وزیراعلیٰ اسمبلی کیوں نہیں آتے؟

تحریر : عابد حمید


وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا لاہور جلسے میں تاخیر سے پہنچے‘ مگر ایسا کیوں ہوا؟ یہ سوال ہر کوئی پوچھ رہا ہے۔ جس بے دلی سے صوبائی وزراء اس جلسے میں شریک ہوئے اس پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ اسلام آباد جلسے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو احساس ہوجانا چاہئے تھا کہ مقررہ وقت میں جلسہ ختم نہ کرنے سے ان کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں ،

 پھر بھی ایسا نہیں کیاگیا۔ تحریک انصاف کا لاہور جلسہ کامیاب تھا یا نہیں اس سے قطع نظر یہ دیکھنا چاہئے کہ اس سے فائدہ کیا ہوا؟اگر پی ٹی آئی کامطمح نظر پاور شو اور عوامی طاقت دکھانا تھا تو یہ مقصد تو وہ عام انتخابات میں حاصل کرچکے۔ اور اگربانی پی ٹی آئی کی رہائی جلسوں کے ذریعے مقصود ہے تو پھر عدالتیں اور نظام انصاف کس کام کا؟ اگر مقصد ورکرز کے دل کو گرمانا تھا تو پی ٹی آئی کی قیادت بالخصوص وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اس میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پر مسندِ اقتدار سنبھالتے ہی بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے دباؤ تھا۔ یہ دباؤ اس لئے بھی تھا کہ انتخابات سے قبل یہ ایسے نعرے لگاتے تھے کہ بانی پی ٹی آئی کو جیل سے نکالیں گے۔ مگرحکومت بن گئی تو اگلے چھ ماہ میں کارکنوں اور ووٹروں کو احساس ہوا کہ ان کے پارٹی لیڈر تو جیل میں ہیں جبکہ ان کے نام پر اقتدار حاصل کرنے والے اقتدار کی مصروفیات میں کھو گئے ہیں۔جس کے بعد پارٹی رہنماؤں بالخصوص وزرا پرتنقید شروع ہوگئی ؛چنانچہ جلسوں کا یہ سلسلہ شروع ہوا۔ ان جلسوں سے بانی پی ٹی آئی کو کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو وزیر اعلیٰ کے پی کے بھر پور ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ اسلام آباد میں سات آٹھ گھنٹے لاپتہ رہنے کا فائدہ بھی انہیں کو پہنچا۔ 

سنگجانی جلسے کے بعد سے خیبرپختونخوا اسمبلی میں حکومتی بنچوں سے مقتدرہ کے خلاف تقاریر  ہورہی ہیں۔ صوبائی اسمبلی جہاں قانون سازی ہونی چاہیے تھی اور عوامی ایشوز پر تبادلہ خیال کیاجانا چاہیے وہاں مقتدرہ کو نشانہ بنا کر پوائنٹ سکورنگ کی جارہی ہے۔  حکومتی ارکانِ اسمبلی کو یقین ہے کہ اس چار دیواری کے اندر وہ جو بھی کہیں گے ان کو کچھ نہیں کہاجائے گا ،لیکن چاردیواری سے باہر جلسے جلوسوں میں مقتدرہ پر تنقید برداشت نہیں کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ایم پی ایز اور وزرا اسمبلی فلور پر کھل کر دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ بظاہر یہ اچھی بات ہے کہ اسمبلی فلور ہی کو تنقید کیلئے استعمال کیا جائے لیکن اس کا کیاکریں کہ اس تمام معاملے میں عوامی ایشو نظرانداز ہورہے ہیں۔ضلع کرم کو دیکھیں جو کئی ماہ سے قبائل کے مابین جنگ کی بھٹی میں جھلس رہا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں مسئلہ زمین سے شروع ہوتا ہے اور مذہبی ولسانی رنگ اختیار کرلیا ہے۔ بدقسمتی سے اس طرف حکومتی توجہ ہے ہی نہیں۔ قبائلی اضلاع اب صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہیں۔ ان علاقوں کو خیبرپختونخوا میں شامل تو کرلیاگیا لیکن اس کے بعد انہیں ایسے بھلادیاگیا جیسے ان علاقوں کا کوئی وجود ہی نہیں۔ ضلع کرم کے مسئلے کا حل مذہبی نہیں سیاسی ہے۔ ان علاقوں میں شروع ہونی والے فسادات کا اثر پورے ملک پر پڑتا ہے جسے روکنے کیلئے سکیورٹی فورسز کوشش کرتی ہیں اورجرگوں کے ذریعے معاملات کو وقتی طورپر دبا دیاجاتا ہے لیکن دشمنی کی یہ آگ کچھ عرصہ بعد پھر بھڑک اٹھتی ہے۔ 

