محمد خالد اختر کھویا ہوا افق سے مکاتیب خضر تک
محمد خالد اختر اردو کے معروف لکھاری ہیں جنہیں وہی جانتے ہیں جو اردو ادب سے حقیقی معنوں میں پیار کرتے ہیں۔نوے کی دہائی میں جائیں تو بہاولپور کے سرکلر روڈ پہ ان کا بنگلہ تھا۔افسوس کہ وہاں اب پلازہ بن چکا ہے۔
اس کے ذمہ دار اہل بہاولپور ہی نہیں بلکہ پاکستان کے وہ بڑے ادبی ادارے بھی ہیں جو بھاری بھرکم گرانٹس کے باوجود ایسے ادیبوں کے ورثے کی حفاظت سے قاصر ہیں۔ محمد خالد اخترکی تصانیف میں ان کا ناول ’’چاکیواڑہ میں وصال‘‘ سرفہرست ہے جسے اس کے اسلوب کے باعث فیض احمد فیض نے اردو کا اہم ترین ناول قرار دیا تھا۔اُن کی دیگر تصانیف میں کھویا ہوا اُفق، مکاتیب خضر، چچا عبدالباقی، لالٹین ،دوسری کہانی اور یاترا کے نام شامل ہیں۔ ’’بیس سو گیارہ‘‘ کہیں 1950ء کے عشرے میں لکھی گئی۔ یہ ان کا پہلا شائع شدہ ناول تھا۔
’’کھویا ہوا اُفق‘‘محمد خالد اختر کے افسانوں، طنزیہ خاکوں اور سفر ناموں کا انتخاب ہے جنہیں انہوں نے وقتاً زندگی کے پچھلے انیس بیس سال کے عرصے میں لکھا۔ بقول محمدخالد اختر ’’جب میں نے انہیں لکھا تھا تو مجھے قعطاً یہ خیال نہ تھا کہ وہ کبھی ایک کتاب کی شکل میں چھپیں گے۔ اس لئے میں نے ان کو محفوظ رکھنے کی کوشش نہ کی۔ مجھے کوئی دعویٰ نہیں کہ وہ ادبی شاہکار ہیں یا ان میں بیان یا اسلوب کی کوئی خاص خوبی ہے۔ میں نے انہیں اپنے اکیلے اداس لمحوں میں خود کو بہلانے کیلئے لکھا تھا اور جب وہ مدیروں کی فراخدلی کی بدولت ماہناموں میں چھپے تو مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ چند پڑھنے والوں کو ان کا انداز چھا لگا۔اب انہیں دوبارہ پڑھتے ہوئے میں دیکھتا ہوں کہ وہ کچھ کچھ، تاریخی، رنگ سے آلودہ ہو چکے ہیں۔ ایسے (Essay)کی فارم جو انگلستان میں ولیم ہینرلٹ، چارلس لیمب اور سٹیونسن کے زمانوں میں بڑی مقبول تھی اور جسے بیسویں صدی کے اوائل میں چیسٹرٹن، بیلاک اور رابرٹ لِنڈ جیسے استادوں نے اپنے خیالات کے اظہار کیلئے بڑی خوبی سے استعمال کیا، اب وہاں مر چکی ہے۔ ہماری زبان میں اس صنف کو پھلنے پھولنے کاموقع ہی نہیں ملا اور اس نسل کے نوجوانوں کیلئے اس میں اب کوئی کشش نہیں۔ پلک جھپکنے میں ہم خلائی دور میں داخل ہو گئے ہیں اور ایک خوفناک رفتار سے ایک نئے یوٹوپیا، یا ایک نئی بربریت کی طرف بھاگے جا رہے ہیں۔ آئین فلیمنگ جیسے مصنفوں کی مقبولیت، جس کے ناول جنس اور مار دھاڑ کے واقعات کے سستے مرکب ہوتے ہیں، اس دور کا ایک سمبل ہے،سنجیدہ کلاسیکی ادب کا دور (یا جسے ہم ادب سمجھتے آئے تھے) اب ختم ہو رہا ہے۔ ہمارے بچے اب کامکس پر پل رہے ہیں۔ خواہ ہم اس کا ماتم کریں یا نہ کریں، یہ حقیقت ہے کہ فلم اور ٹیلیویژن کے میڈیم انسانوں کے افکار و اشغال میں ایک ناگزیر انقلاب لے آئے ہیں اور انجام ابھی مستقبل کے دھندلکوں میں ہے، بڑے کثیر التعداد چھپنے والے اخبارات ادب کی جگہ لے رہے ہیں۔’’ لائف‘‘ اور ’’ٹائم‘‘ جیسے میگزینوں کو دیکھتے ہوئے یہ بعید از قیاس نہیں معلوم ہوتا کہ آئندہ ادب افسانہ لکھنے والی مشینوں پر تیار ہونے لگے ایک ڈھلے ہوئے خاص اسلوب میں وہ دنیا جو آلڈس ہکسلے اور جارج آر ویل نے اپنے تخیلی ناولوں بُر یونیو ورلڈ، اورنائینٹین ایٹی فور، میں تصور کی ہے اگر ابھی آئی نہیں تو آنے والی ہے‘‘۔
