وائس چانسلرز کی تقرریوں کا عمل ایشو کیوں بنا؟

تحریر : سلمان غنی


سپریم کورٹ کی طرف سے مخصوص نشستوں کے تفصیلی فیصلہ کے بعد عدالت عظمیٰ اور حکومت ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہیں اور خاص طور پر عدالت عظمیٰ کی جانب سے 8فروری کے انتخابات کو غیر منصفانہ قرار دینے اور الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکامی کے سوال پر حکومت میں پریشانی ہے ۔

خود الیکشن کمیشن نے بھی عدالتی حکم پر سخت ردعمل دیا ہے اور کہا ہے کہ اس فیصلے سے الیکشن کمیشن کی خود مختاری اور حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فوری طور پر حکومت اور الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے فیصلے کو قبول کرنے سے انکاری ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ہم عدالتی تشریح سے اتفاق نہیں کرتے ۔ دوسری جانب حکومت جو مجوزہ آئینی ترمیمی پیکیج لانا چاہتی ہے اس میں بھی اسے سیاسی محاذ پر کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو منانے کی کوشش بدستور جاری ہے اور اس میں پیپلزپارٹی بھی کردار ادا کررہی ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ آئینی عدالت کا قیام ضروری او رمجبوری ہے اور ہم اسے بنا کر ہی رہیں گے۔ اُن کے بقول ہم میثاق جمہوریت کو بنیاد بنا کر عدالتی اصلاحات لانا چاہتے ہیں او راس میں جو بھی رکاوٹیں ہوں گی ان کا بھرپور انداز میں سیاسی سطح پر مقابلہ کیا جائے گا۔حکومت کی مشکل یہ ہے کہ ایک طرف مولانا فضل الرحمن کی مزاحمت ہے تو دوسری طرف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن یا دیگر وکلا تنظیمیں بھی مجوزہ آئینی پیکیج کو قبول کرنے سے انکاری ہیں ۔خود سپریم کورٹ کی سطح پر بھی عدلیہ تقسیم نظر آتی ہے اور جسٹس منصور علی شاہ کا چیف جسٹس کو لکھا گیا خط بھی عدالتی نظام میں موجود بحران کو نمایاں کرتا ہے ۔پی ٹی آئی سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلہ پر خوش ہے لیکن حکومت جب سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کے لیے تیارہی نہ ہو تو ایسی صورت میں محاذ آرائی کی سیاست ہی کا غلبہ ہوگا۔سوال یہ ہے کہ اگر ملک کے عدالتی نظام اور اس کے فیصلوں کو قبول نہ کرنے کی روایت پڑے گی یا ہم عدالتوں کے قانونی فصیلوں میں سیاسی فیصلوں کے رنگ کو نمایاں طور پر دیکھیں گے تولوگ ان معاملات پر اپنی اپنی سیاسی تشریح کرکے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔یہی وجہ ہے کہ یہ خوف ہے کہ عدالتی نظام اور حکومت کے درمیان جو سرد جنگ جاری ہے اس سے سیاسی نظام کو کسی بڑے خطرے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے لاہور میں ہونے والے جلسہ کے بعد پی ٹی آئی نے جلسوں کے شیڈول کا اعلان کر دیا ہے۔ہفتہ کے روزراولپنڈی میں اور پھر لاہور او رمیانوالی میں سیاسی جلسوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کو جن حالات میں جلسوں کی اجازت مل رہی ہے اور جن مشکلات میں جلسے کیے جارہے ہیں اس نے بہرحال پی ٹی آئی کو سیاسی آکسیجن دی ہے۔ حکومت کو ڈر ہے کہ اگر پی ٹی آئی کے جلسوں کو اجازت ملتی رہی تواس سے حکومت کی سیاسی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی سطح پر دیگر شہروں میں پی ٹی آئی کے جلسوں کے حوالے سے سیاسی حکمت عملی پر غور کیا جارہا ہے کہ ان حالات میں پی ٹی آئی کو انتظامی بنیادوں پر کیسے ٹف ٹائم دیا جائے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کسی نہ کسی سطح پرمقتدرہ اور پی ٹی آئی کے درمیان پس پردہ بات چیت کا عمل بھی جاری ہے اور علی امین گنڈا پور کا لاہور کے جلسہ میں بروقت نہ پہنچنا بھی اسی سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھا۔پی ٹی آئی میں ایک گروپ جو مقتدرہ کے ساتھ مفاہمت کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتا ہے اس کے خیال میں انہیں موجودہ صورتحال میں اپنی تنقید کا سارا زور حکمران اتحاد پر مرکوزکرنا چاہیے اور مقتدرہ کے ساتھ مفاہمت دکھائی جائے۔ لیکن عمران خان کے اپنے بعض بیانات سے مفاہمت کار جو پی ٹی آئی میں ہیں ان کو مختلف سطحوں پر مسائل کا سامنا ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کے درمیان بھی ایک مقابلہ بازی کا ماحول ہے ۔مسلم لیگ (ن) میں ایک گروپ سمجھتا ہے کہ پیپلزپارٹی ان کے ساتھ کئی محاذوں پر ڈبل گیم کھیل رہی ہے اور مکمل ساتھ دینے کی بجائے اپنے سیاسی کارڈ کھیل رہی ہے جس سے حکومت کی مشکلات بڑھ رہی ہیں ۔اسی طرح موجودہ صورتحال میں مولانا فضل الرحمن کا زیادہ جھکاؤ بھی مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی طرف ہے اور اسی بنیاد پر بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ ہم مشاورت کے ساتھ نئے آئینی ترمیمی بل کو لانے پر غور کررہے ہیں ۔

