وبال نگر

تحریر : عبدالرحیم عزم


خوشحال نگر کے باسی بڑی خوش و خرم اور پرسکون زندگی گزار رہے تھے۔ ان کا آپس میں پیار محبت، ایک دوسرے کے خوشی غم میں شریک ہونا اور اخوت و بھائی چارہ مثالی تھا۔ خوشحال نگر میں لڑائی جھگڑا، لوٹ مار اور چوری وغیرہ کا کام نہ ہونے کے برابر تھا۔ معاشرہ پرامن ہونے کی وجہ سے وہ ترقی کی راہ پر گامزن تھے۔

ان کو نہ جانے کس کی نظر لگی کہ ان کے ہمسایہ دیہات و بال نگر میں ہیضہ کی وبا پھوٹ پڑی۔ کافی سارے لوگ وبا کی نذر ہو گئے جو کوئی بچے کھچے ان میں سے اکثر نے خوشحال نگر کا رخ کیا کہ وہاں چل کر ڈیرے ڈالتے ہیں۔ وبال نگر کے لوگوں میں کافی ساری بری خصلتیں تھیں ان میں سے ایک نشہ کی عادت تھی۔ جھگڑالو ہونے کی وجہ سے آس پاس کے گائوں والے ان سے نالاں اور خوفزدہ رہتے تھے اور ان سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھنا چاہتے تھے۔

قدرتی آفت کے آنے پر انہوں نے  ہمدردی کی غرض سے انہیں پناہ دے دی۔ آہستہ آہستہ بیماری پر قابو پا لیا گیا اور حالات ٹھیک ہو گئے لیکن اس کے باوجود وہ واپس نہ گئے۔  انہوں نے یہاں قدم جمانے کے بعد اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دیئے اور نشہ کی لت کو پھیلانے کیلئے دوسروں کو بھی دعوت دینے لگے۔ اس کام کو آسان بنانے کیلئے انہوں نے خوشحال خاں کو بھی ساتھ ملا لیا۔ وہ خوشحال نگر کا نمبردار تھا اور طبعاً لالچی واقع ہوا تھا۔ آتی ان گنت دولت نے اس کی عقل اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا تھا۔

خوشحال خاں نے انہیں اپنی نمبرداری والی زمین میں پناہ دی تھی اسی کے ایما پر انہوں نے وہاں پوست کی کاشت شروع کر دی۔ اس سے نشہ آور اشیا تیار کرکے پھیلانے لگے۔ وہ خود بھی نشہ کرتے اور دوسروں کو بھی اس لت میں لگانے کی کوشش کرتے۔ پہلے پہل وہ خوشحال نگر کے نوجوانوں میں سے جسے دکھی اور افسردہ پاتے ہمدردی جتانے کے ناطے انہیں کہتے کہ تمہارے ان دکھوں کا مداوا اور سکون ہمارے پاس ہے۔ آئو، اسے استعمال کرو اور سکون پائو۔ شروع شروع میں وہ انہیں مفت دے دیتے لیکن جب دیکھتے کہ بندہ اب اس کا عادی ہو گیا ہے اس کے بغیر اس کا گزارا نہیں تو اسے کہتے کہ قیمتاً ملے گی۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ وہ مہنگے داموں بھی خریدنے پر راضی ہو جاتے۔

اب ان کا یہ دھندہ عروج پر تھا کیونکہ ان کو گائوں کے نمبردار کی سرپرستی بھی حاصل تھی اور گاہک بھی بن چکے تھے۔ نمبردار کو گائوں والوں، رشتہ داروں اور دوستوں نے بہت سمجھایا لیکن وہ باز نہ آیا، الٹا انہیں طنز کرتا اور کہتا کہ دیکھو تم بھوکے مر رہے ہو۔ میرے پاس دنیا کا ہر عیش و آرام ہے۔ دوست رشتہ دار اسے سمجھاتے کہ یہ حرام کی کمائی ہے اس کو خود کھائو گے، اولاد کو بھی کھلائو گے تو ان پر اس کے بڑے برے اثرات ہوں گے لیکن اس کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

