حیثیت کے مطابق رہنا بھی اللہ کی شکرگزاری!

تحریر : مولانا محمد اکرم اعوان


’’اور ہر حال میں اپنے رب کے احسان کا ذکر کیا کرو‘‘(الضحیٰ:11) ’’ اور اگر اللہ کی نعمتیں شمار کرنے لگو تو انہیں شمار نہ کر سکو گے، بیشک انسان بڑا بے انصاف اور ناشکرا ہے‘‘ (القرآن)

جو لوگ خود محنت سے نہیں کماتے اور لوگوں کے مال نذرانے کے طور پر وصول کر کے عیش کرتے ہیں وہ لوگوں کو ہر وعظ میں بتاتے ہیں کہ دنیا بہت خراب ہے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ اگر یہ خراب ہے تو وہ خود کیوں بہترین رہائش، بہترین سواری، بہترین لباس اور اعلیٰ طرز زندگی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔میں نے خود محنت کر کے اپنی حیثیت کے مطابق وسائل زندگی اختیار کر رکھے ہیں۔ میرے پاس دنیا کی بہترین گاڑی ہے اس میں بیٹھ کر لطف آتا ہے تو پھر ہم کیوں کہیں کہ دنیا خراب چیز ہے۔ 

اللہ نے دنیا کی نعمتیں حلال رکھی ہیں لیکن شرط عائد کر دی ہے کہ حلال کمائو، محنت سے کمائو، دیانت داری سے کمائو، پھر اچھا پہنو اچھا کھائو اچھی گاڑی استعمال کرو تو یہ بھی اللہ کا شکر ادا کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ربانی ہے ’’وَأَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّث‘‘ (الضحیٰ:11)، ترجمہ : ’’اور ہر حال میں اپنے رب کے احسان کا ذکر کیا کرو‘‘۔ 

بندے کے اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے، آنے جانے سے پتہ چلے کہ اس پر اللہ کا کتنا احسان ہے۔ دنیا کی نعمتوں کو اللہ کا احسان سمجھ کر استعمال کرنا اور وقت مقررہ پر چھوڑ جانے کے لئے تیار رہنا دنیاداری نہیں ہے۔ ہمارے پاس الحمدللہ تمام نعمتیں ہیں ہمیں نہ گاڑی کی فکر ہے نہ جائیداد کی۔ اسی لمحے موت آ جائے اسی لمحے تیار ہیں۔ الحمدللہ اس لئے کہ اس نے یہ یقین بخشا ہے کہ مال اس کا ہے اس نے ہمیں عطا کیا ہے۔ اس کی مہربانی سے جب وقت پورا ہو گا وہ یہی سب کچھ کسی اور کو دے دے گا۔ ہماری یہ ملکیت ہی نہیں ہمیں تو مالک نے دنیا میں عارضی طور پر استعمال کیلئے دیا ہوا ہے۔

یہ احساس، یہ یقین تو حضورنبی کریم ﷺ کے ساتھ تعلق سے ملتا ہے اور یہ نہ ہو تو بندہ لذت کام ودہن میں ہی محو ہونا مقصد حیات بنا لیتا ہے اور اس راستے پر چلتے ہوئے اللہ اور اللہ کے دین سے دوسروں کو روکتا ہے۔ یہی کام یہود ونصاریٰ نے کیا جس پر اللہ کریم نے فرمایا کہ ’’خود کو اہل کتاب کہلوا کر اپنے کردار و عمل سے لوگوں کو حق سے روکتے ہو‘‘۔

