سردار تنویر الیاس اور چوہدری انوارالحق میں بڑھتی قربت

تحریر : محمد اسلم میر


گزشتہ دنوں آزاد جموں و کشمیر کی سیاست میں اس وقت ایک بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی جب وزیر اعظم چوہدری انوار الحق اسلام آباد میں سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔دونوں ماضی میں ایک دوسرے کے دوست رہے ہیں اور2021ء کے انتخابات سے قبل تنویر الیاس جب پاکستان تحریک انصاف آزاد جموں و کشمیر کے صدر بنے تو چوہدری انوار الحق کو بھی پی ٹی آئی میں لے آئے اور وہ مسلم لیگ (ن) آزاد جموں وکشمیر کے سیکرٹری جنرل چوہدری طارق فاروق کو الیکشن میں شکست دے کر اسمبلی میں پہنچ گئے۔

لیکن سیاست اور اقتدار کا حصول دونوں بے رحم کھیل ہیں۔ جب آزاد جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے سردار تنویر الیاس کو عدلیہ پر تنقید کرنے کے جرم میں نا اہل قرار دے کر وزار ت عظمیٰ سے محروم کیا تو  سپیکر آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی چوہدری انوار الحق مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے ارکان کو ساتھ ملا کر وزیر اعظم آزاد کشمیر بن گئے۔ 

چوہدری انوار الحق کے وزیر اعظم بننے کے بعد سردار تنویر الیاس متحرک ہو گئے اور گزشتہ سال نومبر میں انہوں نے سیاسی جماعتوں کے قائدین کو میڈیا کے ذریعے جاری کئے گئے اپنے بیان میں اپیل کی کہ وہ ایک ہو جائیں اور وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کا نعم البدل تلاش کریں۔ اس بیان کے اخبارات میں شائع ہوتے ہی چوہدری انوار الحق متحرک ہوگئے اور انہوں نے اپنے دوستوں اور ساتھیوں کے ذریعے سردار تنویر الیاس کو پیغامات بھجوائے اور مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کو اپنا ہمنوا بنانے کے بعد چوہدری انوار الحق سردار تنویر الیاس خاں کو بھی اپنے قریب لانے میں کامیاب ہو گئے۔

 آزاد جموں و کشمیر میں سیاست کے بڑے بڑے گرو اُس وقت انگشت بدنداں رہ گئے جب انہیں معلوم ہوا کہ رواں ماہ سردار تنویر الیاس  جموں وکشمیر ہاؤس اسلام آباد آئے اور وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کے سردار تنویر الیاس کی رہائش گاہ پر پہنچنے سے قبل گزشتہ تین ماہ کے دوران دونوں کی متعدد خفیہ ملاقاتیں ہوئی ہیں۔رواں سال جولائی سے ستمبر کے دوران دونوں رہنماؤں کی متعدد خفیہ ملاقاتیں ہوئیں اور کہا جا رہا ہے کہ ان ملاقاتوں کو یقینی بنانے میں سردار تنویر الیاس کے دست راست اور میئر باغ میجر ریٹائرڈ عبدالقیوم بیگ اور مشیر حکومت احمد صغیر نے بنیادی کردار ادا کیا۔ان ملاقاتوں کے نتیجے میں دو ماہ قبل وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے میجر ریٹائرڈ عبد القیوم بیگ کے جلسے میں بھی وزرا کے ہمراہ شرکت کی۔ ایک بات وزیر اعظم چوہدری انوار الحق اور سردار تنویر الیاس کے درمیان مشترک ہے کہ یہ آزاد جموں وکشمیر کے ماضی کے حکمرانوں سے مختلف سوچ اور سیاسی فکر کے حامل ہیں۔ ان رہنماؤں پر ماضی کے حکمرانوں کی طرح سرکاری محکموں میں ایڈہاک بھرتیوں پر مبینہ طور پر فی کس پانچ لاکھ روپے نقد وصول کرنے کا الزام ہے اور نہ ہی انہیں پبلک سروس کمیشن کو غیر فعال کرنے اور ایڈہاک ازم کو فروغ دینے کا قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ سردار تنویر الیاس اور وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ  دونوں نے آزاد جموں وکشمیر میں پچاس سال سے زائد جاری برادری ازم اور بڑے بڑے قبائل کے اثر و رسوخ کو حکومتی ایوانوں اور سرکاری محکموں میں ختم کر دیا ہے۔ آزاد جموں وکشمیر کی سیاسی تاریخ میں یہ دونوں سیاستدان عام آدمی کا درد رکھ کر ان کی خدمت کرتے رہے اور اب بھی اپنی بساط کے مطابق کر رہے ہیں۔ ان دونوں رہنماؤں کے قول و فعل کو حکومتی ایوانوں اور مقتدرہ سے لے کر عام سیاسی مجالس تک ہر ایک نے قومی یکجہتی اور استحکام پاکستان کے جذبے سے سر شار پایا ہے۔ ان رہنماؤں نے اپنے سیاسی مفادات کیلئے پاکستان کے خلاف نظریاتی تخریب کاری اور سہولت کاری کبھی نہیں کی، جو آزاد جموں وکشمیر میں ماضی کے حکمرانوں اور سابق وزرائے اعظم کا اپنے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے ایک مؤثر ہتھیار ہوتا تھا۔ یہ دونوں لیڈر آج بھی بھری محفل میں آزاد جموں وکشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دے کر اس پر فخر محسوس کر تے ہیں۔  سردار تنویر الیاس نے بطور وزیر اعظم ایک تقریب میں کھل کر کہا تھا کہ آزاد جموں وکشمیر کے لوگوں نے اپنے آپ کو پاکستان کے ساتھ 1947ء میں جوڑ دیا ہے اور اب مقبوضہ جموں وکشمیر میں رائے شماری کر کے اس کو بھی پاکستان کا حصہ بنادینا چاہیے۔آزاد جموں وکشمیر کی سیاست میں ان دونوں رہنماؤں کی موجودگی سے پڑھے لکھے نوجوان خوش اور عام آدمی مطمئن ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ دونوں سیاستدان اپنے اپنے دور میں میرٹ اور انصاف کے ساتھ آزاد جموں و کشمیر کے پسے ہوئے طبقے کے نمائندے اور ان کے مفادات کے چوکیدار بن کے رہے ہیں۔

