بچے کب بولنا شروع کرتے ہیں؟

تحریر : ڈاکٹر بلقیس


بچے کے منہ سے جب پہلی مرتبہ اپنے باپ کیلئے با یا ابو اور ماں کیلئے ما ں کا لفظ نکلتا ہے تو انہیں قدرتی طورپر خوشی ہوتی ہے۔ اسی خوشی سے وہ گھر کے تمام افراد کو بتاتی ہے کہ آج منے نے بولنا شروع کر دیا ہے۔

 وہ بھی ماں اور باپ کو مبارکباد دیتے ہیں۔ ان الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بچہ دنیا میں سب سے پہلے اپنا تعلق براہ راست ماں اور باپ سے ظاہر کرتا ہے اور اس بنا پر وہ ماں کی گو د کو اپنی جائے پناہ سمجھتا ہے۔با پ اور ماں کیلئے جو آواز ا س کے منہ سے نکلی ہے اس سے اتنا ضرور معلوم ہوتاہے کہ خود قدرت اسے یہ بتا رہی ہے کہ دیکھو یہ تمہاری ماں ہے، یہ تمہارا باپ ہے جنہیں تمہاری پرورش اور تربیت کا کام سونپا گیا ہے۔ بعض بچے جب آٹھ یا نو ماہ کے ہوجاتے ہیں تو ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اپنی قوت گویائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں اکثر پہلے بولنا شروع کر دیتی ہیں ۔ڈیڑھ دو سال کی عمر میں بعض لڑکیوں کی زبان میں اس قدر روانی پیدا ہو جاتی ہے کہ سننے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔

رینگ کر اور لڑکھڑا کر چلنے و الے بچے کی قوت گویائی کو گھر کی اشیا سے بڑی مدد ملتی ہے۔ وہ جس چیز کو چھوتا ہے یا پکڑتا ہے، اپنی ماں سے اس کا نام دریافت کرتاہے اور جب ماں نام بتاتی ہے تو وہ مطمئن ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گھر کی چیزوں کے نام بارہا سنتا ہے تو وہ خود بھی نہ صرف ان کے نام بلکہ ان سے کام بھی لیتا ہے۔ مثلاً جب وہ صبح کے وقت میز پر چائے دانی، چمچ، پرچ، پیالیاں دیکھتا ہے تو ان سب چیزوں کے نام اسے یاد ہو جاتے ہیں۔

پیدائش سے چار پانچ ماہ کے بعد بلکہ ا س سے بھی پہلے ماں بچے سے پیار کرتی ہے اور اس کے ساتھ ہی اس سے یہ باتیں بھی کرتی جاتی ہے۔ وہ ان باتوں کا جواب نہیں دے سکتالیکن ماں اور قریبی رشتہ داروں کی جو محبت بھری آوازیں اس کے کانوںکے اندر داخل ہوتی ہیں وہ یقینا بے اثر نہیں رہتیں۔ اس عمر کا کمسن بچہ گو ما ں کی باتوں کو خوب پہچانتا ہے۔ کیونکہ وہ بچے کے ساتھ سائے کی طرح لگی رہتی ہے اوراس کا آرام کا خیال رکھتی ہے۔

 اس امر کا خیال رکھا جائے کہ جب بچہ بولنا شروع کر دے تو کبھی اس کی باتوں کا جواب لفظوں کو بگاڑ کر نہ دیاجائے۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں، بچے سے ایسے الفاظ میں بات کرنی چاہیے جو صاف اور سیدھے ہوں اور جنہیں وہ فوراً سمجھ جائے۔ 

جو بچہ پیدائشی بہرا ہو اور کچھ عرصے تک ماں باپ کو اس کے بہرا ہونے کا علم نہ ہو تو اس میں باتیں کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہو گی۔ ظاہر ہے کہ جب وہ ماں کی آواز ہی نہیں سنے گا تو وہ اس کی باتوں کا جواب کیسے دے سکتا ہے۔ ماں کو پہلے ہی اس بات کا یقین ہوجانا چاہیے کہ قدرت نے اس کے بچے کو قوت گویائی کی نعمت سے محروم کر رکھا ہے۔ آزمائش کا طریقہ یہ ہے کہ ماں بچے کے پیچھے کھڑی ہوجائے کہ بچہ اسے نہ دیکھ سکے پھر وہ ایک رکابی پر جو بچے کے سامنے پہلے سے رکھ دی گئی ہو پیسہ یا کوئی سخت چیز گرائے۔ اگر بچے نے رکابی پر پیسے کے گرنے کی آواز سن لی تو وہ فوراً مڑ کر دیکھے گا۔ یا اس کے کان کے نزدیک شیشے کے گلاس پر چمچ کی ہلکی ضرب لگائی جائے تو وہ فوراً پلٹ کر دیکھے گا کہ یہ آواز کہا ں سے آ رہی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

فردمعاشرہ اور اخلاق نبویﷺ

’’ (اے حبیب) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے آپﷺ لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں، اگر آپ سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ جاتے‘‘(الانعام:159)حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں، رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کیلئے نرم خو ہو‘‘(مشکوٰۃ المصابیح:3263)

سخاوت کا اعلیٰ ترین معیار

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو مجھے یہ بات پسند نہ ہو کہ اس پر تین راتیں گزریں اور اس کے بعد اس میں سے کچھ میرے پاس رہے مگر صرف اتنا کہ اس سے قرض ادا کر سکوں‘‘(بخاری شریف)۔ اخلاق فاضلہ میں سے سخاوت ہی وہ سب سے بڑی صفت ہے جس کے متعلق حضور اکرم ﷺنے خصوصیت سے توجہ دلائی ہے اور فرمایا: ’’خیرات سے انسان کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ جتنا وہ دیتا ہے اتنا ہی خدا اسے اور دے دیتا ہے‘‘۔

حضورﷺ کا عفوودرگزر

رسول اکرمﷺ نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپﷺ اس کا انتقام لیتے تھے (ابو داؤد)

مسائل اور ان کا حل

سجدہ کی تسبیحات چھوٹنے سے نماز پر اثر سوا ل :سجدہ میں اگر تسبیحات چھوٹ جائیں تو کیا اس سے نماز پر اثر پڑتا ہے اور سجدہ سہو کرنا ہو گا؟جواب : سجدہ کی تسبیحات سنت ہیں، ان کے پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے تاہم ان کے چھوٹ جانے کی صورت میں سجدہ سہو لازم نہیں۔

آئینی بحران سنگین ہو گیا؟

پاکستان میں بڑا آئینی بحران پیدا ہو چکا ہے جو آنے و الے دنوں میں سیاسی عدم استحکام میں اضافے کی خبر دے رہا ہے۔ کشیدگی صرف ریاست کے ستونوں کے درمیان ہی نہیں عدلیہ کے اندر بھی اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔

وائس چانسلرز کی تقرریوں کا عمل ایشو کیوں بنا؟

سپریم کورٹ کی طرف سے مخصوص نشستوں کے تفصیلی فیصلہ کے بعد عدالت عظمیٰ اور حکومت ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہیں اور خاص طور پر عدالت عظمیٰ کی جانب سے 8فروری کے انتخابات کو غیر منصفانہ قرار دینے اور الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکامی کے سوال پر حکومت میں پریشانی ہے ۔