سخاوت کا اعلیٰ ترین معیار

تحریر : مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: ’’اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو مجھے یہ بات پسند نہ ہو کہ اس پر تین راتیں گزریں اور اس کے بعد اس میں سے کچھ میرے پاس رہے مگر صرف اتنا کہ اس سے قرض ادا کر سکوں‘‘(بخاری شریف)۔ اخلاق فاضلہ میں سے سخاوت ہی وہ سب سے بڑی صفت ہے جس کے متعلق حضور اکرم ﷺنے خصوصیت سے توجہ دلائی ہے اور فرمایا: ’’خیرات سے انسان کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ جتنا وہ دیتا ہے اتنا ہی خدا اسے اور دے دیتا ہے‘‘۔

حضرت انس ؓ اور حضرت جابر ؓ سے الگ الگ روایت ہے کہ نبی اکرمﷺسے کسی سائل نے سوال نہیں کیا کہ آپ ﷺ نے اسے نفی میں جواب دیا ہو اور کچھ نہ کچھ دے نہ دیا ہو۔حضرت انس ؓکہتے ہیں کہ ایک بار ایک سائل نے حضورﷺ سے سوال کیا۔ آپ ﷺ نے اتنی بکریاں دیں کہ وہ گنی نہ جا سکتی تھیں اور دو پہاڑوں کے درمیان جو جگہ تھی وہ سب ان سے بھری ہوئی تھی۔اس سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ ہر سائل کو اس کی حاجت کے مطابق عطافرمایا کرتے تھے اور اس سخاوت میں مسلم اور غیر مسلم میں امتیاز نہ فرمایا کرتے تھے۔ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی سائل جسے اس کی ساری قوم کیلئے اتنی بکریاں دے دی گئیں ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ جب اپنی قوم میں پہنچا اور ان کو بکریاں دکھا کر بھوک کی آگ سے نجات دلوائی اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ : (ترجمہ) ’’اے میری قوم مسلمان ہو جائو کہ محمد ﷺ اس شخص کی مثل عطا کرتا ہے جس کو فقر کا کچھ خوف نہیں ہوتا‘‘۔

جنگ حنین میں چھ ہزار قیدی، 24 ہزار اونٹ، 40 ہزار بکریاں اور 4 ہزار اوقیہ چاندی غنیمت میں حاصل ہوئی تھی۔ نبی اکرم ﷺنے ان میں ایک چیز کو بھی نہیں چھوڑا، سب کچھ صحابہ کرامؓ میں تقسیم فرما دیا اور خود خالی ہی واپس آئے۔

ایک دفعہ بحرین سے خراج کا مال آیا اور صحن مسجد میں زرو سیم کا انبار لگ گیا۔ حضور ﷺ نماز صبح کیلئے تشریف لائے۔ صحابہ کرام ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے اس ڈھیر کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ نماز سے فارغ ہوئے تو انبار کے پاس آ بیٹھے اور تقسیم فرمانے لگے۔ جو آتا اسے بے حساب دیتے۔ تھوڑی دیر میں سب ختم ہو گیا۔ اور آپ ﷺ دامن جھاڑ کر خالی ہاتھ تشریف لے گئے۔ ان روایات سے نہ صرف حضورنبی کریم ﷺ کی سخاوت کا پتہ چلتا ہے بلکہ آپ ﷺ کی استغناء، بے نفسی اور ایثار کا بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپ ﷺدوسروں کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دیا کرتے تھے۔

ایک دفعہ حضورﷺکی خدمت میں ایک سائل آیا۔ آپ ﷺ کے پاس کچھ موجود نہ تھا۔ فرمایا، بیٹھ جا خدا دے گا۔ پھر دوسرا آیا، پھر تیسرا آیا، نبی کریم ﷺنے سب کو بٹھا لیا۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور چار اوقیہ چاندی آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کی۔ حضورﷺ نے ایک ایک اوقیہ تو ان تینوں میں تقسیم فرما دی اور ایک اوقیہ کی بابت اعلان کر دیا مگر کوئی لینے والا نہ اٹھا، رات ہوئی تو حضور ﷺنے وہ اپنے سرہانے رکھ لی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ حضور ﷺکو نیند نہیں آئی۔ اٹھتے ہیں تو نماز پڑھنے لگتے ہیں۔ پھر ذرا لیٹ کر اٹھتے ہیں اور نماز پڑھنے لگ جاتے ہیں۔ اُم المؤمنینؓ نے پوچھا حضور ﷺ کو آج کوئی تکلیف ہے؟ فرمایا نہیں۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ کیا کوئی خدا کا خاص حکم آیا ہے جس کی وجہ سے یہ بیقراری ہے؟ فرمایا نہیں۔ اُم المؤمنین رضی اللہ عنہا نے کہا پھر حضور ﷺ آرام کیوں نہیں فرماتے؟ تب حضور ﷺ نے وہ چاندی نکال کر دکھائی اور فرمایا کہ یہ ہے جس نے مجھے بے قرار کر رکھا ہے مجھے ڈر ہے کہ مبادایہ میرے پاس ہی ہو اور مجھے موت آجائے۔