افسوسناک امر یہ ہے کہ اس ضلع کے ارکان ِاسمبلی جو صوبائی اور قومی اسمبلی میں اپنے حلقوں کی نمائندگی کررہے ہیں، حکومت انہیں سننے کو تیار ہی نہیں۔ اب کہیں جاکر خیبرپختونخوا حکومت کو خیال آیا ہے اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے ضلع کرم میں امن وامان کے مسئلے کا نوٹس لیتے ہوئے علاقے کے عمائدین،ارکانِ قومی وصوبائی اسمبلی اور بلدیاتی نمائندوں پر مشتمل جرگہ بلانے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعلیٰ نے اس حوالے سے جرگے سے تجاویز بھی طلب کی ہیں۔  اس مسئلے کامستقل حل نکالنا ازحد ضروری ہے۔  خیبر پختونخوا حکومت کو جلسے جلوسوں کی سیاست سے نکل کر عوام کے مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے بجائے پی ٹی آئی کی سیاسی قیادت جلسے جلوسوں پر توجہ دے تو زیادہ بہتر ہے۔ خیبرپختونخوا کے مالی حالات بھی بہتر نہیں، ترقیاتی منصوبے بند پڑے ہیں اور وفاق کے ذمے اربوں روپے کے بقایاجات کی ادائیگی کی کوئی شکل نظر نہیں آتی۔ حالت یہ ہے کہ وزیراعلیٰ اپنی مرضی کا آئی جی اور چیف سیکرٹری تک نہیں لگوا سکے۔ پی ٹی آئی اب ایک بارپھر پنجاب میں جلسے کیلئے پر تول رہی ہے ،پہلے میانوالی میں جلسے کا اعلان کیاگیاتھا لیکن امکان ہے کہ جلسہ میانوالی کے بجائے راولپنڈی میںہو گا۔ اس جلسے کا مطلب ایک بارپھر سرکاری مشینری کااستعمال ہے۔ سنگجانی اور لاہور جلسے میں جس طرح سرکاری مشینری کا استعمال کیاگیا وہ بھی افسوسناک ہے۔سرکاری وسائل کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا درست نہیں۔

بلدیاتی نظام کو کمزور سے کمزور تر کردیاگیا ہے۔ ایک طرف صوبائی حکومت کو جلسوں سے فرصت نہیں تو دوسری جانب بلدیاتی نمائندوں کو مکمل نظرانداز کیاجارہا ہے۔ صوبائی حکومت چاہتی ہے کہ وفاق اس کی بات سنے تو دوسری جانب بلدیاتی نمائندے سڑکوں پر نکلتے ہیں تو ان کے احتجاج کو درخورِاعتنا نہیں سمجھا جاتا۔جس طرح صوبائی حکومت وفاق سے اپنے فنڈز مانگ رہی ہے اسی طرح ناظمین بھی کئی سالوں سے صوبائی حکومت سے ترقیاتی بجٹ مانگ رہے ہیں۔ بی آرٹی کے قیام کے بعد شاید پی ٹی آئی حکومت نے سمجھ لیا ہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاور کے تمام مسائل حل ہوگئے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس شہر ناپرساں کی طرف اب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ کی ٹیم میں چند ایک کے علاوہ کوئی تگڑا وزیریا مشیر نہیں۔ ان وزرا کو محکمے تو ملے ہیں لیکن ان میں سے بیشتر اپنے دفاتر سے غائب رہتے ہیں۔

