یوم یکجہتی کشمیر:آزادی کی سحر جلد طلوع ہوگی

تحریر : مہروز علی خان،ڈاکٹر محمد وقاص بٹ،محمد علی راو


کشمیرجغرافیائی لحاظ سے وسط ایشیا کے سنگم پر واقع ہے اور اس میں مختلف مذاہب کے لوگ صدیوں سے آباد ہیں، جن میں سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔

مختلف ادوار میں اس کے حسن و جمال اور قدرتی وسائل کو لوٹنے کی غرض سے جارحیت کی گئی۔ 16ویں صدی سے پہلے تک کشمیر ایک آزاد اور خود مختار ریاست تھی۔ اس کے بعد سکھوں، افغانوں اور مغلوں نے کشمیر سے اپنا حصہ وصول کیا۔اس دوران کشمیر قتل و غارت کا میدان بنا رہا۔

 19ویں صدی کے نصف میں کشمیر پر ڈوگرہ خاندان قابض ہو گیا۔ اس دوران کشمیریوں نے اپنے حقوق کی جنگ جاری رکھی بالآخر سیاسی جماعتوں کی جدوجہد کی وجہ سے کشمیر اسمبلی کا قیام 1934ء میں عمل پیرا ہوا، دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کا ہندوستان سے اقتدار ختم ہو گیا۔ اب تما م ریاستیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکتی تھیں۔

اقوام متحدہ کی قراردادیں

 تقسیم ہند کے وقت کشمیر پر مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی ۔ بھارت نے مہاراجہ پر دباؤ ڈالا کہ کشمیر کا الحاق بھارت سے کیا جائے۔ راجہ ہری سنگھ نے عوامی خواہشات کی تکمیل کرتے ہو ئے الحاق سے انکار کر دیا تو بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں۔ کشمیر کی غیور عوام اور بہادر قبائلیوں نے ڈٹ کر بھارتی جارحیت کا مقابلہ کیا اور بھارت کے مذموم عزائم کو خاک میں ملا دیا۔

’’قرارداد 38‘‘

 یکم جنوری 1948ء کو بھارت اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 35 کے تحت یہ معاملہ سکیورٹی کونسل میں لے گیا۔17 جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ نے پاکستان اور بھارت کا مؤقف سننے کے بعد ’’ قرارداد 38‘‘ پاس کی اور دونوں ممالک کو کشمیر میں مزید کارروائی کرنے سے روک دیا ۔ 

’’قرارداد39‘‘

 اقوام متحدہ کی جانب سے پاکستان اور بھارت کا مسئلہ کشمیر پر مؤقف سننے کے بعد 20 جنوری  1948 کو ’’قرار داد 39‘‘ پاس کی گئی اور   ایک کمیشن تشکیل دیاگیا ۔ اس کمیشن نے تمام صورت کا بخوبی جائزہ لینے کے بعد متعدد قراردادیں پاس کیں۔

 

’’قرارداد  47‘‘

21 اپریل 1948ء کو اقوام متحدہ کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر ’’قرارداد47‘‘ پاس کی گئی۔ جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ پاکستان اور بھارت کشمیر میں آزاد اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کیلئے مناسب حالات پیدا کریں تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ مقبوضہ جموں کشمیر دونوں ریاستوں میں سے کس کے ساتھ الحاق کا خواہشمند ہے۔

’’ قرارداد  51‘‘

 3 جون 1948ء کو اقوام متحدہ کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر ’’قرارداد51‘‘ منظور کی گئی۔ جس میں اقوام متحدہ نے پاکستان اور بھارت کے مابین تنازعہ کشمیر پر اپنی گزشتہ تین قراردادوں (38، 39، 47) کی ایک بار پھر تصدیق کرتے ہوئے اس مسئلہ پر قائم کردہ کمیشن کو ’’قرارداد 47‘‘ پر عمل کرنے کی فوری ہدایات جاری کیں۔ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کے تشکیل کردہ کمیشن کی جانب سے 13 اگست 1948ء کو پہلی قرارداد پیش کی گئی۔ اس قرارداد میں کشمیری عوام کو غیر محدود اور غیر مشروط حق خودارادیت کا حق دیا گیا۔ اسی کمیشن کی جانب مسئلہ کشمیر پر دوسری قرارداد 5 جنوری 1949ء کو پیش کی گئی۔ اس قرارداد میں ایک بار پھر اس بات کی وضاحت کی گئی کہ مسئلہ کشمیر کا واحد حل آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری ہے۔