خدا کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے، جن اداروں میں خوشحال کے بچے پڑھ رہے تھے، وہاں بھی ان کارندوں نے اپنا کام دکھانا شروع کردیا اور اس کا چھوٹا بیٹا ان کاشکار بن گیا۔کچھ عرصہ تک تو یہ بات گھر والوں سے چھپی رہی لیکن جب اس کے خرچوں کے تقاضے بڑھنے شروع ہوئے تو ان کا ماتھا ٹھنکا۔ انہوں نے پوچھ گچھ شروع کردی۔ جب اس کا جیب خرچ نشے کے مصارف سے کم پڑنے لگا تو اس نے گھر میں چوری شروع کردی۔ ایک دن اس کے والد نے اسے اپنے ہی کارندوں کے ساتھ نشہ کرتے دیکھ لیا۔ جب وہ گھر آیا اسے بہت ڈانٹا لیکن اب پانی سر سے گزر چکا تھا اور اس کا بیٹا نشے کے شکنجے میں بری طرح جکڑا جا چکا تھا۔

اب وہ کئی کئی دن گھر سے غائب رہتا۔ آئے روز اس کی وارداتوں کے طعنے خوشحال کو سننے پڑتے لیکن اب مرتا کیا نہ کرتا۔ یہ آگ خود اس کی اپنی لگائی ہوئی تھی اور مثل پوری ہو گئی تھی کہ’’گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘۔

اس نے بیٹے کا علاج کرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن ہر بار بحالی کے بعد وہ برے دوستوں کی صحبت کی وجہ سے دوبارہ اس لت میں مبتلا ہو جاتا۔ اب اس کو اس بات کا احساس ہوا کہ اس کی وجہ سے نہ جانے کتنے خاندان برباد ہوئے ہوں گے؟ کتنوں کا مستقبل برباد ہوا ہو گا؟ یہ احساس اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا۔ آخرکار اس نے اس برے دھندے سے توبہ کر لی ۔

ایک دن وہ گھنے درختوں کی چھائوں میں گھر سے باہر بیٹھا تھا کہ نشی نوجوانوں کا ایک گروہ وہاں سے گزرا۔ ان میں اس کا بیٹا بھی تھا۔ قریب سے گزرتے چند منچلوں نے انہیں دیکھ کر کہا، وہ دیکھو جہاز جا رہے ہیں۔ یہ بات سن کر اس کے دل کو شدید دکھ اور ٹھیس پہنچی۔ اب اسے ضمیر ملامت کر رہا تھا اور احساس شدت اختیار کر گیا کہ جس کاروبار کو وہ مال و دولت کے لالچ میں کرتا رہا ہے۔ اسی نے اس کے خاندان اور خوشحال نگر کے بہت سے گھرانوں کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسے دل میں شدید تکلیف کا احساس ہوا اور وہ خالق حقیقی سے جا ملا۔ اہل علاقہ اس کے جنازہ کے بعد چہ مگوئیاں کر رہے تھے کہ اب وہ دولت، کاریں، کوٹھیاں، بنک بیلنس کس کام کا۔ وہ تو یہیں دنیا میں رہ گیا کاش کہ انسان پہلے ہی سوچ لے کہ یہ دنیا فانی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آپسی میل ملاقات کے آداب

اسلام انسانی زندگی کی حفاظت اور اُس کی بقاء کا سب سے بڑا ضامن ہے وہ پوری انسانیت کو معاشرے میں ایک دوسرے کی جان ومال کی حفاظت اور حرمت کا پابند بناتا ہے اور جزا وسزا کے اُصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے متوازن انداز میں تنبیہ کرتا ہے: ’’اور جس جاندار کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی شریعت کے فتویٰ کی رُو سے) اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے (کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے) تو اس کو چاہیے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ وہ منصورو فتح یاب ہے‘‘(سورۃ الاسراء:33)۔

شوال کی فضیلت

شوال کا شمار 4 حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے، جن کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے

غزوہ اُحدمعرکہ حق و باطل

غزوہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے مشرکین مکہ نے مسلمانوں سے یہ جنگ لڑی غزوہ اُحد میں70 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، جن میں زیادہ تر انصار تھے

مسائل اور ان کا حل

غیر محرموں کی موجودگی میں نماز پڑھنے کی صورت میں عورت کا چہرہ ڈھانکنا سوال:عورت اگرگھرسے باہرنمازپڑھے توچہرہ ڈھانک کرپڑھ سکتی ہے؟ جواب:جی ہاں غیر محرموں کے سامنے نماز پڑھنے کی صورت میں چہرہ ڈھانک کرہی نماز پڑھیں۔(جامع ترمذی)

حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