اس انتخاب میں شامل کہانی’’ کھویا ہوا اُفق‘‘ محمد خالد اخترکی اوّلین چیزوں میں سے ہے۔ جسے انہوں نے غالباً 1943ء میں اسے ہر دوار کی ایک سرائے میں لکھا تھا اور اپنی پہلی شکل میں اس کی طوالت موجودہ صورت سے دگنی تھی۔ سالوں بعد 1953ء یا 1954ء میں سعادت حسن منٹو نے اسے ’’سویرا‘‘ میں سفاکانہ کتربیونت کے بعد چھاپا۔ اس نے اس میں تبدیلیاں نہ کیں، صرف کئی حصے حذف کر دیئے جو اس کے نزدیک کہانی کے تاثر کی وحدت کو زائل کرتے تھے۔ استاد کے تھوڑے سے ٹچ، سے یہ کہانی واقعی بہت بہتر اور پہلے سے خوبصورت ہو گئی کیونکہ عظمت ، سب کچھ کہہ دینے میں نہیں، بلکہ کچھ ان کہا چھوڑ دینے میں ہے ،یہ اس مجموعے میں سب سے اچھی اور مکمل شے ہے۔
’’ڈیپلو سے نوں کوٹ تک‘‘ ایک سفری روئیداد ہے یہ 1945ء میں لکھی گئی جب محمد خالد اختر تھرپار کرکے اس دوردراز صحرائی ریتلے گائوں میں سکول ماسٹر تھے۔ ان دنوں ان کے دوست احمد ندیم قاسمی ’’ادب لطیف‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ خالد اخترنے یہ روئیداد انہیں بھیجی اور خواہش ظاہر کی کہ یہ دونوں مشترکہ ناموں سے چھپے، ندیم نے اس غلط سلط (بقول خالد اختر)لکھی ہوئی چیز کو سنوارا اور اس میں کئی حسین ’ٹچ‘ دیئے، جب یہ شائع ہوئی تو وہ خوشی اور فخر سے پھولے نہ سمائے۔ کہتے ہیںیہ میری چیز تھی جو کسی اردو رسالے میں چھپی تھی۔ میں نے اپنی اس مطبوعہ چیز کو بیسیویں بار پڑھا اور اپنے نام کو چھپا ہوا دیکھ دیکھ کر میری طبیعت نہ بھرتی تھی۔
’’ ایک دہقانی یونیورسٹی‘‘ بہاولپور کے ایک گائوں میں لکھی گئی اور ساری کی ساری ایک نشست میں! محمدخالد اختر کہتے ہیںیہ واحد چیز ہے جو میرے تخیل نے مجھ سے لکھوائی۔ میں نے اسے نہیں لکھا، یہ ’’سویرا‘‘ میں حنیف رامے نے چھاپی’’ مقیاس المحبت‘‘ جو میری چاکیواڑہ میں اکیلی آوارہ گردیوں کا حاصل ہے، بھی ’’سویرا‘‘ میں چھپی، اور منٹو کی رائے اس کے بارے میں اونچی اور حوصلہ افزا تھی۔ باقی مضامین میں سے بیشتر’’افکار‘‘ میں چھپے۔ ایک دو ’’ ادب لطیف‘‘ اور ’’داستان گو‘‘ میں انہیں میں نے دل بہلاوے کیلئے لکھا اور میں امید کرتا ہوں کہ پڑھنے والے کو ان میں کچھ خوشی ملے گی۔
اپنے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ میں ایک قدرتی لکھنے والا نہیں ہوں، میں بڑی دقت سے اٹک اٹک کر لکھتا ہوں، جیسے لکنت زدہ آدمی ہکلا ہکلا کے باتیں کرتا ہے۔ لکھنا میرے لئے بڑا جان جوکھوں اور خون پسینہ بہانے کا کام ہے۔ حقیقتاً میں انگریزی ادب کا کیڑا ہوں جس کیلئے میری بھوک کی سیری نہیں ہو پاتی۔ کتابوں کی خوشبو میرے دماغ میں نشیلی شراب کی طرح چڑھتی ہے اور میرا خوشی کا تصور ایک کتابوں کی دکان یا ایک لائبریری کے اندر جانے اور کتابوں کو سونگھنے، چھونے اور ان کے ورق الٹنے(یا ان کو چکھنے) سے پورا ہوتا ہے۔ مجھے کوئی اچھی کتاب دے دی جائے کوئی سیٹونین رومانس، آپ بیتی، یا سفری سرگزشت! میں دنیا سے اور کچھ نہیں چاہوں گا اور مکمل طور پر خوش اور لگن رہوں گا میرا لکھنا محض اتفاق ہے اور سالوں کی انگریزی کتابوں میں ڈوبے رہنے کی لت سے میری یہ عادت پک چکی ہے کہ میں انگریزی میں سوچتا ہوں اور اردو میں لکھتے ہوئے مجھے انگریزی میں سوچے ہوئے جملوں کا ایک طرح سے ترجمہ کرنا پڑتا ہے بعض وقت بالکل لفظ بلفظ! اردو زبان مجھے ابھی تک نہیں آئی۔ شاید آتے آتے آ جائے!۔
