سیاسی بحران میں اضافہ اور مستقبل کے امکانات
بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے کونہ صرف حکومت عدالت میں چیلنج کرے گی بلکہ پارلیمنٹ سے اس فیصلہ کے خلاف قرارداد اور قانون سازی بھی کی جائے گی ۔
حکمران اتحاد کو اندازہ تھا کہ یہ فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں آیا تو اس سے مرکز اور پنجاب میں حکومت کی عددی پوزیشن پر فرق پڑسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کسی بھی صورت پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے حق میں نہیں ۔ اسی بنیادپر حکومت نے الیکشن ایکٹ میں ترامیم کو پارلیمنٹ سے منظور کرایاہے۔ اس قانون کے تحت فہرست نہ دینے والی جماعت مخصوص نشستوں کی حق دار نہ ہوگی اور نہ ہی آزاد امیدوار پارٹی بدل سکے گا۔حکومت نے پہلے قومی اسمبلی اور پھر سینیٹ سے اس قانون کی منظوری لے لی ہے ۔ حکومت کی اس قانون سازی کو اپوزیشن (پی ٹی آئی) نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیاہے ،جو ظاہر کرتا ہے کہ مخصوص نشستوں کے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن میں اور زیادہ محاذ آرائی دیکھنے کو ملے گی ۔ حکومت نے یہ قانون تو منظورکرالیا ہے اور وقتی طور پر مخصوص نشستوں کے معاملے سے خود کو بچا بھی لیا ہے مگر اب یہ معاملہ اعلیٰ عدالت میں چلا گیا ہے چنانچہ حتمی طور پر فیصلہ سپریم کورٹ کو ہی کرنا ہوگا۔ سپریم کورٹ میں پہلے ہی بہت سے مقدمات میں حکومت کو سیاسی سبکی کا سامنا کرنا ہے ۔ ایسے لگتا ہے کہ حکومت اور سپریم کورٹ میں فیصلوں کے حوالے سے تناؤ بڑھ رہا ہے۔حکومت کا موقف ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے اور اس حق سے سپریم کورٹ سمیت کوئی ادارہ اسے نہیں روک سکتا ۔ حکومت کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر بڑا اعتراض یہ ہے کہ عدالت نے اس فیصلہ میں پی ٹی آئی کو ریلیف دیا جبکہ پی ٹی آئی اس مقدمے میں فریق نہیں تھی اور جب پی ٹی آئی فریق ہی نہیں تھی تو اس کے حق میں فیصلہ کیسے ہوسکتا ہے ؟لگتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس حکومت کے مستقبل سمیت مخصوص نشستوں کے معاملہ پر آخری راؤنڈ سپریم کورٹ میں ہی ہوگا۔ اس سے قبل وزیر دفاع خواجہ آصف کہہ چکے ہیں کہ ہمیں ڈر ہے کہ اکتوبر میں سپریم کورٹ فروری کے انتخابات کو کالعدم قرار دے سکتی ہے، جس سے پارلیمنٹ اور حکومت کو گھر بھیجا جاسکتا ہے ۔دوسری جانب بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمہ کو پاکستان کے حالات سے بھی جوڑ کر دیکھا جارہا ہے ۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جو کچھ حسینہ واجد بنگلہ دیش میں کررہی تھیں اور وہاں جس طرح مخالف جماعتوں کو دیوار سے لگایا جارہا تھا کچھ اسی طرح کے حالات پاکستا ن میں بھی ہیں ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کے حالات بنگلہ دیش سے بھی خراب ہیں کیونکہ بنگلہ دیش میں صرف سیاسی بحران تھا جبکہ ہم یہاں سیاسی اور معاشی سطح پر دو بڑے بحرانوں سے گزررہے ہیں ۔حکومت اور مقتدرہ کے پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات میں بھی کافی محاذآرائی ہے اور عمران خان بھی ایک مشکل سیاسی کھلاڑی کے طور پر سامنے آئے ہیں ۔بنگلہ دیش میں ہونے والی شورش کو پاکستان سمیت بہت سے ممالک کے لیے ایک سبق کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان لڑائی ملکی مفاد میں ہر گز نہیں ۔اگر یہ محاذ آرائی برقرار رہی تو اس سے سیاسی اور معاشی مشکلات میں اضافہ ہوگا اور اس کا ایک بڑا ردعمل عوام میں بھی دیکھنے کو ملے گا۔