ایک دفعہ فدک سے غلہ کے چار اونٹ آئے جو آتے ہی حضور ﷺ نے تقسیم کرنے شروع کر دیئے۔ یہاں تک کہ کوئی لینے والا باقی نہ رہا اور غلہ بچ رہا، شام ہو گئی مگر حضور ﷺ گھر نہ گئے، کسی نے کہا۔ آپ ﷺ تشریف لے چلئے پھر تقسیم ہو جائے گا۔ آپ ﷺنے فرمایاکہ جب تک یہ دنیا کا مال باقی ہے میں گھر نہیں جا سکتا۔ چنانچہ رات مسجد ہی میں بسر فرمائی صبح کچھ حاجت مند آئے اور آپ ﷺ انہیں سارا غلہ دے کر پھر گھر تشریف لائے۔آپ ﷺجب مرض الموت میں بستر پر لیٹے ہوئے تھے تو کسی نے چند اشرفیاں لا کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ انہیں خیرات کر دو۔ یہ زیبا نہیں کہ محمد ﷺاپنے خالق کی بارگاہ میں جائے اور اس کے گھر میں اشرفیاں پڑی ہوں۔

ایک دفعہ ایک سائل آیا، حضور ﷺ کے پاس کچھ موجود نہ تھا، گھر میں پیغام بھیجا کہ کچھ ہو تو اسے دے دو۔ جواب آیا کہ صرف تھوڑا سا آٹا ہے جو رات کیلئے رکھا ہے۔ کہلا بھیجا کہ سائل کو دے دو یہ بھوکا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے وہ آٹا سائل کو دے دیا اور خود ساری رات فاقہ میں بسر کی۔ایک اور موقع پر ایک حاجت مند آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اتفاقاً اس وقت بھی آپ ﷺ کے پاس کچھ موجود نہ تھا۔ آپ ﷺنے ایک شخص سے نصف وسق غلہ قرض لیا اور اسے دے دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد قرض خواہ تقاضا کرنے لگا تو آپ ﷺ نے اسے ایک وسق عطا فرمایا اور کہا کہ آدھا قرض ہے اور آدھا عطاء۔ 

حضور ﷺکے جود و سخا کا یہ عالم زمانہ نبوت کے ساتھ ہی مختص نہ تھا بلکہ قبل از بعثت بھی آپ ﷺ ایسے ہی سخاوت فرمایا کرتے تھے اور جو کچھ کماتے تھے وہ سب غرباء و مساکین میں تقسیم فرما دیا کرتے تھے۔ ورقہ بن نوفل کہتے ہیں کہ قبل از نبوت آپ ﷺکی کمائی اور دولت صرف اپنے ہی لیے نہ ہوا کرتی تھی بلکہ محتاجوں اور مفلسوں اور تہی دستوں کیلئے کمایا کرتے تھے۔حضرت معوذ بن عفراؓ   کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ ایک طباق میں کچھ تازہ کھجوریں اور چند چھوٹے چھوٹے روئیں دار کھیرے بطور ہدیہ کے حضور ﷺ کی خدمت میں لے کر پیش ہوا تو آپ ﷺ نے واپسی پر ایک تھیلہ درہم و دینار کا بھر کر عطا فرمایا جس میں کچھ زیور بھی شامل تھے۔اس سے معلوم ہوا کہ آپﷺ کی سخاوت و سماحت صرف مساکین اور سائلین پر ہی موقوف نہ تھی بلکہ دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ بھی یہی حال تھا۔ جسے آپ ﷺ ذرا نرم حالت میں دیکھتے کسی نہ کسی طریقہ سے اس کی معاونت فرما دیتے۔

