سوء ادب
ہمارے پرندے (فاختہ ) فاختہ بین الاقوامی طور پر امن کی علامت سمجھی جاتی ہے لیکن امن اس کی اپنی قسمت میں نہیں ہے ۔ اس کی جان کا سب سے بڑا دشمن گوشت کا رسیا شکاری ہے جس کیلئے اُسے شاٹ گن کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ ائیر گن ہی کافی سمجھی جاتی ہے ۔اِس کا دوسرا المیہ اِس کے نر کا نام نہ ہونا ہے ،حالانکہ فاخت اِس کے نر کا قدرتی نام ہو سکتا تھا یعنی فاخت اور فاختہ کی جوڑی ۔
نسبتاً چھوٹے سائز کی فاختہ قُمری کہلاتی ہے جبکہ اِس کے نر کا بھی کوئی نام نہیں جو قُمرہ ہو سکتا تھا ۔تاہم پنجابی میں فاختہ کے نر کا نام موجود ہے جو خود گُھگّی کہلاتی ہے اور اِس کا نر گُھگّو کے نام سے مشہور ہے۔ تاہم گُھگّو گھوڑے کا گُھگّی یا فاختہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ نیز فاختہ کو کبوتر سے کم تر سمجھا جاتا ہے جو فاختہ کے مقابلے میں کافی کثیرالمقاصد پرندہ ہے یعنی نہ صرف اُس کی اُڑان کے مقابلے کروائے جاتے ہیں بلکہ اس سے پیغامِ رسانی اور جاسوسی کا بھی کام لیا جاتا ہے جبکہ فاختہ گوشت کی شکل میں صرف کھانے کے کام آتی ہے یا امن کی علامت ہونا اِس کا طُرہ ٔ امتیاز ہے۔ اگرچہ سارے پرندوں کا گوشت خُوردنی یعنی کھانے کے قابل نہیں ہوتا جو زیادہ نمائشی اور پالتو ہوتے ہیں مثلاً طوطا اور مَینا وغیرہ۔ ایک صاحب نے کسی دوسرے ملک سے سالگرہ کے تحفے کے طور پر اپنی دادی کو باتیں کرنے والی ایک پنجرہ بند مَینا بھیجی، کچھ دنوں کے بعد اُس نے فون کر کے پوچھا: ’’کہیے، دادی امّاں پرندہ کیسا رہا؟‘‘ ، ’’نہایت لذیذ!‘‘ بُڑھیا نے جواب دیا۔
شکاری کے بعد فاختہ کا ایک اور بڑا دشمن کوّا بھی ہے جو اُس کے انڈوں پر ہاتھ صاف کرتا ہے، آملیٹ بنا کر نہیں بلکہ کچّے ہی کھا جاتا ہے جس کے بچائو کی خاطر فاختہ کو کسی بہت گھنی شاخوں والے پیڑ پر اپنا گھونسلا بنانا پڑتا ہے، کوّا جس میں داخل نہ ہو سکے۔ فاختہ کو پنجرے میں رکھ کر پالا نہیں جا سکتا کیونکہ نہ تو یہ باتیں کر سکتی ہے اور نہ ہی کسی اور طریقے سے پالنے والوں یا اہلِ خانہ کا دل بہلا سکتی ہے بلکہ اسے پنجرے میں دیکھ دیکھ کر اہلِ خانہ کی رال ٹپکتی رہتی ہے اور اسے پنجرے میں رکھنا باقائدہ کُفرانِ نعمت سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک خوبصورت پرندہ ہے لیکن اِس مقصد کیلئے اسے حنوط کر کے بھی سجا کر کمرے میں رکھا جا سکتا ہے اور اِس طرح اِس کے گوشت سے بھی لُطف اندوز ہُوا جا سکتا ہے یعنی ایک پنتھ دو کاج۔ فاختہ کے برعکس بٹیر ایک ایسا لذیذ پرندہ ہے جسے حاصل کرنے کیلئے بندوق یا جال کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ اسے پکڑنے کیلئے اندھا ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ اُس کے پائوں تلے آکر ہی پکڑ ا جاتا ہے اور اندھا دوسرے روز اپنی ماں سے پوچھتا ہے:
’’ماں ! آج میں گوبر اکٹھا کرنے جائوں یا بٹیر پکڑنے کیلئے؟‘‘
اور جہاں تک فاختہ کے امن کی علامت ہونے کا تعلق ہے تو عالمی امن کی صورتِ حال روز اوّل ہی سے نہایت مخدوش چلی آر ہی ہے اور فاختہ بدستور امن کی علامت ہے!کر لو جو کرنا !