قرآن حکیم میں انسانوں کو چار مختلف طریقوں سے مخاطب کیا گیا ہے۔ ایک ’’یا اہل الکتاب‘‘!جو پچھلی آیات میں گزرا ایک عمومی خطاب ہے۔ ’’یا یھا الناس‘‘ (اے اولاد آدم!)، ایک خطاب براہ راست کفار سے ہے ’’یا ایھا الکفرون‘‘۔ اس خطاب کے ساتھ ہی قرآن حکیم میں غضب الٰہی کی بجلیاں کڑکتی ہیں اور چوتھا خطاب ہے’’ یا ایھا الذین آمنو‘‘( اے ایمان والو! یہ اس کا لفظی ترجمہ ہے) لیکن یہ بہت پردرد، گہری محبت، انتہائی شفقت اور انتہائی لذت سے لبریز خطاب ہے۔ جیسے کسی کا کوئی محبوب ہو اور اتنا عزیز ہو کہ اس کے بغیر ایک پل نہ گزرے اسے دیکھے بغیر اس کے پاس زندگی کا کوئی تصور نہ ہو اور وہ محبوب اسے پیار سے پکارے تو اس پر کیا کیفیت ہو گی؟ یہ تو ایک دنیوی محبوب کی بات ہے لیکن جب کسی کا رشتہء ایمان اللہ سے ہو وہ مشت غبار ہو، عام آدمی ہو جس کی دنیا میں کوئی وقعت نہ ہو لوگ اسے کوئی اہمیت دینے کو تیار نہ ہوں، سارا دن دھکے کھا کر مزدوری میں وقت کاٹتا ہو اور پھر خالق کائنات اسے پکارے، اللہ کریم کی ذات پکارے، اللہ اسے اپنا کہہ کر پکارے تو کتنی لذت کتنی کیفیت اس کے دل پر وارد ہوتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے دل میں اللہ کی عظمت ہو۔ 

دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو

عجب، چیز ہے لذتِ آشنائی۔ آشنائی ہو اور رب العالمین کے ساتھ ہو تو اس لذت کا کیا کہنا۔ جب رب العالمین بندے سے کہے۔ میرے بندو!مجھ سے رشتہ ایمان استوار کرنے والو!میری رضا کے طالبو! میرے چاہنے والو!تو کیا لذتِ ایمان ہے، لہٰذا گر ’’یا ایھا الذین آمنوا‘‘ کا محاوراتی ترجمہ کیا جائے کہ ’’اے میرے چاہنے والو‘‘ تو یہ ترجمہ درست ہے اور یہی فرمایا اس آیت میں کہ اے میرے چاہنے والو!میرے نبی ﷺ  کا کلمہ پڑھنے والو!محمد رسول اللہ ﷺ سے محبت کا دعویٰ کرنے والو!  میری کتاب پر ایمان رکھنے والو!یوم آخرت کا انتظار کرنے والو!اے وہ لوگو!جنہیں یہ انتظار ہے کہ کب میدان حشر ہو گا اور کب وہ جمال باری کو دیکھیں گے۔

دنیا میں لوگ طرح طرح کے خوف میں مبتلا نظر آتے ہیں کسی کو موت سے ڈر آتا ہے کوئی حشر سے ڈر رہا ہے لیکن جن کے دل میں الفت پیغمبر ﷺ  ہے جن کے دل میں محبت الٰہی ہے، عشق رسول ﷺ  ہے وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ کب حشر قائم ہو اور وہ اللہ کے دیدار کی نعمت پائیں۔اللہ کے چاہنے والوں سے آپﷺ  نے فرمایا کہ اللہ کے پیارے بندے اللہ کو میدان حشر میں یوں روبرو دیکھیں گے جس طرح دنیا میں چاند کو روبرو دیکھتے ہیں اور اس میں مرد وعورت کی تخصیص نہیں ہے۔ عورت اور مرد کی ذمہ داریوں میں فرق ہے جو اب دہی میں حساب کتاب میں کوئی فرق نہیں۔ عذاب و ثواب میں کوئی فرق نہیں۔ دیدار باری میں کوئی فرق نہیں جس طرح کلام الٰہی اور دیدار باری سے اللہ کے مقرب مرد سرفراز ہون گے، اسی طرح خواتین بھی بہرہ مند ہوں گی۔کیا خوش نصیب ہوں گے اہل ایمان کہ قبروں سے اٹھیں گے تو فرشتے ان کی ناز برداریاں کریں گے۔ حضور ﷺ کے لواء الحمد کے سائے تلے جگہ ملے گی۔ اللہ کریم خود عدل فرما رہے ہوں گے اور جمال باری نصیب ہو رہا ہو گا۔ یہ ہے تعریف اہل ایمان کی۔ اور خطاب ہو رہا ہے اہل ایمان سے کہ یہود و نصاریٰ کی بات پر مت جانا۔ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 34میں ارشاد ربانی ہے ’’اور جو چیز تم نے اس سے مانگی اس نے تمہیں دی، اور اگر اللہ کی نعمتیں شمار کرنے لگو تو انہیں شمار نہ کر سکو گے، بے شک انسان بڑا بے انصاف اور ناشکرا ہے‘‘۔

