیے جب بھی اس حوالے سے خبریں زیر گردش آتی ہیں تو قوی گمان گزرتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔
مثال کے طور پر مشہور زمانہ ائیر مارشل اصغر خان کیس کا فیصلہ سب کے سامنے ہے کہ کس طرح 1990ء کے انتخابات میں پیسہ استعمال ہوا جس کی وجہ سے اس وقت آئی جے آئی نے انتخابات جیتے اور نواز شریف پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے۔ اس کے بعد 2006ء میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے درمیان ہونے والا چارٹر آف ڈیموکریسی، پھر پی پی پی اور جنرل مشرف کے درمیان ہونے والا این آر او،میمو گیٹ، ڈان لیکس۔ غرض ایسے درجنوں واقعات موجود ہیں جن کی بنا پر جب بھی حکومت کے جانے کی خبریں آنا شروع ہوتی ہیں تو اکثریت یہ ماننا شروع کردیتی ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہونے والا ہے۔
ایک اور باخبر ذرائع سے جب وزیر اعظم کے حالیہ بیان پر بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو اس بات کا بڑی اچھی طرح اندازہ ہے کہ ان کی حکومت کتنی کمزور بنیاد پر کھڑی ہے خاص طور پر عددی اعتبار سے،ایم کیو ایم ہو، مسلم لیگ (ق) ہو یا پھر جی ڈی اے والے، یہ تمام اتحادی ایک انتظام کے تحت موجودہ سسٹم کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور وہ کسی وقت بھی علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے عمران خان کبھی بھی کسی غلط فہمی کا شکار تھے اور نہ ہی ہیں۔ عمران خان نے انتہائی فصاحت و بلاغت کے ساتھ تمام اطراف میں پیغام پہنچا دیا ہے کہ اگر کوئی جماعت تحریک انصاف کو تر نوالہ سمجھتی ہے تو وہ یاد رکھیں بحثیت وزیر اعظم مجھ پر بہت ساری آفیشل پابندیاں ہیں۔ حکومتی انتظام و انصرام چلانے پڑ رہے ہیں لیکن اگر میں سڑکوں پر آگیا تو یاد رکھیں میں آپ سب کا جینا حرام کر دوں گا۔ اب بعض لوگ اس بیان کو مقتدرہ حلقوں کے خلاف دھمکی کے ساتھ تعبیر کر رہے ہیں۔اس نقطے کو لے کر جب ان حلقوں کے قریبی لوگوں سے بات ہوئی تو انہوں نے اس تاثر کی نفی کی ہے۔
ماضی میں ہم نے دیکھا کہ وزرائے اعظم کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے،اس کے پیچھے مختلف اہم سیکورٹی ایشوز پر اختلاف رائے تھا۔ پیپلزپارٹی کے دور میں حسین حقانی کی امریکہ میں بطور سفیر تعیناتی اور اس کے بعد بے حساب ویزوں کا اجراء ۔ جب اس معاملے پر تناؤ بڑھا تو اس وقت کے وزیر اعظم کا مشہور زمانہ بیان جس میں انہوں نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ کیا اسامہ بن لادن کو ویزا ہماری حکومت نے دیا تھا اور اس کے بعد ہونے والے واقعات ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ ن لیگ حکومت میں ڈان لیکس کا ہونا سب کے سامنے ہے لیکن عمران خان کے ایسے کوئی مسائل نہیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملے پر تھوڑا ٹائمنگ کا ایشو بنا تھا،وہ بھی بعد میں حل کر لیا گیا تھا۔ اب ہمیں سول اور ملٹری قیادت کے درمیان کوئی حل طلب معاملہ نظر نہیں آرہا، اس لیے عمران خان کیونکر اسٹیبلشمنٹ کی طرف اپنی تنقید کا رخ کریں گے؟
اس کے علاوہ زیادہ تر تبصرہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکومت کے چوتھے سال میں ہونے کی وجہ سے سیاست کا تیز ہونا یقینی طور پر ایک فطری عمل ہے۔ اسی سال مئی میں پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں بھی دوسرے مرحلے کے انتخابات مارچ میں ہونے ہیں۔ لہٰذا سیاست کا تیز ہونا بنتا ہے۔باقی فی الوقت کسی بڑی تبدیلی کے آثار تو ہر گز نظر نہیں آرہے۔