انسانی حقوق خرم پرویز اور بی جے پی

تحریر : کوثر لودھی


بھارت میں انسداد دہشت گردی کے ادارے نے کشمیر انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے نامور شخص خرم پرویز کو ایک بار پھر گرفتار کر لیا ہے۔

 انہیں ایک کالے قانون کے تحت حراست میں لیا گیا ہے جس میں اْنہیں ضمانت ملنا بہت مشکل ہے۔ خرم پرویز کا شمار بھارت میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے ناقدین میں ہوتا ہے۔ان کے گروپ، جموں و کشمیر کولیشن اور سول سوسائٹی نے کشمیر میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر متعدد رپورٹس بھی شائع کی ہیں۔ وہ کشمیر اور ایشیا میں جبراً لاپتہ کئے جانے والے افراد کے بارے میں قائم کی گئی ایک تنظیم کے سربراہ بھی ہیں۔ نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے خرم پرویز کے دفتر اور رہائش گاہ پر چھاپے مارے اور ان پر دہشت گردوں کی مالی معاونت، سازش میں شریک ہونے کے الزامات عائد کئے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے سوشل میڈیا پر اْن کی گرفتاری کو حقوق انسانی کا دفاع کرنے والوں کو خاموش کروانے اور سزا دینے کی کوشش قرار دیا ہے۔ خرم پرویز کی جانب سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا اور نہ ہی کوئی ردِعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ عالمی سطح پر اْن کی رہائی کے مطالبات ہر فورم پر کئے جا رہے ہیں۔

 2016ء میں بھی حکام نے اْنہیں سوئٹزرلینڈ میں منعقدہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے اجلاس میں شرکت کی اجازت نہ دیتے ہوئے متنازعہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا تھا۔ 22 نومبر 2022 ء میں گرفتار ہونے والے خرم پرویز کیلئے کشمیر میڈیا سروس کے انسانی حقوق کے علمبرداروں کی صورتحال کے بارے میں اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ اْنہیں کشمیر میں خرم پرویز کی گرفتاری کی پریشان کن خبر ملی ہے اور قابض انتظامیہ کی جانب سے ان پر دہشت گردی سے متعلق جرائم کا الزام لگائے جانے کا خطرہ ہے۔ اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ نے واضح کیا کہ ’’خرم پرویز ہرگز دہشت گردی نہیں ، بلکہ انسانی حقوق کے علمبردار ہیں ‘‘۔ اس ضمن میں ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیا کی کوارڈینیٹر میناکشی گنگولی نے کہا کہ خرم پرویز کی گرفتاری فی الواقع ایک تکلیف دہ عمل ہے۔ اْنہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قابض بھارتی انتظامیہ مسلسل یو اے پی اے کے کالے قانون کے ذریعے تشدد اور ماورائے عدالت قتل کی روک تھام جیسے بنیادی انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کرنیوالوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔

 عالمی سطح پر انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے کام کرنے والے ادارے رائٹر فاونڈیشن نے ایک بیان میں بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خرم پرویز کو فوری طور پر رہا کرے۔ فاونڈیشن نے افسوس کا اظہار کیا کہ بھارتی حکومت اپنے ملک کے آئین اور قانون اپنے توثیق شدہ بین الاقوامی معاہدوں میں درج افراد کے تحفظ کیلئے کام کرنے والے کشمیریوں کو ہراساں کر رہی ہے۔ بھارت کے ایک سیاسی کارکن یوگیندر یادیو نے کہا ہے کہ یہ شرم کی بات ہے کہ زندگی بھر انسانی حقوق کا تحفظ کرنے والے خرم پرویز پر اب دہشت گردی کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ سری نگر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق کی سربراہی میں کام کرنے والے حریت فورم اور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنے الگ الگ بیانات میں خرم پرویز جیسے انسانی حقوق کے علمبرداروں کو پس دیوار زندان دھکیلنے پر مودی حکومت کی مذمت کی ۔ حریت کانفرنس کے ترجمان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت مقبوضہ علاقے میں حق خودارادیت کے پرزور مطالبے کو دبانے کیلئے کالے قانون ’’این آئی اے‘‘ کو حرکت میں لے آیا ہے۔ انہوںنے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت کو وادی کشمیر میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں سے روکے۔ بار ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ خرم پرویز کی گرفتاری کا مقصد جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کی آواز کو دبانا ہے۔ دیگر حریت رہنمائوں ، تنظیموں نے خرم پرویز کی گرفتاری کو مقبوضہ علاقے میں بھارتی فورسز کی طرف سے بڑے پیمانے پر جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو عالمی برادری سے چھپانے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔ کشمیر کونسل یورپ اور لیگل فورم فار کشمیر نے بھی خرم پرویز کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کی رہنما یاسمین راجہ شہید، ڈاکٹر مدثر گل کے اہل خانہ سے اظہار یکجہتی کیلئے سری نگر کے علاقے بڈگام گئیں۔ اس موقع پر فاروق عبداللہ نے کہا کہ بھارت کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک خرم پرویز کے پابند سلاسل ہونے سے دنیا بھر کے سوشل میڈیا اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں کی آواز کبھی وہ بند نہیں کر سکے گا اور اسی طرح ایک دن بھارت تنہا اور برباد ہو جائے گا اور پوری دنیا کا اعتماد کھو بیٹھے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

حکومتی اعتماد میں اضافے کے دلائل

21 اپریل کے ضمنی انتخابات کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادیوں کی حکومت قائم ہو ئی تو شہباز شریف کو ووٹ دینے والوں کو شبہ تھا کہ یہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی کیونکہ مشکل فیصلے کرنے ہوں گے ، معیشت سنبھالنا انتہائی کٹھن ہو گا، بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت حکومت کیلئے مسلسل درد سر رہے گی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ تو دیا مگر اہم ترین اتحادی جماعت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنی۔

ضمنی انتخابات کا معرکہ(ن) لیگ نے سر کر لیا

ضمنی انتخابات کے حوالے سے عمومی رائے یہ رہی ہے کہ ان میں حکمران جماعت کو فائدہ ملتا ہے مگر 2018ء کے بعد اس تاثر کو دھچکا لگا ۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے ووٹرز میں تحریک پیدا کرکے انہیں پولنگ سٹیشنز تک لے آتی تھیں،مگر حالیہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ضمنی انتخابات کا معرکہ سر کر لیا۔

سندھ میں امن وامان کی دعائیں!

سندھ میں پیپلز پارٹی میدان پر میدان مار رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی سیٹ پر آصفہ بھٹو زرداری کا بلامقابلہ انتخاب ہوا اور اب قمبر شہداد کوٹ سے ضمنی الیکشن میں خورشید احمد نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔

خیبرپختونخوا میں مایوسی!

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورہر طرف سے مسائل میں گھرے نظر آرہے ہیں ۔ایک طرف صوبے کو مالی بحران درپیش ہے تو دوسری جانب دہشت گردی پھیلتی نظرآرہی ہے ۔ اب انہیں کابینہ کے اندر بھی مسائل کا سامنا کرناپڑرہاہے۔

60نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا،عمل کا منتظر!

بلوچستان کی مخلوط حکومت کی 14 رکنی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے۔ کابینہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے چھ،چھ جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے دو ارکان نے بحیثیت وزراحلف اٹھایا۔

بلدیاتی اداروں کو بجٹ جاری

آزاد جموں وکشمیر حکومت نے بالآخر بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بجٹ جاری کر دیا۔ 32 سال کے بعد آزاد جموں وکشمیر کے بلدیاتی نمائندوں کی نشاندہی پر وزارت محکمہ مقامی حکومت و دیہی ترقی مختلف ترقیاتی سکیموں کیلئے پیسے جاری کرے گی تاکہ نچلی سطح پر لوگ اپنی نگرانی میں تعمیر و ترقی کا کام کرائے جا سکیں۔