حکومتی معاملات میں تعطل۔۔وجوہات؟
اب شایدیہ کہنا غلط نہ ہو کہ خیبرپختونخوا حکومت آٹو موڈ پرچل رہی ہے ۔وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور دونوں دھڑوں کو یقین دہانی کروانے میں مصروف ہیں کہ وہ ان کیلئے انتہائی اہم ہیں ۔ ایک طرف ان کی اپنی جماعت اور بانی چیئرمین ہیں اور دوسری طرف مقتدرہ ۔
اسی کوشش میں وہ زیادہ تر اسلام آباد پائے جاتے ہیں۔ پارٹی کا اجلاس ہو یا صوبائی کابینہ ،وزرا ،ارکانِ اسمبلی ،انتظامی سیکرٹریز اور تمام افسران کو سرکاری کاموں کیلئے اسلام آباد ہی جانا پڑتا ہے۔ وزیراعلیٰ کا اسلام آباد میں پڑاؤ طویل ہوتا جارہا ہے مگر صوبائی دارالحکومت سے اس طویل غیر حاضری کا صوبے کو بہت نقصان ہورہا ہے ۔صورتحال یہ ہے کہ وادی تیراہ میں پاک فوج ایک بڑے آپریشن میں مصروف ہے ،سکیورٹی فورسزکی کوشش ہے کہ دہشت گردوں کو پہاڑوں کے پار افغانستان کی طرف دھکیل دیا جائے۔یہ ایک مشکل اور جان جوکھوں والا آپریشن ہے مگر ان علاقوں کے متاثرین کوکی خیل قبائل پشاور میں دھرنا دیئے بیٹھے ہیں اور علاقے میں واپس جانے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ان متاثرین کو دھرنادیئے کئی ہفتے ہونے والے ہیں لیکن حکومت کی آنکھوں سے یہ اوجھل ہے اور سکیورٹی فورسز، جن کا کام دہشت گردوں کا صفایا کرنا ہے ، متاثرین کو مطمئن کرنے کا کام بھی انہیں پر چھوڑدیاگیا ہے ۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ صوبائی حکومت متاثرہ قبائل کو مطمئن کرے اور انہیں آپریشن کے خاتمے تک باعزت طریقے سے رکھنے کیلئے اقدامات کئے جائیں، لیکن ایسا ہو نہیںرہا ۔حکومتی نمائندوں کی جانب سے چند ملاقاتیں تو کی گئی ہیں لیکن اس کے بعد معاملات کو جوں کا توں چھوڑدیاگیا۔ صوبہ دہشت گردی کا شکارہے ، آئے روز حملے ہورہے ہیں مگر وزیراعلیٰ اسلام آباد میں براجمان ہیں۔ خیبر پختونخوا میں یہ پی ٹی آئی کی مسلسل تیسری حکومت ہے ؛چنانچہ یہ سوال بنتا ہے کہ حکمران جماعت نے صوبے میں پولیس کی تربیت ،اسلحے کی فراہمی اور دیگرمراعات فراہم کرنے کیلئے کیااقدامات کئے؟اب جبکہ دہشت گردی ایک بارپھر عروج پر ہے صوبائی حکومت ان معاملات سے صرفِ نظرکررہی ہے۔ پشاور اس سے قبل بھی نظرانداز تھا اور اب بھی صورتحال ابتر ہے ۔صوبائی سیکرٹریٹ میں وزرا کے دفاتر بند ہوتے ہیں، لوگوں کے کام ٹھپ ہیں اور انہیں اپنی فائلوں پر دستخط کروانے کیلئے وزرا کے پاس دیگر اضلاع تک جاناپڑتا ہے۔دوسری جانب پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات بڑھ گئے ہیں اور معاملات سلجھنے کی طرف نہیں آرہے۔ اندرونی اختلافات اور پی ٹی آئی کے مختلف دھڑوں نے پیچیدہ صورت اختیار کرلی ہے ،مگروزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور جو کہ پارٹی کے صوبائی صدر بھی ہیں، وہ اس صورتحال کا فائدہ اٹھارہے ہیں ۔وہ کسی کو کوئی فائدہ دے سکیں یا نہیں مگر خود ضرور فائدے میں ہیں اور فی الوقت انہیں پارٹی میں کوئی چیلنج کرنے والا نہیں ۔علی امین گنڈاپور صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ پارٹی پر بھی مضبوط گرفت رکھنے میں کامیاب ہیں ۔شنید ہے کہ کابینہ سے مزید دو وزرا کو ہٹایا جارہا ہے ۔ذرائع کے مطابق ایک وزیر کے خلاف تو کرپشن کی باقاعدہ انکوائری شروع کردی گئی ہے اور الزامات ثابت ہوگئے تو کابینہ سے اخراج کے ساتھ گرفتاری بھی عمل میں آ سکتی ہے۔ فی الوقت وزیراعلیٰ پارٹی اور اسمبلی میں کسی قسم کی بغاوت کے خدشے کو ختم کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ ایسے میں آٹھ ستمبر کو پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد میں جلسے کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل ترنول میں پی ٹی آئی کا جلسہ منسوخ ہوگیاتھا اور جلسہ منسوخ ہونے پر پارٹی کے اندر سے آوازیں اٹھی تھیں اور وزرا کو ورکرزکی جانب سے ردعمل کا سامنا کرناپڑا تھا۔اب ایک بارپھر وہی مرحلہ درپیش ہے۔ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ ایک بارپھر پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔تاہم وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اور ان کی پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے اس بار ہرصورت اسلام آبا پہنچنے کا عندیہ دیاگیا ہے مگر ایسا ہونا ممکن نہیں لگ رہا۔اگر جلسہ منسوخ ہوا تو اس بات کا امکان ہے کہ یہ خیبر پختونخوا کی حدود کے اندر ہی کیاجائے۔
پی ٹی آئی قیادت سرتوڑ کوشش کررہی ہے کہ اس بارجلسہ منسوخ نہ ہو کیونکہ تیسری بار جلسے کی منسوخی کی صورت میں پارٹی قیادت کو کارکنوں کے ردعمل کا سامنا کرناپڑسکتا ہے ۔اس بارپہلے کی نسبت معاملہ بھی ذرامختلف ہے۔ پارٹی کے اختلافات بھی اثرانداز ہوں گے ۔عاطف خان اورشکیل خان سمیت دیگرہم خیالوں کی جلسے میں شرکت یا عدم شرکت بھی ایک اہم سوالیہ نشان ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے مخالف رہنماجلسے میں شرکت تو کریں گے لیکن شاید اتنی بھرپور نہیں جتنی ماضی میں ہوتی تھی۔ پارٹی کی ضلعی اور ریجنل قیادت بھی بدل دی گئی ہے۔ نئی قیادت پر اس جلسے کے حوالے سے دباؤ ہے۔یہ جلسہ نہ صرف پاکستان تحریک انصاف کی قیادت بلکہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کیلئے بھی ایک ٹیسٹ کیس ہے۔گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا تھاکہ پی ٹی آئی کو اسلام آ باد میں آئندہ بھی جلسہ کرنے کی اجازت نہیں ملے گی۔اب اگر یہ اجازت نہیں ملتی تو کیا پی ٹی آئی کی جانب سے مزاحمت کی جائے گی اور زبردستی جلسہ منعقد کیاجائے گا؟یہ اتنا آسان نہیں ہو گا ۔
ذرائع کے مطابق ان امکانات کو مدنظررکھتے ہوئے پارٹی قیادت خاص کر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور ارکان اسمبلی سے رابطے کررہے ہیں ۔ایک بارپھر ارکان اسمبلی کو ٹاسک دیاجارہا ہے۔ اگست میں ملتوی کئے جانے والے جلسے کیلئے خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی نے کافی محنت کی تھی اورخاصے وسائل استعمال کئے گئے تھے تاہم جلسہ نہ ہوا جس پر کارکنوں میں مایوسی پیدا ہوئی۔وزیراعلیٰ کی جانب سے اب ناراض رہنماؤں کو منانے کی کوشش کی جارہی ہے تاہم ایک بات ضرور ہے کہ نومئی کے بعد پی ٹی آئی کے جلسوں میں عوام کی کمی واقع ہوئی ہے۔ حکمران جماعت کی جانب سے صوبے میں متعدد جلسے کئے گئے لیکن یہ متاثر کن نہیں رہے۔ کارکنوں کی جانب سے اب یہ سوال بھی کئے جارہے ہیں کہ جماعت کی قیادت بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے سنجیدہ ہے یا نہیں؟وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے اسلام آباد میں پڑاؤ کے باعث کارکنوں اور وزرا کو بھی ان سے ملاقات میں مشکلات پیش آتی ہیں جس سے نہ صرف پارٹی معاملات رکے ہوئے ہیں بلکہ حکومتی معاملات بھی تعطل کاشکارہوجاتے ہیں۔