خالد اختر کہتے ہیںاس انتخاب میں، میں نے دو’ ’عبدالباقی‘ کہانیاں بھی شامل کر دی ہیں۔ میں نے بہت سی عبدالباقی کہانیاں لکھی ہیں اور اس کردار نے (میں یقین کرتا ہوں) بعض پڑھنے والوں کے دل میں تھوڑی بہت سی جگہ حاصل کر لی ہے۔ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ آیا چچا عبدالباقی کا فی الواقع وجود ہے یا وہ میرے تخیل کی پیداوار ہے۔ عبدالباقی زیادہ تر میری اپنی تخلیق ہے۔ میں نے اسے اپنی جان پہچان کے کسی خاص شخص پر نہیں ڈھالا۔ خود مجھ میں بہت کچھ عبدالباقی، موجود ہے۔
محمد خالد اختر کے ’’مکاتیب خضر‘‘ کی بات کریں تویہ وہ مکاتیب ہیں جو محمد خالد اختر نے مرزا اسد اللہ خاں غالب کے طرز خاص میں لکھے اور جو پہلے کچھ عرصہ کراچی کے ماہنامہ افکار میں ’’مکاتیب خضر‘‘ کے عنوان سے اور بعد ازاں لاہور کے مجلہ فنون میں‘‘ عودِ پاک‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ خطوط کی صورت میں طنزو مزاح کا یہ نیا اور اچھوتا انداز اردو ادب کے قارئین کو بہت اچھا لگا، اور مکاتیب کا یہ سلسلہ بے حد مقبول ہوا۔ اس مقبولیت کے پیش نظر محمد خالد اختر نے چند ایک مکاتیب اسی انداز کے ملک کے دوسرے ادبی رسالوں، سویرا، پاکستانی ادب اور معاصر کے لئے بھی لکھے جو ان میں شائع ہو کر قارئین کی تفریح طبع کا باعث ہوئے۔
ان کے مکاتیب تعداد میں اکاون ہیں، اور ان کا زمانہ 1971ء سے 1980ء تک تقریباً ایک دہائی پر محیط ہے، جن اصحاب کے نام یہ مکاتیب لکھے گئے ان کا تعلق ادب، صحافت، سیاست، ثقافت، دین و مذہب اور تاریخ سے ہے۔ کچھ خطوط بعض گمنام اشخاص اور گھر کے ملازمین کے نام بھی لکھے گئے، انہی میں سے ایک خط مکتوب نگار کا اپنی بیٹی کیلئے بھی ہے۔ ان خطوط میں مکتوب الیہ کی شخصیت اور کردار کی مناسبت سے ایک خوش طبع چھیڑ چھاڑ بھی ہے، گلہ و شکوہ بھی ہے، طنزبھی ہے، استہزا خفی بھی ہے اور عہد کے بدلتے ہوئے سیاسی، سماجی اور ثقافتی حالات پر رائے زنی بھی! اور ان ساری باتوں کی تہہ میں وہ، سچ، ہے جو خالد اختر ہمیشہ بولنا چاہتے تھے لیکن اس کے لئے شاید مناسب موقع یا مناسب پیرایۂ اظہار نہیں مل پا رہا تھا۔ بقول محمد کاظم یہ پیرایہ اظہار اسے غالب کے اس طرز مکتوب نگاری، نے مہیا کیا جو اپنے بے ساختہ پن، شوخی اور ظرافت، اور مکتوب الیہ کے ساتھ بے تکلفانہ گفتگو کے انداز کی وجہ سے اردو ادب میں ایک کلاسیک کا درجہ اختیار کر گیا ہے۔ محمد خالد اخترنے غالب کے اس اسلوب نامہ نگاری کا جس کامیابی سے تبتع کیا ہے وہ پیروڈی کے فن میں اس کی دستگاہ کا ایک نادر نمونہ ہے۔ خاص طور پر جب ہم یہ امر نگاہ میں رکھیں کہ خالد کا اوڑھنا بچھونا ہمیشہ سے انگریزی ادب ہی رہا ہے۔
ایک جگہ وہ خود لکھتے ہیں!
’’میں ایک قدرتی لکھنے والا نہیں ہوں، میں بڑی دقت سے اٹک اٹک کر لکھتا ہوں، جیسے لکنت زدہ آدمی ہکلا ہکلا کے باتیں کرتا ہے۔ لکھنا میرے لئے بڑا جان جوکھوں اور خون پسینہ بہانے کا کام ہے۔ حقیقتاً میں انگریزی ادب کا کیڑا ہوں جس کے لئے میری بھوک کی سیری نہیں ہو پاتی۔ کتابوں کی خوشبو میرے دماغ میں نشیلی شراب کی طرح چڑھتی ہے اور میرا خوشی کا تصور ایک کتابوں کی دکان یا ایک لائبریری کے اندر جانے اور کتابوں کو سونگھنے، چھونے اور ان کے ورق الٹنے(یا ان کو چکھنے) سے پورا ہوتا ہے‘‘۔