ارنیسٹ ھیمنگوے

تحریر : محمد عرفان احسن پاشا


ارنیسٹ ملر ہیمنگوے 21جولائی1899ء کو شکاگو کے نواحی قصبہ اوک پارک میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد ڈاکٹر کلیرنس ایڈمنڈس ہیمنگوے معالج تھے جنہوں نے شکاگو کے میڈیکل کالج سے ایم ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی اور اوک پارک میں پریکٹس کرتے تھے۔ ارنیسٹ کی والدہ گریس ہیمنگوے نے اوک پارک ہائی سکول میں تعلیم حاصل کی تھی۔تخلیقی عمل کا ذوق انہیں والدہ سے وراثت میں ملا۔

 ان کے بچپن کی بیشتر خصوصیات غیر معمولی حد تک بڑی عمر میں بھی قائم رہیں۔ ان کا یہ قول کہ ان کو کسی چیز کا ڈر نہیں ان کے ضابطۂ عمل کیلئے مشعل راہ رہا اور زندگی کی ہر مصیبت اور افتاد میں وہ اس پر کار بند رہے۔ وہ تمام عمر جرأت، حوصلہ مندی اور قوت برداشت کے حامی رہے جس کی تعلیم بچپن ہی سے ان کے ذہن پر نقش ہو گئی تھی۔ اس طرح فطرت کے خارجی مناظر سے محبت اور سیرو شکار کا شوق ان کو بچپن ہی سے تھا۔ کھلے آسمان کے نیچے جنگلوں کی وسعت میں، جھیل اور سمندر کی سطح پر، آزادی کا احساس اور اس سے حاصل کردہ مسرت تمام زندگی وہ محسوس کرتے رہے۔ جسمانی محنت کے کام وہ نوجوانی کے بعد بالعموم نہیں کرتے تھے لیکن ان کو ایسے کھیلوں سے دلچسپی تھی جس میں جسمانی مشقت لازمی تھی۔ ان کو تیراکی، چہل قدمی، اورہائیکنگ سے عمر بھر محبت رہی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس سے ذہن صاف اور جسم صحت مند رہتا ہے۔ وہ ہر کام خوش اسلوبی سے کرنے کے قائل تھے اور ان سب کی تعلیم ان کے والد نے انہیں بچپن میں دی تھی۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس کا رجحان افسانوی ادب کی طرف تھا۔

1954ء میں جب ادب کا نوبل انعام ارنیسٹ ہیمنگوے کو دیئے جانے کا اعلان ہوا تو یورپ اور امریکہ کے ادبی حلقوں میں یہ ایک تلخ نزاعی مسئلہ بن گیا اور ان ممالک کے اخبارات اور رسائل میں پرزور اور اکثر ناخوشگوار بحث و مباحثے کا آغاز ہوا۔ اعلان سے قبل کے پچھلے بارہ سال میں ہیمنگوے نے صرف دو ناول شائع کئے تھے جن میں سے ایک ناول پر درشت اور ناموافق تبصرہ ہوا تھا اور دوسرا ناول اتنا مختصر تھا کہ اسے عام طور سے نقادوں نے ناول ماننے میں پس و پیش کیا تھا۔ نوبل انعام کے دوسرے امیدواروں کے برعکس ہیمنگوے اپنے ملک کے ادبی اور ثقافتی حلقوں کے نہ تو سرگرم کارکن تھے اور نہ ان حلقوں میں ان کو مقبولیت حاصل تھی۔ ادب خصوصاً افسانوی ادب پر ان کے بیانات محدود، طنزیہ اور اکثر غیر سنجیدہ تھے جن سے نہ تو ادب یا ادیب کے وقار میں اضافہ ہوتا تھا، نہ ان سے ادب کو سمجھنے اور پرکھنے کی بصیرت حاصل ہوتی تھی ورنہ خود ہیمنگوے کی ادبی ذہانت یا فہم و ادراک کی نشاندہی ہوتی تھی۔ اس لئے ہیمنگوے کے بارے میں نوبل انعام یافتہ، پروقار اور اہم شخصیت کا تصور اگرناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔ پھر انہوں نے اپنی کڑوی کسیلی باتوں سے ہم عصر ادیبوں اورنقادوں کو ناراض کرکے اپنا دشمن بنا لیا تھا جو ان کی بدگوئی میں توازن سے کام نہیں لیتے تھے۔