 2026ء میں آزاد جموں و کشمیر میں ہونے والے عام انتخابات تک اگر وزیر اعظم چوہدری انوار الحق اسی طرح اپنے ناراض سیاسی قائدین اور دوستوں کو اپنے قریب لانے میں کامیاب ہو گئے تو اس سے آزاد جموں وکشمیر میں موجودہ حکومت کی جانب سے شروع کیا گیا نوجوانوں کو پبلک سروس کمیشن کے ذریعے نوکریاں دینے کا عمل جاری رہے گا، جس سے نہ صرف علاقے میں ایڈہاک ازم کی حوصلہ شکنی ہو گی بلکہ قومی یکجہتی کو بھی فروغ ملے گا۔ آزاد جموں و کشمیر میں سابق حکمرانوں نے سرکاری نوکریوں میں ایڈہاک ازم کو فروغ دے کر علاقے کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو نظر انداز کیا ۔موجودہ سیاسی حالات میں سابق وزیر اعظم سردار تنویر الیاس اور وزیر اعظم چوہدری انوار الحق کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت آزاد جموں و کشمیر میں سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی کے فروغ اور نظریہ پاکستان کے پھیلاؤ میں بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔سردار تنویر الیاس ہی راولاکوٹ ڈویژن میں پروان چڑھنے والی پاکستان مخالف نظریاتی تخریب کاری میں ملوث عناصر کا سیاسی خاتمہ کر سکتے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

فردمعاشرہ اور اخلاق نبویﷺ

’’ (اے حبیب) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے آپﷺ لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں، اگر آپ سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ جاتے‘‘(الانعام:159)حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں، رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کیلئے نرم خو ہو‘‘(مشکوٰۃ المصابیح:3263)

سخاوت کا اعلیٰ ترین معیار

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو مجھے یہ بات پسند نہ ہو کہ اس پر تین راتیں گزریں اور اس کے بعد اس میں سے کچھ میرے پاس رہے مگر صرف اتنا کہ اس سے قرض ادا کر سکوں‘‘(بخاری شریف)۔ اخلاق فاضلہ میں سے سخاوت ہی وہ سب سے بڑی صفت ہے جس کے متعلق حضور اکرم ﷺنے خصوصیت سے توجہ دلائی ہے اور فرمایا: ’’خیرات سے انسان کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ جتنا وہ دیتا ہے اتنا ہی خدا اسے اور دے دیتا ہے‘‘۔

حضورﷺ کا عفوودرگزر

رسول اکرمﷺ نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپﷺ اس کا انتقام لیتے تھے (ابو داؤد)

مسائل اور ان کا حل

سجدہ کی تسبیحات چھوٹنے سے نماز پر اثر سوا ل :سجدہ میں اگر تسبیحات چھوٹ جائیں تو کیا اس سے نماز پر اثر پڑتا ہے اور سجدہ سہو کرنا ہو گا؟جواب : سجدہ کی تسبیحات سنت ہیں، ان کے پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے تاہم ان کے چھوٹ جانے کی صورت میں سجدہ سہو لازم نہیں۔

آئینی بحران سنگین ہو گیا؟

پاکستان میں بڑا آئینی بحران پیدا ہو چکا ہے جو آنے و الے دنوں میں سیاسی عدم استحکام میں اضافے کی خبر دے رہا ہے۔ کشیدگی صرف ریاست کے ستونوں کے درمیان ہی نہیں عدلیہ کے اندر بھی اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔

وائس چانسلرز کی تقرریوں کا عمل ایشو کیوں بنا؟

سپریم کورٹ کی طرف سے مخصوص نشستوں کے تفصیلی فیصلہ کے بعد عدالت عظمیٰ اور حکومت ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہیں اور خاص طور پر عدالت عظمیٰ کی جانب سے 8فروری کے انتخابات کو غیر منصفانہ قرار دینے اور الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکامی کے سوال پر حکومت میں پریشانی ہے ۔