 کارکردگی دیکھی جائے تو صفر ہے۔ محکمہ پولیس اور صحت بدحالی کاشکار ہیں۔ محکمہ صحت میں آئے روز بدعنوانیوں کے قصے سامنے آرہے ہیں۔ صوبائی حکومت کو سرکاری اداروں کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ ایسے وزیروں اور مشیروں کو کابینہ میں شامل کیاجانا چاہیے جو عوامی مسائل کا ادراک رکھتے ہوں اوراپنے محکموں کی کارکردگی پر توجہ دے سکیں۔ اس وقت محکمہ انسداد بدعنوانی کی کارکردگی کچھ بہتر ہے لیکن ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ اس ادارے کا فوکس زیادہ تر ان ارکان اسمبلی پر ہے جو وزیراعلیٰ کیلئے کسی قسم کا خطرہ بن سکتے ہیں۔ سنگجانی جلسے کے بعدامید کی جارہی تھی کہ وزیراعلیٰ اسمبلی فلور پر آکر کچھ بولیں گے لیکن ان کے پاس اسمبلی کی کارروائی میں شریک ہونے کیلئے شاید وقت ہی نہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

فردمعاشرہ اور اخلاق نبویﷺ

’’ (اے حبیب) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے آپﷺ لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں، اگر آپ سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ جاتے‘‘(الانعام:159)حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں، رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کیلئے نرم خو ہو‘‘(مشکوٰۃ المصابیح:3263)

سخاوت کا اعلیٰ ترین معیار

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو مجھے یہ بات پسند نہ ہو کہ اس پر تین راتیں گزریں اور اس کے بعد اس میں سے کچھ میرے پاس رہے مگر صرف اتنا کہ اس سے قرض ادا کر سکوں‘‘(بخاری شریف)۔ اخلاق فاضلہ میں سے سخاوت ہی وہ سب سے بڑی صفت ہے جس کے متعلق حضور اکرم ﷺنے خصوصیت سے توجہ دلائی ہے اور فرمایا: ’’خیرات سے انسان کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ جتنا وہ دیتا ہے اتنا ہی خدا اسے اور دے دیتا ہے‘‘۔

حضورﷺ کا عفوودرگزر

رسول اکرمﷺ نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپﷺ اس کا انتقام لیتے تھے (ابو داؤد)

مسائل اور ان کا حل

سجدہ کی تسبیحات چھوٹنے سے نماز پر اثر سوا ل :سجدہ میں اگر تسبیحات چھوٹ جائیں تو کیا اس سے نماز پر اثر پڑتا ہے اور سجدہ سہو کرنا ہو گا؟جواب : سجدہ کی تسبیحات سنت ہیں، ان کے پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے تاہم ان کے چھوٹ جانے کی صورت میں سجدہ سہو لازم نہیں۔

آئینی بحران سنگین ہو گیا؟

پاکستان میں بڑا آئینی بحران پیدا ہو چکا ہے جو آنے و الے دنوں میں سیاسی عدم استحکام میں اضافے کی خبر دے رہا ہے۔ کشیدگی صرف ریاست کے ستونوں کے درمیان ہی نہیں عدلیہ کے اندر بھی اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔

وائس چانسلرز کی تقرریوں کا عمل ایشو کیوں بنا؟

سپریم کورٹ کی طرف سے مخصوص نشستوں کے تفصیلی فیصلہ کے بعد عدالت عظمیٰ اور حکومت ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہیں اور خاص طور پر عدالت عظمیٰ کی جانب سے 8فروری کے انتخابات کو غیر منصفانہ قرار دینے اور الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکامی کے سوال پر حکومت میں پریشانی ہے ۔