اس کے علاوہ مباحثے کی ایک وجہ خود الفریڈ نوبل کی وصیت تھی جس کی رو سے ادب کا انعام اس شخص کو دیا جانا تھا جس کی غیر معمولی ادبی تخلیقات میں ’’تصوراتی رجحانات‘‘ ہوں۔ اس افلاطونی فقرے سے ہیمنگوے کے ادبی مریضوں کو ایک نیا موقع مل گیا کہ وہ ان کی شخصیت اور ادبی کارنامے پر نئے سرے سے حملہ کر سکیں۔ یہ اندیشہ بے بنیاد نہیں معلوم ہوتا کہ بیشتر حملے ذاتی مفاد پر محمول تھے اور ان کا نشانہ ادبی تخلیقات سے زیادہ ان کی ذات تھی۔ بہرحال جو بحث اٹھائی گئی وہ یہ تھی کہ تصوریت ان کی تصانیف کی نمایاں خصوصیت نہیں تھی کیونکہ ان کے مرکزی اور پسندیدہ موضوعات تشدد، جنس اور موت تھے۔

یہ درست ہے کہ ہیمنگوے نے اپنے ملک کے ادبی حلقوں کو کبھی اہمیت نہیں دی بلکہ ان کے اکثر بیانات جارحانہ اور تحقیر آمیز تھے لیکن یہ صحیح نہیں ہے کہ وہ ادب یا ادب اور زندگی کے باہمی تعلق کے بارے میں سنجیدہ نہیں تھے۔ اپنی کتاب’’ سہ پہر میں موت‘‘ میں انہوں نے لکھا ہے کہ ادیب کا کام ادب کی تخلیق کرنا ہے۔ اس کیلئے دیکھنا، سننا، سیکھنا اور سمجھنا ہے اور اس موضوع پر لکھنا ہے جو وہ جانتا ہو۔ نہ جاننے کے پہلے اور نہ اس کے بہت بعد جو دنیا کی نجات کے خواہاں ہیں ان کو ان کے حال پر چھوڑنا چاہئے۔ ہیمنگوے کے مخالفین کو اس بیان میں تضاد کا پہلو نظر آیا اور ان کے خیال کے مطابق اس بیان سے ہیمنگوے کے تصوریت کی نہیں بلکہ ان کی حقیقت نگاری کی تصدیق ہوتی ہے اور حقیقت بینی، تصوریت کی ضد تسلیم کی جاتی ہے۔ لیکن اوپر کے بیان میں آگے چل کر ہیمنگوے نے لکھا ہے کہ اگر ادیب کی تخلیق میں سچائی اور فنی دیانت داری ہے تو ’’تخلیق کردہ جز، کل کی نمائندگی کرے گا۔ اصل کام تخلیق ہے اور تخلیق کے عمل کو سیکھنا ہے‘‘۔

 ہیمنگوے نے ہمیشہ ان موضوعات پر اپنے ذاتی تجربات کی روشنی میں لکھا جن کے بارے میں ان کو یقین تھا کہ وہ سچائی پر مبنی ہیں۔ اپنے تجربات کو وہ براہ راست انتہائی دیانتداری سے بیان کرتے ہیں اور اس بیان کے لئے انہوں نے ایسی طرز تحریر ایجاد کی جو اس سچائی کی حامل ہو اور بغیر کسی قسم کے ابہام کے اس کا اظہار کر سکے۔ وہ ایک ایسے عہد میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے جس میں تشدد کا غلبہ تھا۔ اس عہد نے چھوٹی اور محدود جنگوں کے علاوہ دو عالمی جنگوں کی تباہ کاریوں اور لا محدود جانی و مالی نقصان کا مشاہدہ کیا تھا۔ اس عہد میں ماضی سے بے نیاز اور مستقبل سے بے پرواہو کر انسان نے حال کے لمحے میں زندہ رہنا سیکھا تھا اور آزاد ی سے اسے رنگین بنانا چاہا تھا۔ اس عہد نے پرانی قدروں اور قدیم اداروں کی شکست و ریخت دیکھی تھی اور غیر یقینی فردا کے دھندلکے میں موت کے سائے منڈلاتے دیکھے تھے۔ اس لئے موت ایک ایسی مریضانہ ذہنی واہمہ بن گئی تھی جس سے فرار کی تمنا نے اس عقیدے کو جنم دیا تھا جس میں مقصد زندگی حصولِ لذت سے عبارت تھا۔ اگر تشدد، جنس اور موت کا عکس ہیمنگوے کی تصانیف میں ملتا ہے تو یہ ان کے محدود ہونے کی علامت نہیں ہے۔ بلکہ ان کی فنی دیانت داری اور غیر جانب داری کی دلیل ہے۔

