دلاورفگار: شہنشاہ ظرافت
تعارف دلاور فگاراردو کے مشہور مزاح نگار، شاعر، نقاد اور ماہر تعلیم تھے۔ وہ 8 جولائی 1929ء کو ہندوستان کے مشہور و معروف مردم خیز شہر بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم و ہیں حاصل کی اور بعدازاں آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) کیا۔
اس کے علاوہ انہوں نے ایم اے (انگریزی) اور ایم اے (اکنامکس) کی ڈگریاں بھی حاصل کیں۔ اپنے کرئیر کا آغاز انہوں نے ہندوستان میں درس و تدریس سے کیا اور 1968ء میں کراچی چلے آئے اور بحیثیت لیکچرار مقامی کالج سے وابستہ رہے۔درس و تدریس کے علاوہ وہ کچھ عرصہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر، ٹاؤن پلاننگ کے طور پر کے ڈی اے سے بھی وابستہ رہے۔ شعر گوئی کا آغاز 14 برس کی عمر میں میں کیا،پہلا شعری مجموعہ ’’حادثے‘‘ 1954ء میںشائع ہوا۔دیگر کتب میں ’’انگلیاں فگار اپنی‘‘،’’ستم ظریفیاں‘‘، ’’آداب عرض‘‘، ’’شامت اعمال‘‘، ’’مطلع عرض ہے‘‘،’’خدا جھوٹ نہ بلوائے‘‘، ’’چراغ خنداں‘‘،’’کہا سنا معاف کرنا‘‘،’’ عصر نو‘‘،’’ سنچری‘‘،’’چراغ خاندان‘‘،’’آبشار نور‘‘(سورۃ فاتحہ کی شاعرانہ تشریح ) ، ’’صلہ شہید کیا ہے؟‘‘ (نشان حیدر حاصل کرنے والوں کی شاعرانہ بائیو گرافی)، ’’فی سبیل اللہ ‘‘، ’’خوشبو کا سفر‘‘(انگریزی اور امریکی شاعری کا ترجمہ)، ’’آئینہ راغب‘‘ ( راغب مراد آبادی کی 125رعبایات کا مجموعہ ) شامل ہیں۔ انہوں نے جمی کارٹر کی تصنیف کا اردو ترجمہ ’’خوب تر کہاں‘‘ کے نام سے کیا ۔ 25 جنوری 1998ء کو اس دیارِ فانی سے رخصت ہوئے، کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں آسودہ خاک کیا گیا۔ حکومت پاکستان نے انہیں ’’پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ عطا کیا۔
7دسمبر 1970ء کو پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے حوالے سے لکھی گئی مشہور نظم ’’میں ووٹ کس کو دوں‘‘ نے دلاور فگار کی شہرت کو چار چاند لگائے۔ اپنے طنز اور ظرافت کی وجہ سے وہ ’’شہنشاہ ظرافت اور ’’اکبر ثانی‘‘ بھی کہلاتے ہیں۔ پروفیسر ولی بخش قادری بچپن کے دوست بھی تھے اور ہم جماعت بھی۔ کئی مرتبہ دلاور فگار کی طنزیہ شاعری کا ’’نشانہ‘‘ بھی بنے۔ ذیل میں دلاور فگار کے بارے میں ولی بخش کی ایک تحریر شائع کی جا رہی ہے۔
حمیدی صدیقی خاندان میں آنکھ کھولنے والے دلاور حسین (دلاور فگار)کے والد ماسٹر شاکر حسین استاد تھے۔ اس وقت بدایوں میں صرف دسویں جماعت تک کی تعلیم ممکن تھی، میں درجہ چہارم میں ان کا ہم جماعت بنا تھا۔ سکول کی ساری زندگی ایک دوسرے کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے گزری، ہائی سکول کے امتحان میں پاس ہونے کے بعد میں مزید تعلیم کیلئے وطن سے باہر چلا گیا۔
