سونا اور ریچھ

عاصمہ بہت دنوں سے اپنے ابو سے ضد کر رہی تھی کہ اس بار چھٹیاں پھپھو کے ہاں گزارے گی کیوں کہ وہاں کا موسم بہت اچھا ہوتا ہے۔ عاصمہ کے ابو کو آفس میں زیادہ کام ہونے کی وجہ سے وقت نہیں مل رہا تھا۔ وہ سارا دن گھر میں بور ہوتی۔ امی کہتیں ’’اپنی سہیلیوں کی طرف چلی جائو‘‘لیکن وہ پھپھو کے پاس جانا چاہتی تھی۔
ایک دن عاصمہ کے ابو آفس سے جلدی گھر آ گے اور انہوں نے آتے ہی عاصمہ سے کہا ’’تیار ہو جائو! ہم تمہاری پھپھو کے گھر جا رہے ہیں‘‘۔عاصمہ گاڑی میں بیٹھی بہت خوش تھی اور باہر بہت گرمی تھی۔ وہ ایک ایسے علاقے میں سے گزر رہے تھے، جہاں کا منظر بہت خوبصورت تھا۔ اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ یہاں رک کر اس جگہ کو جی بھر کر دیکھے، لیکن وہ ابو سے ڈرتے ہوئے کہہ نہیں پائی کہ کہیں ابو پھپھو جان کے گھر کا پروگرام کینسل نہ کر دیں۔
گاڑی ابھی تھوڑی دور ہی گئی تھی کہ ابو نے اچانک گاڑی کو ایک طرف روک دیا اور کہا ’’لگتا ہے گاڑی کا انجن گرم ہو گیا ہے۔ کچھ دیر رکنا پڑے گا‘‘۔عاصمہ کی تو جیسے دل کی مراد پوری ہو گئی۔ سب گاڑی سے باہر نکلے، تو موسم بھی بدلنے لگا۔ ٹھنڈی ہوا چلنے لگی، سب کے چہروں پر مسکراہٹ آ گئی۔ کچھ دیر کے بعد ابو نے کہا ’’اب چلو! یہاں نزدیک ہی ایک ریسٹورنٹ ہے، وہاں جا کر کھانا کھاتے ہیں‘‘۔
جب عاصمہ اور اس کے امی ابو ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہے تھے، تو ان کے ساتھ والی ٹیبل پر ایک فیملی بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔ تب اسے پتا چلا کہ اس کی پھپھو جہاں رہتی ہے، وہاں ایک غار میں سونا چھپا ہوا ہے۔ یہ سن کر اسے بہت تجسس ہوا اور وہ سوچنے لگی ’’اگر وہ سونا میرے ہاتھ لگ جائے تو ہم امیر ہو جائیں گے‘‘۔یوں اسے اس بات نے لالچی بنا دیا اور باتوں باتوں میں اس فیملی نے اس غار کا نام بھی بتا دیا۔ اس نے وہ یاد کر لیا۔ شام ہونے سے پہلے وہ اپنی پھپھو کے گھر پہنچ گئی۔
صبح اٹھتے ہی اس نے اپنے کزن سے بڑی چالاکی سے اس غار کے بارے میں دریافت کیا تو اسے معلوم ہو گیا کہ وہ غار کہاں ہے۔ رات ہوتے ہی وہ چپکے سے گھر سے نکل گئی اور ایک ٹارچ کی مدد سے اس غار تک پہنچ گئی۔ اسے ڈر تو لگ رہا تھا لیکن سونا حاصل کرنے کے لالچ نے ڈر کو بھگا دیا تھا۔ وہ غار کے اندر گئی اور ٹارچ مار مار کر سونا تلاش کرنے لگی۔ اس نے وہاں موجود بھاری بھاری پتھر بھی ہٹا ہٹا کر دیکھے، لیکن اسے سونا کہیں نہ ملا۔جب وہ مایوس ہو گئی تو اس نے جانے کا سوچا تو غار میں چھوٹے چھوٹے پتھر گرنے لگے۔ وہ ڈر گئی اور باہر کی طرف بھاگی اور غار کے منہ کے سامنے ایک بڑا سا پتھر آ گیااور غار بند ہو گیا۔ وہ گھبرا گئی اور باہر نکلنے کا دوسرا راستہ تلاش کرنے لگی مگر اسے کوئی راستہ نہ ملا۔ وہ رونے لگی اور اسے امی ابو بھی یاد آنے لگے۔ اب وہ پچھتانے لگی کہ وہ یہاں کیوں آئی۔روتے روتے اس کی آنکھ لگ گئی اور جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا، اس کے سامنے ایک ریچھ کا بچہ کھڑا ہے۔ وہ اسے دیکھ کر ڈر گئی۔
ریچھ نے کہا! ’’ضرور تم یہاں سونا ڈھونڈنے آئی ہو گی۔ کوئی بات نہیں آئو! میں تمہیں اس غار سے باہر لے چلوں‘‘۔وہ اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی اور کچھ ہی دیر میں غار سے باہر تھی۔ اس نے چھوٹے ریچھ کا شکریہ ادا کیا اور کہا ’’اگر تم میری مدد نہ کرتے، تو میں یہاں ہی مر جاتی‘‘۔ ریچھ نے کہا ’’کوئی بات نہیں اب تم اپنے گھر جائو‘‘۔
وہ جانا تو چاہتی تھی، لیکن اس نے جاتے جاتے کہا ’’چھوٹے ریچھ! کیا تم جانتے ہو کہ سونا کہاں ہے؟‘‘یہ سن کر چھوٹا ریچھ ہنس پڑا۔ اس نے پوچھا’’تم ہنس کیوں رہے ہو؟‘‘
’’میں ہنسا اس لیے ہوں کہ سونے والی بات ہر طرف پھیلی ہوئی ہے اور سب سونے کیلئے آتے ہیں، پر کسی کو سونا نہیں ملتا۔ اصل میں لوگ آدھی بات سن کر سونا تلاش کرنے نکل پڑتے ہیں‘‘۔
’’آدھی بات کیا مطلب؟‘‘
’’اصل میں میرا نام سونا ہے، میں ایک سرکس کمپنی میں کام کرتا تھا اور میں اس سرکس میں سب سے زیادہ کرتب دکھاتا تھا۔ لوگ مجھے دیکھنے آتے تھے۔ خاص طور پر بچے۔ مالک زیادہ پیسے کمانے لگا تو اس نے میری کمائی کی وجہ سے میرا نام سونا رکھ دیا۔ ایک دن میں یہ سب کرکے تھک گیا۔ سرکس کے مالک نے ایک چالاکی کی اور اخبار میں یہ خبر دے دی کہ غار میں سونا ہے۔ لوگ سونا تلاش کرنے نکل پڑے۔ وہ جانتا تھا کہ غار میں سونا نہیں ہے۔ اگر میں انہیں کہیں نظر آ گیا تو لوگ باہر جا کر بات ضرور کریں گے۔ یوں اسے پتا چل جائے گا کہ میں غار میں ہوں۔ وہ مجھے پکڑ لے گا، لیکن انہیں کہیں بھی سونا نہ ملا۔ مایوس ہو کر جانا پڑا‘‘۔ عاصمہ نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا ’’میں بھی یہ سن کر لالچ میں آ گئی تھی۔ آج پتا چلا کہ محنت کرنے سے سب کچھ ملتا ہے۔