ہیمنگوے کے برطانوی نقادوں نے خصوصاً اس امر کی جانب توجہ دلائی ہے کہ ہیمنگوے کے موضوعات کا دائرہ اور افسانوی محل وقوع بہت محدود ہیں ۔یہ اعتراضات اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ شاعر کے مقابلے میں ناول نگار کا دائرکار بہت وسیع ہے کیونکہ اس کا اصل موضوع انسانی تعلقات کا وہ مربوط جال ہے جس کے گھیرے میں ہر انسان ہے۔ شاعر کو اس کی آزادی ہے کہ وہ اپنی ذات سے مخاطب ہو سکے یا کائنات یا فطرت سے اپنے ذاتی تعلق کا تجزیہ کر سکے۔

ارنسٹ ہیمگوے کے سات ناول شائع ہوئے جبکہ کہانیوں کے چار مجموعے اشاعت پذیر ہوئے۔ان میں سے چند کتب ان کی وفات کے بعد شائع ہوئیں۔ ان کی زندگی ہر لمحہ نشیب و فراز سے دوچار رہی۔ انہوں نے دو مرتبہ خود کشی کی کوشش کی اور آ ج کے دن دو جولائی 1961ء کو جب اس کی 62 ویںسالگرہ میں چند ہی ہفتے رہ گئے تھے انہوں نے سر میں گولی مار خود کو ہلاک کر لیا۔ ہیمنگوے نے اپنے دماغی خلل کا ذمہ دار ای سی ٹی کے طریقہ علاج کو قرار دیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

غوروفکر کے بعد کام کرنااللہ تعالیٰ کو محبوب!

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ عبدالقیس کے سردار سے فرمایا تم میں دو باتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ ایک بردباری اور دوسرے غوروفکر کے بعد کام کرنا‘‘ (مسلم شریف)۔

کفایت شعاری:شریعت اسلامی کی نظر میں

کفایت شعاری کا معنی یہ ہے کہ انسان خرچ، اخراجات اورخریداری کے معاملے میں اعتدال و توازن اورمیانہ روی اختیار کرے اورغیر ضروری اخراجات سے پرہیز کرے۔ہم مسلمان ہیں اوراسلام ہمیں فضول خرچی سے روکتا ہے۔

حج کے بعد زندگی کیسے گزاریں؟

اللہ تعالیٰ دنیا بھر کے تمام حجاج (حج کرنے والوں) اور معتمرین (عمرے کرنے والوں) کا حج اور عمرہ اپنے کرم سے قبول فرمائے۔ اس دوران ہونے والی تمام لغزشوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے اور بار بار بیت اللہ شریف کی مقبول حاضری کی سعادت نصیب فرمائے۔

غصے کا علاج

غصیلا انسان شیطان کے ہاتھ میں اس طرح ہوتاہے جیسے بچوں کے ہاتھ میں گیند، لہٰذا غصہ کاعلاج کرناضروری ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ غصے کے سبب شیطان سارے اعمال برباد کروا ڈالے۔

مسائل اور ان کا حل

اذان کے وقت تلاوت قرآن کی شرعی حیثیتسوال:تلاوت کے دوران اگر اذان شروع ہو جائے تو اذان کے وقت قرآن پڑھنا درست ہے یا نہیں ؟(جاویدستار،کراچی)

وفاقی بجٹ۔۔۔۔معاشی ٹیم بیک فٹ پر کیوں؟

نئے مالی سال کا بجٹ پیش کردیا گیا ہے مگر حکومت اور حکومتی شخصیات اس بجٹ پر بیک فٹ پر نظر آرہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے پہلی مرتبہ وفاقی بجٹ پیش کرنے کے بعد ایف بی آر میں ہونے و الی ٹیکنیکل بریفنگ منسوخ کردی۔ یہ ٹیکنیکل بریفنگ بجٹ میں اٹھائے گئے ریونیو اقدامات کی تفصیلات بتا نے کیلئے ہوتی ہے۔