بیوی کو لفظ حرام کہا ہو تو کیا حکم ہے ؟

سوال :میں نے لڑائی کے دوران غصے میں اپنی بیوی کوکہا:’’تم مجھ پرحرام ہو‘‘ میں نے یہ الفاظ ایک مرتبہ کہے ہیں جبکہ بیوی کاکہناہے کہ 2مرتبہ الفاظ کہے ہیں، اس موقع پرصرف میراایک چچازاد موجود تھا۔واضح رہے کہ بیوی ابھی میرے گھرمیں ہی ہے ۔ ہمارے لئے اب میاں بیوی کی حیثیت سے ساتھ رہناجائزہے یانہیں؟(اقبال حسین )

جواب:صورت مسئولہ میں آپ کی بیوی پرایک طلاق بائن واقع ہوچکی ہے نکاح ختم ہوگیااب رجوع جائزنہیں تاہم اگردونوں دوبارہ ساتھ رہنے پر رضا مند ہوں تو2گواہوں کی موجودگی میںاز سرنو ایجاب وقبول کرکے نئے مہرپرنیانکاح کر کے اکٹھے رہ سکتے ہیں ،نیز تجدیدنکاح کی صورت میں آئندہ آپ کوصرف 2 طلاقوں کااختیارہوگااسلئے احتیاط لازم ہے۔

واضح رہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جبکہ اس سے قبل یابعدکبھی کوئی زبانی یاتحریری طلاق نہ دی ہوبصورت دیگریہ حکم نہیں ہوگاایسی صورت میں تفصیل لکھ کرمسئلہ دوبارہ معلوم کرلیاجائے۔

فی الدرالمختار(3؍306)قال لامرأتہ انت علی حرام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یفتی بأنہ طلاق بائن وان لم ینوہ لغلبۃ العرف۔وفی الشامیۃ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔ولایردانت علی حرام علی المفتی بہ من عدم توقفہ علی النیۃ مع انہ لایلحق البائن ولایلحقہ البائن لکونہ بائناًلماان عدم توقفہ علی النیۃامرعرض لہ لابحسب اصل وضعہ۔

فی الھندیۃ(1؍348)واماحکمہ فوقوع الفرقۃ بانقضاء العدۃ فی الرجعی وبدونہ فی البائن کذافی فتح القدیر

مالدار عورت کے غریب شوہر کو زکوٰۃ دینا 

سوال :ہمارے رشتہ داروں میں ایک مالدار عورت کا نکاح ایسے شخص سے ہوا ہے جو نہایت غریب ہے اور اسکے پاس کچھ بھی نہیں ہے کیا اسے زکوٰۃ دے سکتے ہیں جبکہ اسکی بیوی تو بہت مالدار ہے اسکے پاس د10تولہ سے زیادہ سونا بھی ہے برائے کرم جواب دیں ۔(محمد ابراہیم )

جواب :اگر اس زیور اور پیسہ کی مالکہ اسکی بیوی ہے شوہر مالک نہیں تو ایسی صورت میں اسکے شوہر کو زکوٰۃ دینا جائز ہے ۔