احوال و آثار
یہ تصنیفِ لطیف ممتاز شاعر ادیب اور نقاد مبین مرزا کی ہے جسے اکادمی بازیافت کراچی نے شائع کیا ہے انتساب برادرم یٰسین مرزا ،اُن کی دلہن اور بچوں مریم ابراہم اور عیسٰی کے نام ہے کتا ب کو مندرجہ ذیل ابوا ب میں تقسیم کیا گیا ہے : بے دیارم ،آدمی او ر شہر، زنجیری ،ایک اور پھانس ،منجمد لمحہ ،وقت اور لوگ ،جنگِ دَغل، سکات ،چوہا اورآدمی ،یار دلدار ،نشاندار اور شام کی دہلیز پر ۔ طرزِ بیان اِس قدر دل نشیں ہے کہ آ پ اسے فکشن کے طورپر بھی پڑھ سکتے ہیں ۔صرف سوانح عمری ہی نہیں اس میں پاکستان کی تاریخ کے کئی واقعات سے بھی دلچسپ انداز میں پردہ اُٹھایا گیا ہے ۔مصنف ماشاء اللہ ابھی جوان ہیں اور اُمید کی جاتی ہے کہ کچھ عرصہ ٹھہر کر وہ مزید احوال و آثار کی بھی سیر کروائیں گے کہ اپنے پیرایۂ اظہار ہی سے اُنہوں نے قاری کے اندر ہل من مزید کی ایک زبردست خواہش اور فرمائش پیدا کر دی ہے جس کا انہیں خود بھی احساس ہو گا۔کتاب کسی بھی دیباچہ و فلیپ کے بغیر ہے کہ اِس کی ضرورت ہی نہیں تھی گٹ اَپ نہایت عمدہ ،ضخامت224 صفحات اور قیمت 900روپے ہے ۔ادارہ بازیافت بجا طور پر اِس کی اشاعت پر مبارکباد کا مستحق ہے۔
جو ش صاحب
کچھ عرصہ پہلے نئی دہلی میں پاک و ہند مشاعرہ بڑی دھوم دھام سے حضرت جوش ملیح آبادی کی صدارت میںجاری تھا ۔آخر میں اُنہوں نے اپنا کلام سنایا تو اُس وقت ایک نو جوان شاعر بھی آ دھمکا جو انتظامیہ کا بہت چہیتا تھا۔ سو جوش صاحب سے ڈرتے ڈرتے اُسے پڑھوانے کی اجازت مانگی گئی جو اُنہوں بخوشی دے بھی دی ۔نوجوان کو غزل پیش کرنے کیلئے ڈائس پر آنے کی دعوت دی گئی تو وہ کسمساتے ہوئے بولا: میں کیا غزل سُنائوں ،جوش صاحب کے بعد میں کیا کہہ سکتاہوں،مجھے تو شرم آرہی ہے۔ جس پر جوش بولے: ’’برخوردار،اگر تم ہمارے بعد پیدا ہو سکتے ہو تو ہمارے بعد غز ل کیوں نہیں سُنا سکتے ‘‘
اور اب آخر میں یہ تازہ غزل !
یہ میں آباد ہو کر بھی جو ویرانی میں رہتا ہوں
اسی مشکل کے باعث اتنی آسانی میں رہتا ہوں
میں کیا تھا اور ہوتے ہوتے کیا ہو گیا ہوں آخر
سو کرتا کچھ نہیں ہوں اور حیرانی میں رہتا ہوں
پریشانی کے سب اسباب میں نے ختم کر ڈالے
اور اس کے بعد بھی کافی پریشانی میں رہتا ہوں
کوئی باغ ِ خیال و خواب ہے مصروفیت میری
کہ صبح و شام جس کی میں نگہبانی میں رہتا ہوں
یہ آنسو ہیں جو مجھ کو ہر طرح سے زندہ رکھتے ہیں
کہ جیسے کوئی مچھلی ہوں ،اسی پانی میں رہتا ہوں
میں جو کچھ کھو چکا ہوں اس کی پروا ہی نہیں مجھ کو
جو کھونے جا رہا ہوں اُس پشیمانی میں رہتا ہوں
مجھے حاصل ہوا کچھ بھی نہیں اس سے مگر اب بھی
جہاں تک ہو سکے تیری مدح خوانی میں رہتا ہوں
مجھے کچھ بھی نہیں معلوم تُو کیا ہے، کہاں پر ہے
مگر خوش بھی بہت اتنی سی نادانی میں رہتا ہوں
سمجھ میں کچھ نہیں آتا، ظفر، مجھ کو، مگر پھر بھی
کبھی الفاظ میں گُم ہوں، کبھی معنی میں رہتا ہوں
آج کا مقطع
ظفر ، روکا ہوا تھا زندگی نے
مرا ہوں اور جاری ہو گیا ہوں