’’ قرارداد80‘‘

14 مارچ 1950ء کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں ’’قرارداد 80‘‘ منظور ہوئی۔اس میں مسئلہ کشمیر کا واحد حل عوام کی امنگوں کے مطابق جمہوری طریقے سے غیر جانبدارانہ اور منصفانہ رائے شماری کو قرار دیا گیا۔

’’ قرارداد91‘‘

 30 مارچ 1951ء کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں ’’قرارداد 91‘‘ منظور کی گئی، جس کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے زیر انتظام قائم کی گئی اسمبلی کی طرف سے ریاست جموں کشمیر کے مسئلے کا پیش کیا گیا کوئی بھی حل حتمی تصور نہیں کیا جائے گا۔

’’قرارداد 98‘‘

 23 دسمبر 1952ء کواقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں’’قرارداد98‘‘ منظور ہوئی۔ جس میں اعلان کیا گیا کہ ریاست جموںو کشمیر کے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ہونے والی رائے شماری سے کیا جائے، تاہم اس سے قبل ریاست سے ہتھیاروں کا خاتمہ کیا جائے۔ پاکستان اور بھارت کو ایک مقررہ تعداد میں فوج رکھنے کی اجازت ہوگی۔

’’قرارداد122‘‘

 24 جنوری 1957ء کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں ’’ قرارداد122‘‘ منظور ہوئی۔ اس میں یہ عہد دہرایا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی جانب سے قائم کی گئی آئین ساز اسمبلی کا منظور کردہ کوئی بھی قانون یا آئین خطے کے مستقبل یا اس کے کسی ایک ملک کے ساتھ وابستگی کا تعین نہیں کرے گا۔اس مسئلے کو آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری سے ہی حل کیا جائے گا۔پاکستان نے ان قراردادوں کی مکمل پاسداری کی جبکہ بھارت استصواب را ئے سے بھاگ گیا اور ان قراردادوں کی ایک بھی شرط پوری نہیں کی ۔ ان قراردادوں میں اقوام متحدہ کمیشن کو بھارت کی جانب سے باور بھی کروایا گیا کہ ریاست جموں و کشمیر کی آئندہ حیثیت یہاں مقیم عوام کی خواہشات کے مطابق مقرر کی جائے گی۔ جس کا واضح مطلب یہ تھا کشمیری عوام پر کسی قسم کا کوئی جبر نہیں کیا جائے گا۔ نہ ہی انہیں زبردستی کسی بھی ملک سے الحاق کرنے کا پابند کیا جائے گا۔ بھارت کی جانب سے اس قرارداد کی نفی کی گئی اور ایک عرصے سے کشمیر میں جبر اور زبردستی کی فضا نے وہاں کی عوام کا جینا محال کر رکھا ہے۔

 اقوام متحدہ کی جانب سے گزشتہ ہدایات میں اضافہ کرتے ہوئے مزید یہ بھی شامل کیا گیا کہ ریاست جموں کشمیر کے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ اس بات کو بھی بھارت کی جانب سے ماننے کی حامی تو بھری گئی پر عمل کی باری آئی تو بھارت کی جانب سے پھر اس کے  الٹ کیا گیا۔ جس کا ثبوت یاسین ملک سمیت بیشتر حریت رہنماؤں کا کئی کئی سال جیل میں رہنا ہے ۔ اکثریت میں ہونے کے باوجود مسلمانوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک بھارت کی سفاکیت کو عیاں کرتی ہے۔ 