نشے کی حالت میں بھی طلاق ہوجاتی ہے

سوال :آپ کیافرماتے ہیں اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک مرتبہ جب گھرآیا توبہت نشے میں تھاایسے نشے میں تھاکہ مجھے کچھ پتہ نہیں تھاکہ میں کیاکہتاہوں اورکیانہیں،اسی حالت میں گھروالوں سے میراجھگڑاہوا۔اس جھگڑے کے دوران میں نے غصے میں ایک بارطلاق کے الفاظ کہے لیکن مجھے کچھ پتہ نہ چلاکہ میں نے طلاق دی ہے،بعدمیں گھروالوں نے کہاکہ تونے توطلاق دی ہے ۔آپ سے گذارش ہے کہ تسلی بخش جواب دیں کہ طلاق ہوئی ہے یانہیں؟کیونکہ اس وقت میں شراب کے نشے میںمکمل مست تھا۔

وضاحت: ایک مرتبہ دئیے گئے شوہرکے الفاظ طلاق یہ تھے ’’میں طلاق دیتاہوں‘‘ اس وقت گھرمیں موجود میرے اور بیوی کے ایک بھائی ، ساس نے سنے ہیں۔

جواب :نشے کی حالت میں بھی شرعاًطلاق واقع ہوجاتی ہے لہٰذاصورت مسئولہ آپ نے جو ایک مرتبہ طلاق کا لفظ کہا اس سے آپکی بیوی  پر ایک طلاق رجعی واقع ہوچکی ہے جسکا حکم یہ ہے کہ اگر آپ رجوع کرنا چاہیں تو عدت(3ماہواریوں ) کے دوران رجوع کرکے دوبارہ حسب سابق میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں تاہم ایسی صورت میں آپکو آئندہ صرف 2طلاقوں کا اختیار ہوگا لہٰذا آئندہ طلاق کے معاملے میں احتیاط کرنا لازم ہے۔

پوتی کیلئے زیورات کی وصیت کرنا 

سوال: میری بیوی کاپچھلے سال دسمبرمیں انتقال ہوگیاتھامیراایک بیٹااور2بیٹیاں ہیں میری بیوی کواپنی ایک پوتی نبیحہ سے بہت پیار تھا جو ابھی تک غیرشادی شدہ ہے انہوں نے اپنے زیورات میں سے ایک مالااورایک چوڑی نبیحہ کے نام کردی تھی اوراس خواہش کا اظہار خاندان کے تمام ذمہ دارافرادکے سامنے کئی بار کیا تھا اوراکثرمجھے بھی کہتی تھیں۔سورہ نساء میں بھی ذکرہے کہ میت کی وصیت پہلے پوری کی جائے، اگر بقایا زیورات کی قیمت کاتعین کرکے شرعی وارثوں میں اس طرح تقسیم کردیاجائے توکیایہ عمل درست ہوگاکہ خاوند کا چوتھائی حصہ نکال کربقیہ ایک بیٹے اور2بیٹیوں میں ایک اوردوکی نسبت سے تقسیم کردیاجائے؟(جمیل انور)

جواب:مرحومہ کے تجہیزوتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد(اگرکسی نے اپنی طرف سے بطوراحسان وتبرع کئے ہوں تویہ اخراجات نکالنے کی ضرورت نہیں)اگران پرکوئی قرض ہوتواسے اداکرنے کے بعدانکے کل ترکہ کی ایک تہائی مال سے وصیت پوری کی جائیگی لہٰذااگرپوتی کیلئے جن چیزوں کی وصیت کی ہے وہ ایک تہائی سے زیادہ ہوں توصرف ایک تہائی انہیں ملے گا اس سے زیادہ نہیں دے سکتے ،،اس طرح ترتیب سے وصیت پوری کرنے کے بعدجومنقولہ وغیرمنقولہ مال باقی بچے1سے ؍16مساوی حصوں میں تقسیم کرکے ؍4 حصے مرحومہ کے شوہرکواور؍6حصے مرحومہ کے بیٹے کو اور ؍3 حصے مرحومہ کی ہرایک بیٹی کوملیں گے۔

