وزیراعلیٰ اسمبلی کیوں نہیں آتے؟
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا لاہور جلسے میں تاخیر سے پہنچے‘ مگر ایسا کیوں ہوا؟ یہ سوال ہر کوئی پوچھ رہا ہے۔ جس بے دلی سے صوبائی وزراء اس جلسے میں شریک ہوئے اس پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ اسلام آباد جلسے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو احساس ہوجانا چاہئے تھا کہ مقررہ وقت میں جلسہ ختم نہ کرنے سے ان کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں ،
پھر بھی ایسا نہیں کیاگیا۔ تحریک انصاف کا لاہور جلسہ کامیاب تھا یا نہیں اس سے قطع نظر یہ دیکھنا چاہئے کہ اس سے فائدہ کیا ہوا؟اگر پی ٹی آئی کامطمح نظر پاور شو اور عوامی طاقت دکھانا تھا تو یہ مقصد تو وہ عام انتخابات میں حاصل کرچکے۔ اور اگربانی پی ٹی آئی کی رہائی جلسوں کے ذریعے مقصود ہے تو پھر عدالتیں اور نظام انصاف کس کام کا؟ اگر مقصد ورکرز کے دل کو گرمانا تھا تو پی ٹی آئی کی قیادت بالخصوص وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اس میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پر مسندِ اقتدار سنبھالتے ہی بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے دباؤ تھا۔ یہ دباؤ اس لئے بھی تھا کہ انتخابات سے قبل یہ ایسے نعرے لگاتے تھے کہ بانی پی ٹی آئی کو جیل سے نکالیں گے۔ مگرحکومت بن گئی تو اگلے چھ ماہ میں کارکنوں اور ووٹروں کو احساس ہوا کہ ان کے پارٹی لیڈر تو جیل میں ہیں جبکہ ان کے نام پر اقتدار حاصل کرنے والے اقتدار کی مصروفیات میں کھو گئے ہیں۔جس کے بعد پارٹی رہنماؤں بالخصوص وزرا پرتنقید شروع ہوگئی ؛چنانچہ جلسوں کا یہ سلسلہ شروع ہوا۔ ان جلسوں سے بانی پی ٹی آئی کو کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو وزیر اعلیٰ کے پی کے بھر پور ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اسلام آباد میں سات آٹھ گھنٹے لاپتہ رہنے کا فائدہ بھی انہیں کو پہنچا۔
سنگجانی جلسے کے بعد سے خیبرپختونخوا اسمبلی میں حکومتی بنچوں سے مقتدرہ کے خلاف تقاریر ہورہی ہیں۔ صوبائی اسمبلی جہاں قانون سازی ہونی چاہیے تھی اور عوامی ایشوز پر تبادلہ خیال کیاجانا چاہیے وہاں مقتدرہ کو نشانہ بنا کر پوائنٹ سکورنگ کی جارہی ہے۔ حکومتی ارکانِ اسمبلی کو یقین ہے کہ اس چار دیواری کے اندر وہ جو بھی کہیں گے ان کو کچھ نہیں کہاجائے گا ،لیکن چاردیواری سے باہر جلسے جلوسوں میں مقتدرہ پر تنقید برداشت نہیں کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ایم پی ایز اور وزرا اسمبلی فلور پر کھل کر دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ بظاہر یہ اچھی بات ہے کہ اسمبلی فلور ہی کو تنقید کیلئے استعمال کیا جائے لیکن اس کا کیاکریں کہ اس تمام معاملے میں عوامی ایشو نظرانداز ہورہے ہیں۔ضلع کرم کو دیکھیں جو کئی ماہ سے قبائل کے مابین جنگ کی بھٹی میں جھلس رہا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں مسئلہ زمین سے شروع ہوتا ہے اور مذہبی ولسانی رنگ اختیار کرلیا ہے۔ بدقسمتی سے اس طرف حکومتی توجہ ہے ہی نہیں۔ قبائلی اضلاع اب صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہیں۔ ان علاقوں کو خیبرپختونخوا میں شامل تو کرلیاگیا لیکن اس کے بعد انہیں ایسے بھلادیاگیا جیسے ان علاقوں کا کوئی وجود ہی نہیں۔ ضلع کرم کے مسئلے کا حل مذہبی نہیں سیاسی ہے۔ ان علاقوں میں شروع ہونی والے فسادات کا اثر پورے ملک پر پڑتا ہے جسے روکنے کیلئے سکیورٹی فورسز کوشش کرتی ہیں اورجرگوں کے ذریعے معاملات کو وقتی طورپر دبا دیاجاتا ہے لیکن دشمنی کی یہ آگ کچھ عرصہ بعد پھر بھڑک اٹھتی ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ اس ضلع کے ارکان ِاسمبلی جو صوبائی اور قومی اسمبلی میں اپنے حلقوں کی نمائندگی کررہے ہیں، حکومت انہیں سننے کو تیار ہی نہیں۔ اب کہیں جاکر خیبرپختونخوا حکومت کو خیال آیا ہے اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے ضلع کرم میں امن وامان کے مسئلے کا نوٹس لیتے ہوئے علاقے کے عمائدین،ارکانِ قومی وصوبائی اسمبلی اور بلدیاتی نمائندوں پر مشتمل جرگہ بلانے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعلیٰ نے اس حوالے سے جرگے سے تجاویز بھی طلب کی ہیں۔ اس مسئلے کامستقل حل نکالنا ازحد ضروری ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کو جلسے جلوسوں کی سیاست سے نکل کر عوام کے مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے بجائے پی ٹی آئی کی سیاسی قیادت جلسے جلوسوں پر توجہ دے تو زیادہ بہتر ہے۔ خیبرپختونخوا کے مالی حالات بھی بہتر نہیں، ترقیاتی منصوبے بند پڑے ہیں اور وفاق کے ذمے اربوں روپے کے بقایاجات کی ادائیگی کی کوئی شکل نظر نہیں آتی۔ حالت یہ ہے کہ وزیراعلیٰ اپنی مرضی کا آئی جی اور چیف سیکرٹری تک نہیں لگوا سکے۔ پی ٹی آئی اب ایک بارپھر پنجاب میں جلسے کیلئے پر تول رہی ہے ،پہلے میانوالی میں جلسے کا اعلان کیاگیاتھا لیکن امکان ہے کہ جلسہ میانوالی کے بجائے راولپنڈی میںہو گا۔ اس جلسے کا مطلب ایک بارپھر سرکاری مشینری کااستعمال ہے۔ سنگجانی اور لاہور جلسے میں جس طرح سرکاری مشینری کا استعمال کیاگیا وہ بھی افسوسناک ہے۔سرکاری وسائل کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا درست نہیں۔
بلدیاتی نظام کو کمزور سے کمزور تر کردیاگیا ہے۔ ایک طرف صوبائی حکومت کو جلسوں سے فرصت نہیں تو دوسری جانب بلدیاتی نمائندوں کو مکمل نظرانداز کیاجارہا ہے۔ صوبائی حکومت چاہتی ہے کہ وفاق اس کی بات سنے تو دوسری جانب بلدیاتی نمائندے سڑکوں پر نکلتے ہیں تو ان کے احتجاج کو درخورِاعتنا نہیں سمجھا جاتا۔جس طرح صوبائی حکومت وفاق سے اپنے فنڈز مانگ رہی ہے اسی طرح ناظمین بھی کئی سالوں سے صوبائی حکومت سے ترقیاتی بجٹ مانگ رہے ہیں۔ بی آرٹی کے قیام کے بعد شاید پی ٹی آئی حکومت نے سمجھ لیا ہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاور کے تمام مسائل حل ہوگئے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس شہر ناپرساں کی طرف اب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ کی ٹیم میں چند ایک کے علاوہ کوئی تگڑا وزیریا مشیر نہیں۔ ان وزرا کو محکمے تو ملے ہیں لیکن ان میں سے بیشتر اپنے دفاتر سے غائب رہتے ہیں۔
کارکردگی دیکھی جائے تو صفر ہے۔ محکمہ پولیس اور صحت بدحالی کاشکار ہیں۔ محکمہ صحت میں آئے روز بدعنوانیوں کے قصے سامنے آرہے ہیں۔ صوبائی حکومت کو سرکاری اداروں کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ ایسے وزیروں اور مشیروں کو کابینہ میں شامل کیاجانا چاہیے جو عوامی مسائل کا ادراک رکھتے ہوں اوراپنے محکموں کی کارکردگی پر توجہ دے سکیں۔ اس وقت محکمہ انسداد بدعنوانی کی کارکردگی کچھ بہتر ہے لیکن ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ اس ادارے کا فوکس زیادہ تر ان ارکان اسمبلی پر ہے جو وزیراعلیٰ کیلئے کسی قسم کا خطرہ بن سکتے ہیں۔ سنگجانی جلسے کے بعدامید کی جارہی تھی کہ وزیراعلیٰ اسمبلی فلور پر آکر کچھ بولیں گے لیکن ان کے پاس اسمبلی کی کارروائی میں شریک ہونے کیلئے شاید وقت ہی نہیں۔