حضرت عمر بن خطابؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میری حالت کچھ نرم ہو گئی۔ حضورنبی کریم ﷺ نے مجھے کچھ دینا چاہا۔ میں نے عرض کیا کہ مجھ سے زیادہ محتاجوں کو دیجئے۔آپ ﷺنے فرمایا تم اسے لے کر رکھ لو اور جہاں چاہے خرچ کر دو، جو چیز بغیر طلب کے آئے اسے لے لینا چاہیے اور جو نہ آئے اس کے پیچھے نہ پڑنا چاہیے۔ایک دفعہ آپ ﷺ کی خدمت میں نوے ہزار درہم لائے گئے اور ایک بوری پر ڈال دیئے گئے۔ آپ ﷺ نے انہیں صحابہ کرامؓ میں تقسیم فرمانا شروع کر دیا۔ جس نے سوال کیا اس کو بھی دے دیا اور جس نے انکار کیا اس کو بھی دیا۔ یہاں تک کہ آپﷺ اس کی تقسیم سے فارغ ہو گئے اور آپ ﷺ کے پاس ان میں سے ایک درہم بھی باقی نہ رہا۔

نبی کریم ﷺ نے اپنی اُمت کو سوال کرنے سے منع فرمایا ہے۔مشکوٰۃ شریف میں ہے کہ ’’جو شخص مال جمع کرنے کیلئے لوگوں سے مانگتا پھرتا ہے گویا وہ آگ کی چنگاریاں مانگتا ہے چاہے اسے کم ملے یا زیادہ‘‘،پھر فرمایا کہ: (ترجمہ) ’’جس شخص کے پاس حسب حاجت کچھ ہو پھر باوجود اس کے سوال کرتا ہے تو گویا وہ آگ جمع کرتا ہے‘‘۔ اس لیے یہ ضرور دیکھ لیں، کہ کہاں دے رہے ہیں؟ اگر مستحق کو دیں گے تو یقینا اجر پائیں گے کیونکہ سخاوت کے ساتھ انسداد گداگری بھی تو ہمارے فرائض میں داخل ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

فردمعاشرہ اور اخلاق نبویﷺ

’’ (اے حبیب) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے آپﷺ لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں، اگر آپ سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ جاتے‘‘(الانعام:159)حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں، رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کیلئے نرم خو ہو‘‘(مشکوٰۃ المصابیح:3263)

حضورﷺ کا عفوودرگزر

رسول اکرمﷺ نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپﷺ اس کا انتقام لیتے تھے (ابو داؤد)

مسائل اور ان کا حل

سجدہ کی تسبیحات چھوٹنے سے نماز پر اثر سوا ل :سجدہ میں اگر تسبیحات چھوٹ جائیں تو کیا اس سے نماز پر اثر پڑتا ہے اور سجدہ سہو کرنا ہو گا؟جواب : سجدہ کی تسبیحات سنت ہیں، ان کے پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے تاہم ان کے چھوٹ جانے کی صورت میں سجدہ سہو لازم نہیں۔

آئینی بحران سنگین ہو گیا؟

پاکستان میں بڑا آئینی بحران پیدا ہو چکا ہے جو آنے و الے دنوں میں سیاسی عدم استحکام میں اضافے کی خبر دے رہا ہے۔ کشیدگی صرف ریاست کے ستونوں کے درمیان ہی نہیں عدلیہ کے اندر بھی اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔

وائس چانسلرز کی تقرریوں کا عمل ایشو کیوں بنا؟

سپریم کورٹ کی طرف سے مخصوص نشستوں کے تفصیلی فیصلہ کے بعد عدالت عظمیٰ اور حکومت ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہیں اور خاص طور پر عدالت عظمیٰ کی جانب سے 8فروری کے انتخابات کو غیر منصفانہ قرار دینے اور الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکامی کے سوال پر حکومت میں پریشانی ہے ۔

بلاول بھٹو کی سالگرہ اور سندھ کی سیاست

21 ستمبر کوسندھ سمیت ملک بھر میں پیپلز پارٹی نے اپنے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی سالگرہ منائی۔اللہ کے فضل سے انہوں نے زندگی کی 36 بہاریں دیکھ لی ہیں۔ بلاول ہاؤس کراچی میں تقریب ہوئی جہاں بلاول بھٹو نے آصفہ بھٹو اور فریال تالپور کے ہمراہ کیک کاٹا۔