بلاول بھٹو کی سالگرہ اور سندھ کی سیاست

تحریر : طلحہ ہاشمی


21 ستمبر کوسندھ سمیت ملک بھر میں پیپلز پارٹی نے اپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی سالگرہ منائی۔اللہ کے فضل سے انہوں نے زندگی کی 36 بہاریں دیکھ لی ہیں۔ بلاول ہاؤس کراچی میں تقریب ہوئی جہاں بلاول بھٹو نے آصفہ بھٹو اور فریال تالپور کے ہمراہ کیک کاٹا۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنما بھی موجود تھے۔بلاول بھٹو کی درازی عمر کے لیے دعائیں کی گئیں۔ سیاسی لحاظ سے دیکھا جائے تو 36 سال کوئی زیادہ عمر نہیں لیکن بلاول بھٹو زرداری ایک زیرک سیاستدان کے طور پر اپنی پہچان بنا چکے ہیں۔ لوگ ان میں ذوالفقار علی بھٹو اورمحترمہ بے نظیر بھٹو کی خصوصیات ڈھونڈتے ہیں۔ بلاول یقینا اپنے والدین کے سیاسی نظریے کو آگے بڑھائیں گے اور ان سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ جو نعرے کئی دہائیوں سے پیپلز پارٹی کے منشور کا حصہ ہیں اور ابھی تک تشنہ تکمیل ہیں، انہیں پورا کریں گے۔

خوشحالی کی بات کریں تو آج کل اپوزیشن ہو یا حکومت سبھی کو ایک ہی چیز میں ملک اور عوام کی خوشحالی نظر آرہی ہے اور وہ ہے آئینی ترمیم۔ حکومت کہتی ہے کہ حمایت سے خوشحالی آئے گی، اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ مخالفت سے ترقی کا راستہ کھلے گا۔ گزشتہ دنوں جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن سندھ کے دورے پر آئے تو گورنر سندھ کامران ٹیسوری ملاقات کے لیے مولانا کی رہائش گاہ پہنچے اور کہنے والے کہتے ہیں کہ سیاسی صورتحال پر کھل کر گفتگو ہوئی۔صحافیوں سے گفتگو میں گورنر سندھ نے مولانا کی دل کھول کر تعریف کی، انہوں نے بتایا کہ مولانا ملک کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں، آئینی ترمیم کے حوالے سے جو بھی فیصلہ کریں گے وہ ملک کے لیے بہتر ہوگا۔ مولانا صاحب خود بھی یہ واضح کرچکے ہیں کہ آئینی ترمیم کو سیاسی یا ذاتی مفاد کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔ آئین پر عمل درآمد نہ ہوا تو ملک میں استحکام نہیں آئے گا۔ انتخابات میں مسلسل دھاندلی ہوتی ہے، ادارے ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کررہے ہیں۔ خوشحالی کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے دعوے اپنی جگہ مولانا کون سی والی خوشحالی کے ساتھ ہوں گے، یہ تو جلد سامنے آجائے گا، البتہ عوام بے چارے سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ کس طرح کی خوش حالی ہے جو حکومت اور اپوزیشن کو تو نظر آتی ہے البتہ عوام کودکھائی نہیں دے رہی۔ 

خیر! کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے، چند روز قبل سندھ اسمبلی کا اجلاس ہوا اور منشیات کے خلاف متفقہ ترمیمی بل منظور ہوگیا۔ وزیر اینٹی نارکوٹکس شرجیل میمن نے اراکین کا شکریہ ادا کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ اب منشیات کی لعنت ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ کیا اس سے پہلے قانون نہیں تھا اور اگر وہ غیر مؤثر تھا تو اب تک حکومت کیا کر رہی تھی؟ اجلاس کے دوران بڑی اہم بات یہ بھی سامنے آئی کہ زمین سے پانی نکالنے کے نئے قانون کے تحت 13 لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔ پرانے قانون کے تحت 30 سے زیادہ لائسنس دیے گئے تھے جنہیں منسوخ کردیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ زیرزمین پانی نکالنے کا لائسنس کس کس کو دیا گیااور پانی نکالنے کی کوئی حد ہوگی، لائسنس کی فیس کیا ہے، پانی نکالا جائے گا تو یقیناً فروخت کیا جائے گا، کیا پانی نکالنے کے حساب سے لائسنس کی فیس ہے یا معمولی سی رقم دیں اور ڈھیروں مال کمائیں؟ سوال تو بنتا ہے! 

 امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن بھی کراچی میں ہیں اور انہوں نے سندھ حکومت پر بھرپور تنقید کی اور کہا کہ پیپلز پارٹی 16 سال سے مسلسل سندھ میں حکمرانی کر رہی ہے لیکن عوام کو بجلی، گیس ہو یا پانی، روزگار ہو یا ذرائع مواصلات کچھ بھی میسر نہیں۔ کراچی کو اس کا قانونی حق نہیں دیا جاتا۔ انہوں نے 6 اکتوبر کو کراچی میں غزہ ملین مارچ کا بھی اعلان کیا۔ ویسے راولپنڈی میں جماعت اسلامی کے 14 روزہ دھرنے میں حکومت سے کیے گئے تحریری معاہدہ کی مدت کو 45 دن پورے ہوگئے ہیں اور عوام جماعت اسلامی کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ اب ان کا کیا ردعمل آتا ہے۔

وزیراعلیٰ مراد علی شاہ عوام کے لیے کچھ سوچتے ہیں۔ اس بار انہوں نے ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کا نوٹس لیا ہے۔ کراچی میں سڑکوں کی تعمیر میں ناقص میٹریل استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرلیا، سڑکوں کی پیوند کاری یعنی مرمت کے لیے ڈیڑھ ارب روپے جاری کردیے ہیں۔اپوزیشن کا کہنا ہے کہ نہ سڑکیں بنیں گی نہ شہر کی حالت درست ہوگی۔ عوام میں بھی ایسی ہی رائے پائی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئی سڑکیں بنائی جائیں یا سڑکوں کی مرمت ہو، دونوں ہی مبینہ کرپشن کی نظر ہوجاتی ہیں۔ ابھی تک تو نہ کسی ٹھیکیدار کے پکڑے جانے کی خبر ملی نہ کسی کو سزا ہوتے اور ہڑپ کیا گیا پیسا واپس نکلتے دیکھا۔ ایسے ٹھیکیدار کو دوبارہ ٹھیکہ نہ دینے کی بات تو مضحکہ خیز لگتی ہے۔ جب تک چوروں اور کرپشن کا ساتھ دینے والے افسران کو گرفت میں نہیں لیا جائے گا، ڈیڑھ ارب تو کیا ڈیڑھ سو ارب بھی جاری کردیں شہر اور صوبے کی حالت سدھر نہیں سکے گی۔ عوام کا کہنا ہے کہ نظام انصاف کو فعال کریں تب ہم سمجھیں گے کہ واقعی کام ہورہا ہے، ورنہ نوٹس لیتے رہیں کیا فرق پڑتا ہے۔

احتساب عدالت سے ایک خبر ہے کہ سندھ کے محکمہ اطلاعات میں 6 ارب روپے کی مبینہ کرپشن کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے اور کیس کے ملزمان نے سکون کا سانس لیا۔ فیصلے کے مطابق نیب ترامیم کے بعد ریفرنس عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ ریفرنس کو صوبے کے محکمہ انسداد منشیات کو منتقل کیا جائے۔ یہ کیس 2016ء میں دائر کیا گیا تھا اور اشتہارات کی مد میں کرپشن کا الزام لگایا گیا تھا۔ دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

فردمعاشرہ اور اخلاق نبویﷺ

’’ (اے حبیب) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے آپﷺ لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں، اگر آپ سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ جاتے‘‘(الانعام:159)حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں، رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کیلئے نرم خو ہو‘‘(مشکوٰۃ المصابیح:3263)

سخاوت کا اعلیٰ ترین معیار

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو مجھے یہ بات پسند نہ ہو کہ اس پر تین راتیں گزریں اور اس کے بعد اس میں سے کچھ میرے پاس رہے مگر صرف اتنا کہ اس سے قرض ادا کر سکوں‘‘(بخاری شریف)۔ اخلاق فاضلہ میں سے سخاوت ہی وہ سب سے بڑی صفت ہے جس کے متعلق حضور اکرم ﷺنے خصوصیت سے توجہ دلائی ہے اور فرمایا: ’’خیرات سے انسان کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ جتنا وہ دیتا ہے اتنا ہی خدا اسے اور دے دیتا ہے‘‘۔

حضورﷺ کا عفوودرگزر

رسول اکرمﷺ نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپﷺ اس کا انتقام لیتے تھے (ابو داؤد)

مسائل اور ان کا حل

سجدہ کی تسبیحات چھوٹنے سے نماز پر اثر سوا ل :سجدہ میں اگر تسبیحات چھوٹ جائیں تو کیا اس سے نماز پر اثر پڑتا ہے اور سجدہ سہو کرنا ہو گا؟جواب : سجدہ کی تسبیحات سنت ہیں، ان کے پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے تاہم ان کے چھوٹ جانے کی صورت میں سجدہ سہو لازم نہیں۔

آئینی بحران سنگین ہو گیا؟

پاکستان میں بڑا آئینی بحران پیدا ہو چکا ہے جو آنے و الے دنوں میں سیاسی عدم استحکام میں اضافے کی خبر دے رہا ہے۔ کشیدگی صرف ریاست کے ستونوں کے درمیان ہی نہیں عدلیہ کے اندر بھی اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔

وائس چانسلرز کی تقرریوں کا عمل ایشو کیوں بنا؟

سپریم کورٹ کی طرف سے مخصوص نشستوں کے تفصیلی فیصلہ کے بعد عدالت عظمیٰ اور حکومت ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہیں اور خاص طور پر عدالت عظمیٰ کی جانب سے 8فروری کے انتخابات کو غیر منصفانہ قرار دینے اور الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکامی کے سوال پر حکومت میں پریشانی ہے ۔