جماعت اسلامی کی دھرنا سیاست بھی قومی سیاست پر غالب ہے اور اب جماعت اسلامی نے اعلا ن کیا ہے کہ دھرنا پنڈی یا اسلام آبادتک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کو پورے ملک میں پھیلایا جائے گا۔ لاہو رمیں بھی ایک بڑے دھرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔جماعت اسلامی نے اس دھرنے کے خاتمہ کے لیے حکومت کو دس نکاتی مطالبات پر مبنی سفارشات پیش کی ہیں جن میں بجلی کے بلوں میں فوری طور پر 50 فیصد کمی اور بھاری ٹیکسوں سے عوام کو نجات دینے جیسے مطالبات شامل ہیں ۔ حکومت اور جماعت اسلامی میں بات چیت کے کئی راؤنڈ بھی ہوئے ہیں مگر نتیجہ خیز نہیں ہوسکے ۔ اب بنگلہ دیش میں جس طریقے سے حکومت تبدیل ہوئی ہے ،اور اس میں خود جماعت اسلامی کا بھی بڑا حصہ ہے کہ جماعت کی مزاحمت کی وجہ سے بھی حسینہ واجد کو سیاسی طور پرشکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جماعت اسلامی ایک منظم جماعت ہے اورحکومت مخالف تحریک چلانے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے اس لیے خود حکومتی حلقو ں میں بنگلہ دیش میں ہونے والی تبدیلی کے بعد جماعت اسلامی کے دھرنوں پر تحفظات ہیں اور وہ حکومت کو پیغام دے رہے ہیں کہ دھرنوں کی سیاست کو مزید آگے نہ بڑھنے دیا جائے ورنہ آنے والے دنوں میں حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ پہلے ہی لوگ بجلی کے بلوں پر حکومت کے سخت خلاف ہیں ، جس گھر میں بجلی کا بل جارہا ہے وہاں حکومت کے خلاف شدیدغصہ پایا جاتا ہے ۔ اگرچہ شہباز شریف کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ مانتے ہیں کہ بجلی کے بلوں پر لوگوں میں شدید غصہ ہے اورپوری کوشش ہے کہ سخت ترین معاشی حالات میں لوگوں کو کم ازکم بجلی میں ریلیف دیا جائے لیکن لگتا یوں ہے کہ حکومتی خواہش اپنی جگہ مگر ملک کے موجودہ معاشی حالات میں حکومت کے پاس عوام کو دینے کے لیے معاشی آپشن کم ہیں ۔ اس لیے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ حکومت پر سیاسی دباؤ بھی بڑھ رہا ہے جس کی وجہ ملک کے معاشی حالات بھی ہیں کیونکہ جب لوگ معاشی حالات سے تنگ ہوں گے تو ان کا غصہ حکومت پر ہی ہوتا ہے ۔وزیر اعظم شہباز شریف اور پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز عوامی معاملات میں کافی متحرک ہیں اور ان کی پوری کوشش ہے کہ عوام کوریلیف دیا جائے ۔پنجاب کی وزیراعلیٰ عوام میں نظر آتی ہیں اور انتظامیہ پر ان کی کڑ ی نگرانی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ دیگر وزرائے اعلیٰ کے مقابلے میں پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز زیادہ متحرک ہیں مگر ان کے مخالفین ان پر شدید تنقید کرتے ہیں اور ان کی کاکرردگی کو سوشل میڈیا مہم کے طور پر دیکھتے ہیں ، لیکن مریم نواز اپنے سیاسی مخالفین کی تنقید کے باوجود کام کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور کئی معاملات میں انہیں کامیابی بھی ملی ہے ۔لیکن عوام کے معاشی حالات چونکہ بہت خراب ہیں ؛چنانچہ ایسی صورتحال میں عوام کو مطمئن کرنا اور انہیں کچھ دینا آسان کام نہیں ۔ مریم نواز کے سیاسی مخالفین کو بھی معلوم ہے کہ حالات برُے ہیں، اگر ان حالات میں مریم نواز کچھ کررہی ہیں تو اس سے ان کے لیے مستقبل کی سیاست میں مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ بہرحال مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان جو بڑی سرد جنگ پنجاب میں ہے اس میں حکومت پر یقینا اپنی کارکردگی دکھانے کا بڑا دباؤ ہوگا ۔ اسی دباؤ میں اگر حکومت لوگوں کے لیے کچھ کرسکی تو اس سے یقینی طور پر حکومتی ساکھ میں بہتری آئے گی اور مستقبل میں مسلم لیگ (ن) پر جو دباؤ ہے اس میں بھی کمی آ سکتی ہے ۔