واضح رہے کہ وصیت کایہ حکم اس وقت ہے جبکہ مرحومہ نے اپنی زندگی میں یہ زیورات پوتی کونہ دیئے ہوں بلکہ مرنے کے بعددینے کا کہا ہو بصورت دیگریہ حکم نہیں ہوگاایسی صورت میں تفصیل لکھ کرمسئلہ دوبارہ معلوم کرلیاجائے۔

دودھ کا رشتہ نہ ہو تو نکاح جائز ہے 

سوال : شاہ زیب اورمقدس بی بی چچازادہیں،شاہ زیب کے چندبھائی بہنوں نے مقدس بی بی کی والدہ کادودھ پیاہے اورمقدس بی بی کے چندبھائی بہنوں نے شاہ زیب کی والدہ کادودھ پیاہے ،جبکہ شاہ زیب نے مقدس بی بی کی والدہ کادودھ نہیں پیا اور مقدس بی بی نے شاہ زیب کی والدہ کا دودھ نہیں پیا۔ شاہ زیب کانکاح مقدس بی بی کے ساتھ ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ (ظاہرشاہ)

جواب :صورت مسئولہ میں شاہ زیب کیلئے مقدس بی بی کے ساتھ نکاح کرنا شرعاًجائزہے بشرطیکہ کوئی اوروجہ حرمت کی نہ ہو۔

رد المحتار (3؍217) و تحل اخت اخیہ رضاعاًیصح اتصالہ بالمضاف کأن یکون لہ اخ نسبی لہ اخت رضاعیۃ،وبالمضاف الیہ کأن یکون لاخیہ رضاعاًاخت نسباًوبھماوھوظاہر۔

٭…٭…٭

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

فردمعاشرہ اور اخلاق نبویﷺ

’’ (اے حبیب) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے آپﷺ لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں، اگر آپ سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ جاتے‘‘(الانعام:159)حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں، رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کیلئے نرم خو ہو‘‘(مشکوٰۃ المصابیح:3263)

سخاوت کا اعلیٰ ترین معیار

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو مجھے یہ بات پسند نہ ہو کہ اس پر تین راتیں گزریں اور اس کے بعد اس میں سے کچھ میرے پاس رہے مگر صرف اتنا کہ اس سے قرض ادا کر سکوں‘‘(بخاری شریف)۔ اخلاق فاضلہ میں سے سخاوت ہی وہ سب سے بڑی صفت ہے جس کے متعلق حضور اکرم ﷺنے خصوصیت سے توجہ دلائی ہے اور فرمایا: ’’خیرات سے انسان کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ جتنا وہ دیتا ہے اتنا ہی خدا اسے اور دے دیتا ہے‘‘۔

حضورﷺ کا عفوودرگزر

رسول اکرمﷺ نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپﷺ اس کا انتقام لیتے تھے (ابو داؤد)

مسائل اور ان کا حل

سجدہ کی تسبیحات چھوٹنے سے نماز پر اثر سوا ل :سجدہ میں اگر تسبیحات چھوٹ جائیں تو کیا اس سے نماز پر اثر پڑتا ہے اور سجدہ سہو کرنا ہو گا؟جواب : سجدہ کی تسبیحات سنت ہیں، ان کے پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے تاہم ان کے چھوٹ جانے کی صورت میں سجدہ سہو لازم نہیں۔

آئینی بحران سنگین ہو گیا؟

پاکستان میں بڑا آئینی بحران پیدا ہو چکا ہے جو آنے و الے دنوں میں سیاسی عدم استحکام میں اضافے کی خبر دے رہا ہے۔ کشیدگی صرف ریاست کے ستونوں کے درمیان ہی نہیں عدلیہ کے اندر بھی اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔

وائس چانسلرز کی تقرریوں کا عمل ایشو کیوں بنا؟

سپریم کورٹ کی طرف سے مخصوص نشستوں کے تفصیلی فیصلہ کے بعد عدالت عظمیٰ اور حکومت ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہیں اور خاص طور پر عدالت عظمیٰ کی جانب سے 8فروری کے انتخابات کو غیر منصفانہ قرار دینے اور الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکامی کے سوال پر حکومت میں پریشانی ہے ۔