پنجاب میں وائس چانسلرز کی تقرری کا مسئلہ بھی ہر آنے والے دن سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ گورنر ہائوس کو نوٹیفکیشن کیلئے بھجوائی جانے والی سمریوں پر گورنر پنجاب نے نوٹیفکیشن روک رکھے تھے اور چودہ روز گزر نے کے بعد ہائر ایجوکیشن کمیشن کے آرٹیکل 105 اورپنجاب گورنمنٹ رولز آف بزنس 2011کے سیکشن 11کے تحت گورنر کی منظوری کے بغیر براہ راست سات وائس چانسلرز کے نوٹیفکیشن جاری کر دیئے گئے جبکہ دیگر چار وائس چانسلرز اور سات ویمنز یونیورسٹیز کی وائس چانسلرز کی تعیناتی ابھی باقی ہے ۔پنجاب کی یونیورسٹیز میں وائس چانسلرز کی تقرری کا اختیار رولز کے مطابق حکومت پنجاب کا ہے اور حکومت کی ایڈوائس پر نوٹیفکیشن گورنر ہائوس جاری کرتا ہے مگر گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر گورنر ہائوس آنے والی سمریوں پر تحفظات کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب میں تین یونیورسٹوں میں اپنے وائس چانسلر لگوانے میں دلچسپی رکھتی ہے مگر اس کی مانی نہیں جا رہی، لہٰذا گورنر ہائوس کی جانب سے رکاوٹوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ مذکورہ عمل کے حوالے سے ایک ذمہ دار شخصیت کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی وائس چانسلرز کی تقرری بارے تحفظات سامنے آئے تھے لیکن گورنر کے اعتراضات کے باوجود بالآخر وزیراعلیٰ کا آئینی اختیار ہی مانا گیا تھا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے آئینی طریقہ کار کو بنیاد بناتے ہوئے وائس چانسلرز جیسے اہم اور پروقار عہدہ پر خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں ہونی چاہئیں اور خود پنجاب حکومت کو سامنے آنے والے تحفظات اور الزامات پر وضاحت دینی چاہئے۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ کسی بھی وائس چانسلر کے حوالے سے میرٹ کی بجائے سفارش کا تاثر پیدا ہوا تو اس کے اثرات متعلقہ یونیورسٹی کی ساکھ اوراس کے طلبا پر ہوں گے۔ اگر پیپلزپارٹی کو جنوبی پنجاب کی سطح پر اکاموڈیٹ کرنا مقصود ہے تو ان یونیورسٹیوں کے حوالے سے سرچ کمیٹی کی جانب سے سفارش کردہ ناموں میں سے ہی سلیکشن ہونی چاہئے تاکہ میرٹ کی بالادستی قائم رہے اور یونیورسٹیاں سفارشی کلچر سے مبرا ہوں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

فردمعاشرہ اور اخلاق نبویﷺ

’’ (اے حبیب) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے آپﷺ لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں، اگر آپ سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ جاتے‘‘(الانعام:159)حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں، رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کیلئے نرم خو ہو‘‘(مشکوٰۃ المصابیح:3263)

سخاوت کا اعلیٰ ترین معیار

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو مجھے یہ بات پسند نہ ہو کہ اس پر تین راتیں گزریں اور اس کے بعد اس میں سے کچھ میرے پاس رہے مگر صرف اتنا کہ اس سے قرض ادا کر سکوں‘‘(بخاری شریف)۔ اخلاق فاضلہ میں سے سخاوت ہی وہ سب سے بڑی صفت ہے جس کے متعلق حضور اکرم ﷺنے خصوصیت سے توجہ دلائی ہے اور فرمایا: ’’خیرات سے انسان کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ جتنا وہ دیتا ہے اتنا ہی خدا اسے اور دے دیتا ہے‘‘۔

حضورﷺ کا عفوودرگزر

رسول اکرمﷺ نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپﷺ اس کا انتقام لیتے تھے (ابو داؤد)

مسائل اور ان کا حل

سجدہ کی تسبیحات چھوٹنے سے نماز پر اثر سوا ل :سجدہ میں اگر تسبیحات چھوٹ جائیں تو کیا اس سے نماز پر اثر پڑتا ہے اور سجدہ سہو کرنا ہو گا؟جواب : سجدہ کی تسبیحات سنت ہیں، ان کے پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے تاہم ان کے چھوٹ جانے کی صورت میں سجدہ سہو لازم نہیں۔

آئینی بحران سنگین ہو گیا؟

پاکستان میں بڑا آئینی بحران پیدا ہو چکا ہے جو آنے و الے دنوں میں سیاسی عدم استحکام میں اضافے کی خبر دے رہا ہے۔ کشیدگی صرف ریاست کے ستونوں کے درمیان ہی نہیں عدلیہ کے اندر بھی اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔

بلاول بھٹو کی سالگرہ اور سندھ کی سیاست

21 ستمبر کوسندھ سمیت ملک بھر میں پیپلز پارٹی نے اپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی سالگرہ منائی۔اللہ کے فضل سے انہوں نے زندگی کی 36 بہاریں دیکھ لی ہیں۔ بلاول ہاؤس کراچی میں تقریب ہوئی جہاں بلاول بھٹو نے آصفہ بھٹو اور فریال تالپور کے ہمراہ کیک کاٹا۔