بدایوں میں ہمیشہ چھوٹے موٹے مشاعرے ہوتے رہتے تھے مگر موسم گرما کی تعطیلات کے زمانے میں مشاعروں میں عموماً تیزی آ جایا کرتی تھی کیونکہ پڑھنے اور پڑھانے والوں کی صورت میں شہر کا ’’برآمد کیا ہوا مال‘‘ اکثر و بیشتر لوٹ آیا کرتا تھا۔ میں بھی ایک تعلیمی سال گزارنے کے بعد پہلی بار لوٹا تو ایک دوست کو مشاعرے میں غزل پڑھتے دیکھا۔ پتہ چلا کہ وہ شباب بدایوں کے نام سے مشاعروں میں شرکت کر رہے ہیں۔ ان دنوں وہ لہک لہک کر غزل سنایا کرتے تھے۔ 4 سال بعد وہ انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے بریلی کالج پہنچے، وہیں سے معلمی کا ڈپلوما بھی لے ڈالا۔ اس دوران وہ ا پنے والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہو گئے۔ 1950ء میں اپنے والد ہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسی ادارے میں استاد بن گئے۔
یہی زمانہ فگار کی شاعری کے فروغ کا ہے، غزل گوئی میں انہوں نے صاحب علم و فن مولانا جامی مرحوم، جام نوائی، آفتاب احمد جوہر اور سبطین احمد سے فیض اٹھایا ہے۔ پھر وہ ’’شباب‘‘ سے ’’فگار‘‘ ہو گئے۔ ان کی نظموں نے 1956ء میں لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنا شروع کیا۔ ان کی نظم ’’بوقلموں کی ممبری‘‘ پہلی کامیاب طنزیہ نظم کہی جا سکتی ہے۔ اسی کے ساتھ ان کی آواز قرب و جوار میں سنائی دینے لگی۔ اخبارات و رسائل میں ان کا کلام شائع ہونے لگا۔ اسی زمانے میں ان کی نظم ’’شاعر اعظم ‘‘ شائع ہوئی۔ یہ نظم ان کی شہرت کے پہلے سنگ میل کا رتبہ رکھتی ہے۔ دوسرے مجموعہ کلام ’’شامت اعمال‘‘ سے ایک مقبول مزاح و طنز نگار شاعر کی حیثیت سے ان کا مقام مسلم ہو گیا۔ اتر پردیش کی سرکار نے انہیں سرکاری انعام کا حقدار بھی ٹھہرایا۔ تاہم 1968ء میںوہ پاکستان آگئے اور کراچی کو مسکن بنایا،آخری سانس بھی وہیں لی اور انہوں نے 68برس کی عمر پائی۔دلاور فگار کا مزاح خوشدلی پر مبنی ہوتا ہے، ان کے طنز میں تہذیب نفس کی نمود ملتی ہے، وہ تنگ نظرنہ تھے بلکہ احساسات اور افکار کے اعتبار سے ترقی پسند ہی کہلائیں گے۔ وہ جھوٹی اقدار کی قلعی کھولتے تھے۔
حاکم وقت رشوت ستاں، فکر گرفتاری نہ کر
کر رہائی کی کوئی آسان صورت، چھوٹ جا
میں بتائوں تجھ کو تدبیر رہائی، مجھ سے پوچھ
لیکر رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھٹ جا
انہوں نے تلخی حیات کے کڑوے گھونٹ بھی پیئے اور اپنی دنیا آپ پیدا کی ہے۔ ان کی شاعری میں زندگی کا پرتو صاف جھلکتا ہے، طبیعت تصنع اور تکلفات سے دور بھاگتی تھی۔ وہ منکسر المزاج دوست نوازتھے ، یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں ہم عصر شعراء کے نام اور قصے جگہ جگہ جلوہ گر نظر آتے ہیں۔