1957ء میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھارت کی جانب سے بے شرمی سے پس پشت ڈالا گیا ۔ اقوام متحدہ کے بارہا بار وضاحت کے باوجود اپنے دستور میں ترمیم کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کو دستور کا حصہ بنا کر اسے خصوصی حیثیت دے دی گئی۔ جس کے باعث پاک بھارت تعلقات انتہائی کشیدگی کا شکار ہو گئے ۔پاکستان بھارت کے اس غیر قانونی اقدام کی مذمت کرتا رہا اور عالمی سطح پر بھی بھارت کی ہٹ دھرمی کے خلاف آواز اٹھاتا رہا۔ جس کے باعث حالات اتنے کشیدہ ہوئے کہ 1965ء کی جنگ کا باعث بنے ۔جس میں بھارت کو منہ کی کھانی پڑی اور 1966ء میں معاہدہ تاشقند ہوا اور جنگ بندی ہوئی۔ 1989ء میں بھارت کی غلاظت کے خلاف کشمیری عوام نے کاروان آزادی کا آغاز کیا اور پوری دنیا میں کشمیریوں کی جرات اور بہادری کی مثالیں قائم ہونا شروع ہو گئیں۔

’’ قرارداد  1172‘‘

6 جون 1998ء کو اقوام متحدہ میں اس مسئلہ سے متعلق ’’قرارداد 1172‘‘ منظور کی گئی جس کے تحت پاکستان اور بھارت کو تاکید کی گئی کہ وہ باہمی تنازعات کو دور کرنے، امن و امان اور سلامتی سے متعلق تمام معاملات کے دیرپا حل کیلئے مذاکرات کا باقاعدہ آغاز کریں۔ اس قرارداد میں اقوام متحدہ کی جانب سے اس بات پر زور دیا گیا کہ دونوں ممالک کے مابین کشیدگی کی بنیادی وجہ کشمیر ہے، جس کامستقل حل تلاش کرنا دونوں ممالک کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

آپسی میل ملاقات کے آداب

اسلام انسانی زندگی کی حفاظت اور اُس کی بقاء کا سب سے بڑا ضامن ہے وہ پوری انسانیت کو معاشرے میں ایک دوسرے کی جان ومال کی حفاظت اور حرمت کا پابند بناتا ہے اور جزا وسزا کے اُصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے متوازن انداز میں تنبیہ کرتا ہے: ’’اور جس جاندار کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی شریعت کے فتویٰ کی رُو سے) اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے (کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے) تو اس کو چاہیے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ وہ منصورو فتح یاب ہے‘‘(سورۃ الاسراء:33)۔

شوال کی فضیلت

شوال کا شمار 4 حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے، جن کا ذکر قرآن پاک میں بھی آیا ہے

غزوہ اُحدمعرکہ حق و باطل

غزوہ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے مشرکین مکہ نے مسلمانوں سے یہ جنگ لڑی غزوہ اُحد میں70 مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، جن میں زیادہ تر انصار تھے

مسائل اور ان کا حل

غیر محرموں کی موجودگی میں نماز پڑھنے کی صورت میں عورت کا چہرہ ڈھانکنا سوال:عورت اگرگھرسے باہرنمازپڑھے توچہرہ ڈھانک کرپڑھ سکتی ہے؟ جواب:جی ہاں غیر محرموں کے سامنے نماز پڑھنے کی صورت میں چہرہ ڈھانک کرہی نماز پڑھیں۔(جامع ترمذی)

حکومت کے معاشی و سیاسی چیلنجز

الیکشن اور حکومت سازی میں مشکلات کو عبور کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کو اب حکومت چلانے میں نئی مشکلات کا سامنا ہے اور ان میں سب سے بڑا چیلنج ہے معاشی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی مہنگائی۔حال ہی میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی کڑی شرائط خصوصاً ًپٹرولیم، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بڑے اضافے نے مہنگائی میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مہنگائی کے شعلے کچھ ایسے بے قابو ہوئے ہیں کہ یہ اب ہر سمت پھیلتے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے ۔

حکومت مخالف تحریک اور حکومتی صف بندی

مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بنے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں اور حکومت خود کو ملک کے حالات کے تناظر میں سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے مگر اس کو مختلف محاذوں پر مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے ۔