سندھ،مسائل اور سیاست

تحریر : طلحہ ہاشمی


پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت سے رفاقت و رقابت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ چند روز قبل بلاول بھٹو زرداری نے ایک اور شکوہ کرڈالا وہ یہ کہ وفاق کی طرف سے سندھ سے سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے اور اسے اپنے حصے کے وسائل نہیں ملتے اور وسائل کی تقسیم بھی غیرمنصفانہ رہی ہے۔

 جبکہ پیپلز پارٹی کراچی سمیت پورے صوبے کی ترقی کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے یہ گفتگو کراچی میں قیوم آباد سے شاہ فیصل ملیر تک ایکسپریس وے کا افتتاح کرتے ہوئے کی، جس کا نام ذوالفقار علی بھٹو ایکسپریس وے رکھا گیا ہے۔ انہوں نے شہر کو دیے گئے بڑے بڑے منصوبے بھی گنوائے جن میں سٹیل ملز سرفہرست ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ صدر زرداری نے شہر کو جتنے وسائل دیے کسی نے نہیں دیے، اس بارے میں مصطفی کمال سے بھی سند لی جاسکتی ہے۔ ایک اور اہم نکتہ انہوںنے یہ بیان کیا کہ شہر کے مسائل کے حل کے لیے پرائیویٹ سیکٹر سے مل کر کام کرنا ہوگا اور مسائل کا حل پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت نکالا جائے گا۔ انہوں نے تاجروں کو سندھ کے منصوبوں کا حصہ بننے کی پیشکش کی۔ بلاول بھٹو زرداری نے شہر میں پانی کی قلت کا اعتراف کیا اور کہا کہ میئر اور وزیر بلدیات کو اس سلسلے میں کام کرنا چاہیے۔یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ مسائل حل ہوں یا نہ ہوں کم از کم صوبائی حکومت کو صوبے کے مسائل کا ادراک تو ہے۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ بھی تقریب میں موجود تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں موٹر ویز بن چکے ہیں، نہیں بنا تو اب تک حیدرآباد، سکھر موٹر وے نہیں بن پایا،جسے بنانا وفاق کی ذمہ داری ہے۔ ایکسپریس وے کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ پہلے فیز کا افتتاح ہو رہا ہے، یہ منصوبہ شہید بے نظیر بھٹو کے کراچی پیکیج کا حصہ تھا جو انہوں نے تیس سال قبل دیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ منصوبہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت بن رہا ہے البتہ میڈیا رپورٹس کے مطابق منصوبے کا جلد بازی میں افتتاح کیا گیا ہے اس کا ایک حصہ ابھی تک مکمل نہیں ہوا اور کئی مقامات پر کام جاری نظر آیا۔ سائن بورڈز کی تنصیب بھی نہیں ہوئی۔ سڑک پر تیز رفتار موٹرسائیکل سوار اور پیدل افراد بھی نظر آئے۔ غیرمحفوظ طریقے سے سڑک پار بھی کی جارہی تھی۔ امید ہے کہ حکومت ان باتوں پر توجہ دے گی اور منصوبے کی خامیوں کو جلد دور کیا جائے گا۔

سڑکوں کی بات کریں تو گزشتہ روز میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے یونیورسٹی روڈ پر ریڈ لائن منصوبے سے عوام کو پہنچنے والی تکالیف کو تسلیم کیا اور کہا کہ منصوبے کی تکمیل میں مزید دو سال لگیں گے، یہ تو واضح ہے کہ تعمیرات کے دوران کچھ نہ کچھ پریشانی کا سامنا کرنا ہوتا ہے لیکن یونیورسٹی روڈ کا جو حال ہے الامان والحفیظ، گاڑیاں گزرنے کے لیے انتہائی پتلی سی سڑک نما پگڈنڈی رہ گئی ہے جو جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ساتھ ہی متعدد جگہوں پر تجاوزات بھی موجود ہیں۔ میئر صاحب کو یقین نہ آئے تو ایک بار کسی عام گاڑی میں بیٹھ کر خاموشی سے سفر کریں انہیں صورتحال کا اندازہ ہوجائے گا۔ میئر صاحب اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ سڑک سے تجاوزات ہٹوا دیں، گاڑیاں پارک نہ ہونے دیں، باقی ماندہ سڑک کو کچھ بہتر کرادیں تاکہ عوام گزر تو سکیں، گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسے نہ رہیں۔ 

دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالنے کا وفاقی منصوبہ بھی صوبے کی سیاسی جماعتوں کو ہضم نہیں ہورہا ۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا سندھ بچاؤ بیداری مارچ جاری ہے۔ عمرکوٹ میں خطاب کے دوران جی ڈی اے سندھ کے صدر پیر صدر الدین شاہ راشدی نے کہا کہ سندھ کے عوام نے نہریں نکالنے کو مسترد کردیا ہے۔ جی ڈی اے کے جنرل سیکرٹری صفدر عباسی بولے سندھ کی معیشت کا دارومدارزراعت پر ہے، اب صوبے کی زراعت خطرے میں ہے۔ دوسری طرف وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے ردعمل میں کہا کہ نئی نہریں نکالنے پر کوئی پابندی نہیں ہے، جو صوبہ چاہے اپنے حصے کے پانی سے ایک نہیں کئی نہریں بنا سکتا ہے۔ 1991ء کا معاہدہ موجود ہے، جس میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا فارمولا طے ہے پھر بھی کسی شکایت کی صورت میں متعلقہ فورم موجود ہے جہاں بات چیت کی جاسکتی ہے اور ابہام کو دور کیا جاسکتا ہے۔ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ صوبے میں بچوں کی شرح اموات میں کمی آئی ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان فرانسسکو کے تحت صحت کے امریکی ادارے Acute Lung Injury and Sepsis Investigators (PALISI)نے سندھ کے سرکاری ہسپتالوں میں بچوں کی شرح اموات کم ترین سطح پر ہونے کی رپورٹ جاری کی ہے۔ اس سلسلے میں منعقدہ تقریب سے خطاب میں چیئرمین پیپلز پارٹی نے صوبائی حکومت کو خراج تحسین پیش کیا۔ دوسری طرف سندھ کے سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیر ِنو کے کاموں میں سنگین خامیوں کا انکشاف ہوا ہے۔انسانی حقوق کے کارکنوں کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے 2022ء کے متاثرین کی حالتِ زار پر رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق متاثرین کو بجلی، پانی یا خوراک سمیت دیگر بنیادی سہولتوں تک سے محروم رکھا گیا۔ ان کے نقصانات کا بھی ازالہ نہیں ہوا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ متاثرین کو ایک کمرے کا ماڈل گھر دیا جارہا ہے، اس میں باورچی خانہ اور غسل خانہ تک نہیں۔ یہ کمرہ یا کمرہ نما گھر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات بھی برداشت نہیں کرسکے گا۔ اگر واقعی ایسا ہے تو حکومت کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ گھر دیا جارہا ہے تو بنیادی ضروریات تو فراہم کی جائیں اور اگر یہ رپورٹ ٹھیک نہیں تو پھرحکومت کو ٹھوس شواہد کے ساتھ اپنی رپورٹ جاری کر کے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا چاہیے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

ملٹری ڈائٹ اپنائیں، وزن گھٹائیں

سمارٹ بننے اور دبلا نظر آنے کا جنون آج کل ہر کسی کے سر پر سوار ہے۔ بالخصوص خواتین جاذب نظر دکھائی دینے اور نت نئے فیشن اپنانے کی خاطر دبلا نظر آنے کے خبط میں مبتلا ہیں۔ ایک طرح سے یہ بری بات نہیں کیونکہ موٹاپا کئی بیماریوں کی جڑ اور خوبصورتی کو ختم کر دیتا ہے لیکن اس رجحان کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دبلا نظر آنے کیلئے اکثر لوگ ڈائیٹنگ کا سہارا لیتے اور یہ جانے بغیر کہ ڈائیٹنگ کے نقصانات کیا ہیں۔ کس حد تک ڈائیٹنگ کی جانی چاہیں۔ محض ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ڈائیٹنگ کو معمول بنا لیتے ہیں اور پھر بھی نتائج حسب منشا حاصل نہیں کر پاتے۔

فریج کی دیکھ بھال ضروری

فریج کچن کا ایک ضروری حصہ بن چکا ہے اور کچن میں ہونے والے کاموں میں اس کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے فریج کی ضروری دیکھ بھال اور اس کے استعمال کے طریقے جاننا بھی بڑا ضروری ہے تاکہ کچن میں آپ کا یہ مددگار ہمیشہ آپ کا ساتھ دیتا رہے۔ فریج کو تھرمامیٹر کے ذریعے اکثر و بیشتر چیک کرتے رہنا چاہئے۔ اس طرح آپ کو فریج کی کارکردگی اور اس میں پیدا ہونے والی خرابیوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی رہیں گی۔

رہنمائے گھرداری ڈارک سرکل

اکثر لڑکیاں اپنی آنکھوں کے گرد پڑنے والے ڈارک سرکلز کی وجہ سے بہت پریشان رہتی ہیں۔انہوں سب سے پہلے تو یہی کہوں گی کہ وہ اپنی نیند پوری کریں، یعنی پورے 8 گھنٹے کی نیند لیں۔ سوچیں کم اوراپنی غذا کا دھیان رکھیں۔ پھل اور سبزیوں کا استعمال زیادہ کریں، کھیرا زیادہ کھائیں، ناریل کا پانی پئیں۔ ایک ٹوٹکا بتا رہی ہوں وہ استعمال کریں اللہ نے چاہا تو فرق پڑے گا۔

آج کا پکوان: کھٹی مچھلی

اجزاء: مچھلی آدھا کلو، سرخ مرچ ایک چمچ، نمک ایک چائے کا چمچ، اجوائن ایک چائے کا چمچ، امچور ایک چائے کا چمچ، آئل ڈیڑھ پیالی، لہسن ایک گٹھی۔

اسماعیل میرٹھی بڑوں کی باتیں بچوں کے لہجے میں کرنے والے

انہیں محض بچوں کا شاعر سمجھنا ادبی اور تاریخی غلطی ہے جس کی اصلاح ہونی چاہئے اسماعیل میرٹھی کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کا یہ عالم ہے کہ لاکھوں کروڑوں نوخیز ذہنوں کی آبیاری میں ان کی کتابوں سے مدد ملی

سوء ادب :حفیظ جالندھری ؔ

ایک بار حفیظ صاحب کی طبیعت ناساز ہو گئی تو وہ اپنے فیملی ڈاکٹر کے پاس گئے جس نے اْن کا تفصیلی معائنہ کیا اور بولے ’’حفیظ صاحب آپ کچھ دن کے لیے ذہنی کام بالکل ترک کر دیں‘‘۔ جس پر حفیظ صاحب بولے ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے ، میں تو آج کل میں اپنی نئی کتاب لکھ رہا ہوں‘‘۔’’وہ بے شک لکھتے رہیے‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا۔٭٭٭٭