اختر شمار کی غزل۔۔۔۔۔ایک مطالعہ
اختر شمار کی غزل کا کینوس بہت وسیع ہے۔ اس کی موضوعاتی وسعتوں کو ایک مختصر سی تحریر میں سمونا ممکن نہیں۔ تغزل اور شعریت ان کے شعری وجدان کا ناگزیر حصہ ہے۔ سو، عمومی طور پر اختر شمار کی غزل غنائیت کے ذائقے سے معمور ہے۔ تصوف اختر شمار کی شاعری اور شخصیت کا نمایاں رنگ ہے، وہ تصوف برائے ’’شعر گفتن خوب است‘‘ کے قائل نہیں بلکہ یہ ان کا طرز احساس بھی ہے اور اسلوب حیات بھی، موت و حیات کے تمام سلسلوں کو وہ اسی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ان کے چند اشعار ملاحظہ کریں۔
موت کا بھید جو پا لیتے ہیں وہ لوگ شمار
زیست کے سارے جھمیلوں سے نکل جاتے ہیں
یہ بھی مختاری غنیمت ہے، کبھی جاتی نہیں
ہم فقیروں کی طبیعت حکمرانی کی طرف
یہ شعر تو مکمل طور پر صوفیانہ فکر کا ترجمان ہے!
لحد میں سوتے ہی ہر ایک مسافت ختم ہوتی ہے
تھکن کا سلسلہ آخر کو اس بستر تک آتا ہے
خواب اور رات ان کی شعری لغت کے پسندیدہ الفاظ ہیں، اختر شمار کے پہلے شعری مجموعے سے لے کر اب تک اشاعت پذیر ہونے والے آخری مجموعے تک آپ کو انہی دو لفظوں کی کارفرمائی دیکھائی دے گی۔وہ ان الفاظ کو اپنی غزل میں ایسے تیوروں سے لاتے ہیں کہ ان کی کئی پوشیدہ جہتیں روشن ہوتی چلی جاتی ہیں۔
خواب میں ہاتھ ملا کر وہ چلا جاتا ہے
اور پھر ایک دھنک ہاتھ میں رہ جاتی ہے
اور اس شعر میں تو خواب اور رات دونوں الفاظ ایک ساتھ خوبصورتی سے سمٹ آئے ہیں!
گزشتہ رات جو نکلا میں شہر خواب کی سمت
وہ چاندنی سی مرے ساتھ ساتھ چلنے لگی
اور اس غزل کی تو ردیف ہی خواب ہے:
آنکھوں کو کہیں پھر سے نہ برباد کرے خواب
ہر روز یہ کون آیا ہے پلکوں پہ دھرے خواب
رات کا لفظ اختر شمار کی شاعری کا Keyword ( کلیدی لفظ) ہے ۔
رات آئی تو تیری یاد کے خیمے کو
ہم نے آدھا بچھایا، آدھا اوڑھ لیا
شدت احساس کا حامل یہ شعر دیکھیے!
کاٹتی ہے مجھے یہ رات کہاں کٹتی ہے
دل میرا پھٹنے کو ہوتا ہے کہ پوپھٹتی ہے
خواب اور رات کا یہ سنگم بھی دیکھیے!
کون میرے خواب میں آیا تھا رات
کس کو چھو کر جل گئی تھیں انگلیاں
ان کی غزل میں’’فون، کلاشنکوف اور یوگا‘‘ جیسے الفاظ کی شمولیت میری رائے کا اثبات ہے۔
نہ اُس نے خط ہی لکھا ہے، نہ کوئی فون کیا
کچھ اس طرح بھی مجھے اس نے بے سکون کیا
شمارؔ اٹھانی پڑے گی ہمیں کلاشنکوف
اور اپنا سر بھی اٹھانا پڑے گا آخر کار
اک اک سانس پہ لمحہ لمحہ اوڑھ لیا
تیرے سفر میں ہم نے یوگا اوڑھ لیا
اختر شمار اُردو زبان و ادب کے مستند استاد ہیں۔ ان کا لسانی شعور بہت پختہ ہے۔ گم سم وہ مظلوم لفظ ہے جو غلط العوام بھی ہے اور غلط العام بھی۔ اختر شمار نے اپنے شعروں میں اسے صحیح املا کے ساتھ باندھا ہے۔
جانے کون ہے شام ڈھلے جو پنگھٹ پر
گم صم بیٹھی سونا رستہ دیکھتی ہے
مترنم اور خوش آہنگ بحروں کے انتخاب اور برمحل استعمال نے اختر شمار کی غزل کو صوتی اعتبار سے خوش سماعت بنا دیا ہے۔ آپ اس کی غزل کے کئی شعروں کو دل کی دھڑکنوں، ذہن کی سوچوں اور کلائی کی نبضوں پر محسوس کر سکتے ہیں۔
اور کبھی وہ آنکھ اتاروں کاغذ پر
بن ساقی کے جام بنانا پڑتا ہے
……
قریب آتی جو تاریخ اس کے ملنے کی
وہ اپنے وعدے کی مدت بڑھا دیا کرتا
……
میں زندگی کے سفر میں تھا مشغلہ اس کا
وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کے مجھ کو گنوا دیا کرتا
اس امر کا اظہار ضروری ہے کہ غزل کے دو مصرعے نہ صرف قامویں تخیل کو جذب کر لیتے ہیں بلکہ ذات سے لے کر کائنات تک، نفس سے لے کر آفاق تک، عمق قلبی کیفیات سے لے کر فلسفیانہ تفکرات تک تمام گوشوں کے اپنے دامن میں سمیٹ لیتے ہیں سو اختر شمار کی غزل کی اکائی تک رسائی کیلئے مربوط اور مرتکز مطالعہ ضروری ہے۔آخر میں انتقال سے کچھ ماہ قبل کی ایک غزل کے یہ اشعار ملاحظہ فرمایئے جس میں انہوں نے اپنی موت کی پشین گوئی کر دی تھی۔
نہ دیکھنے کو ملوں گا، ادھر نہ آئوں گا
چلا گیا تو میں بارِ دگر نہ آئوں گا
الٹنے والا ہوں میں زندگی کا اگلا ورق
دکھائی دیتا ہوں جیسا نظر نہ آئوں گا
شمار علم نہ ہو گا کھلے کواڑوں کو
جب اپنے گھر سے میں نکلا تو
گھر نہ آئوں گا
ڈاکٹر غفور شاہ قاسم معروف ادیب، دانشور اور استاد ہیں، ان کے تنقیدی مضامین پاک وہند کے موقر ادبی جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں، آپ کی متعدد کتب بھی شائع ہوچکی ہیں