فگار کا حافظہ بہت اچھا تھا، انہیں عروض سے واقفیت تھی، زبان پر قدرت حاصل تھی، اور وہ فطرتاََ شاعر تھے ۔ اردو نظم میں الفاظ کا برجستہ استعمال ، پیوند کاری اور تصرف میںایک معیار رکھتے تھے ۔ ذرا سی بات میں ایک بات کہہ جاتے تھے بلکہ بسا اوقات کئی باتیں۔ ان کے بعض الفاظ پر علامتی رنگ چڑھتا ہوا نظرآتا تھا، وہ زندگی کے مضحک پہلوئوں کو اجاگرکیا کرتے تھے۔ لیکن نیک نیتی اور بالغ نظری کے ساتھ ان کا طنزتہہ دارہوتا تھا۔ جو پردہ بھی تھا اور پردہ در بھی۔
فگار اچھے خاصے چوڑے چکلے آدمی نظرآتے تھے۔ اکڑفوں ہرگز نہ تھے، ڈھیلے ڈھالے تھے۔ سڑک پر سر جھکائے دنیاو مافیہا سے بے خبر اپنے آپ میں مگن چلا کرتے تھے۔ نظمیں تحت اللفظ سے پڑھتے۔کچھ ایسا لگتا جیسے زور لگا کر آواز نکال رہے ہوں۔ان کے ترنم میں لڑکپن کی جھنکار سنائی دے جاتی تھی۔ مزاج میں آتش گیر مادے کی کمی تھی، وہ نرم دل محبت اور مروت کے آدمی تھے۔ وہ اپنا کلام حافظے میں جمع رکھتے تھے۔ کچھ مختصر اشاروں میں لکھ کر ادھر ادھر ڈالتے رہتے تھے اس کے علاوہ کچھ نظمیں رسائل و اخبارات کے تراشوں کی صورت میں ان کی کتابوں کے انبار میںمحفوظ رہتی تھیں ۔ ان کی زندگی سراسر معصومیت میں گزری۔ خود انہوں نے اپنے بارے میں کیا خوب کہا ہے!
عمر اب تک تو صاف گزری ہے
قاعدے کے خلاف گزری ہے
ان کی طنزیہ اور مزاحیہ نظموں کا مجموعہ ’’آداب عرض‘‘ کلام کا اچھا نمونہ کہلانے کا مستحق ہے۔ وہ اس مقام پر پہنچ گئے تھے جہاں کلام اور فن میںطاقت پرواز خو دپیدا ہوا کرتی ہے۔ ذرا دیکھئے،
ہے زراعت پر حکومت کی نظر
اور تہذیب و تمدن پر نہیں
ہے یہی باعث کہ ملک میں
ایگری کلچر تو ہے کلچر نہیں
دیکھتے جائو
وطن والو! یہ مصنوعی گرانی دیکھتے جائو
کہ سستا ہے لہو مہنگا ہے پانی، دیکھتے جائو
غریبوں کیلئے عسرت، امیروںکیلئے عشرت
مگر مارے گئے ہم درمیانی ، دیکھتے جائو
فگار اس دور میں بھی طنزیہ اشعار کہتا ہے
تم اس شاعر کی آشفتہ بیانی دیکھتے جائو
…٭٭…
نہ مرا مکاں بدل گیا ،نہ ترا پتہ کوئی اور ہے
مری راہ پھر بھی ہے مختلف ،ترا راستہ کوئی اور ہے
وہ جو مہر بہر نکاح تھا، وہ دلہن کا مجھ سے مزاح تھا
یہ تو گھر پہنچ کے پتہ چلا، میری اہلیہ کوئی اور ہے
کبھی میر و داغ کی شاعری بھی معاملہ سے حسین تھی
یہ جو تیتر اور چوکور ہیں وہی پکڑیں ان کو جو چور ہیں
…٭٭…
میں نے کہا کہ رات سے بجلی بھی بند ہے
اس نے کہا کہ ہاتھ سے پنکھا جھلا کرو
میں نے کہا کہ کار ڈکیتوں نے چھین لی
اس نے کہا کہ اچھا ہے ،پیدل چلا کرو
میں نے کہا کہ کام ہے نہ کوئی کاروبار
اس نے کہا کہ شاعری پراکتفا کرو
ہر بات پر جو کہتا رہا میں بجا بجا
اس نے کہا کہ یوں ہی مسلسل بجا کرو
پروفیسر ولی بخش قادری کا تعلق ٹیچرس کالج، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے تھا، زیر نظر
مضمون انہوں نے دلاور فگار کی کتاب ’’آداب عرض‘‘ کیلئے لکھا تھا