آج 15ویں برسی انیس ناگی ہشت پہلو تخلیقی شخصیت
انیس ناگی کی ذاتی صورتحال اور ان کے ادبی پس منظر کا ان کی شاعری سے گہرا تعلق ہے‘ان کی شاعری میں بہت سے تغیرات نمودار ہوئے جو علامت پسندی سے بیان محض کی صورت تک جا پہنچے
اردو ادب کی دنیا میں انیس ناگی کسی سلطنت کے شہنشاہ کی طرح اپنی جداگانہ شناخت رکھتے ہیں، ان کا ادبی محاذ بہت کشادہ ہے، ان کی ہشت پہلو تخلیقی شخصیت ان گنت تجربے کرتی چلی گئی ، لسانیات، نفسیات، ثقافت، تاریخ، مذہب، معیشت اور عمرانیات کے ساتھ ساتھ عصری ادب کے مستقل مطالعے نے ان کی تحریروں کو زمان و مکاں کے تسلسل میں اس طرح پرودیا ہے کہ ان کے موضوعات نفی و اثبات کا گنگا جمنی منظر نامہ بن گئے ہیں۔
انیس ناگی کی تحریریں شعور کی رو کے دائرے سے نکل کر ایک تاریخی تسلسل کا حصہ بن گئی ہیں اوریقیناً دانشور وہی ہوتا ہے جو تصورات اور صورتحال تخلیق کرتا ہے، جو پرانے تجربے کو نئے استفسارات کی رفاقت عطا کرتا ہے، جو طبقاتی غیر جانبداری اور عصری حساسیت کے امتزاج سے نئے حقائق اور واقعات کی پرداخت کا بیڑا اٹھاتا ہے اور پھر اس کا مضطرب وجود اپنی لامتناہی تنہائی کو اپنے مقاصد کی طاقت عطا کرتے ہوئے اس جدلیاتی ادب کا راستہ طے کرتا ہے جہاں مستحکم دانش منافقت کے ہر منظر پر خط تنسیخ پھیرتی چلی جاتی ہے۔
انیس ناگی کی نظم نگاری کی بات کی جائے تو وہ ہمیشہ سے تعمیر، انہدام اور از سر نو تشکیل کے عمل میں مصروف رہے ۔ شعوری اضطراب اور اپنے تجربات کو نئے سرے سے نئے پیمانوں میں ڈھالنے کا شوق جس قدر ہمیں انیس ناگی کے ہاں نظر آتا ہے اس کی دوسری باقاعدہ مثال مشکل سے ملے گی چنانچہ یہ کاروان وجود جو کہیں ٹھہرنے کا خطرہ مول نہیں لیتا نئی شانِ وجود کے ساتھ ظہور پذیر ہوتا ہے۔
’’بیگانگی کی نظمیں‘‘ انیس ناگی کی نظموں کی کلیات ہے۔ اس سے پہلے’’ زرد آسمان‘‘ اور’’ ایک اور آسمان‘‘ کے تحت دو کلیات دو مرتبہ شائع ہوئے جن میں اپنے اپنے زمانے کے شعری مجموعوں کو اکٹھا کیا گیا۔ چالیس برسوں میں انہوں نے جو کچھ منظوم کیا ہے اسے ’’بیگانگی کی نظمیں‘‘ میں یکجا کیا ۔ اس میں تکرار بھی ہے اور تغیر بھی کیونکہ یہ خاص ہلکی اور تمدنی صورتحال کا نتیجہ ہیں۔چنانچہ وہ انہیں صورتحال کی نظمیں کہتے تھے۔
انیس ناگی نے اپنی اس کلیات کے دیباچے میں لکھا کہ اس کی تمام منظومات آزاد نظم اور نثری نظم کے پیکروں میں لکھی گئی ہیں۔ وہ چاہتے تو بآسانی غزل کہہ سکتے تھے جس سے انہوں نے دانستہ اجتناب کیا کیونکہ ان کے نزدیک غزل کی معنویت کا امکان ختم ہو چکا تھا۔ نئی دنیا اُن سے نئے ادراک اور نئے شعور کا مطالبہ کرتی ہے کیونکہ جذباتی اور ذہنی تجزیوں کے ساتھ ساتھ زبان نے بھی تبدیلی کے عمل میں پناہ ڈھونڈی ہے۔1960ء کی نئی شاعری کی تحریک نے اس زمانی بُعد کو دور کرکے ادب اور زندگی میں نیا تعلق پیدا کرنے کی کوشش کی ۔
انیس ناگی کی ذاتی صورتحال اور ان کے ادبی پس منظر کا ان کی شاعری سے گہرا تعلق ہے۔ انہوںنے نئی شاعری کے لئے نظریہ سازی کی، غیر ملکی شاعری کے بہت سے تراجم کئے۔ اس مساعی کی غایت نئے شعری مزاج کو روشناس کرانا تھا۔ ان کی شاعری میں بہت سے تغیرات نمودار ہوئے جو علامت پسندی سے شروع ہو کر بیان محض کی صورت تک جا پہنچے۔ شاعری بیک وقت ایک پرسنل اور کلچرل ہسٹری ہوتی ہے جس میں جھوٹ اور بناوٹ کی گنجائش نہیں۔ ان پر مغرب زدگی کی بھی تہمت لگائی گئی ۔وہ اسے تسلیم کرتے تھے کہ انہیںراں بونے اختلالِ حواس کے ذریعے نئی جہتیں تلاش کرنے اور زبان کی توڑ پھوڑ کرنے کا طریقہ بتایا، سینٹ جان پرس نے انہیں شکوہ، زبان سازی اور ایک عالمی سطح پر شاعری کرنے کا درس دیا اور سب سے آخر میں پابلونرودانے نے عام زندگی کے معمولات سے بڑی شاعری اور کائنات کے عناصر کو انسانی احساس سے متصف کرنے کا گُر بتایا۔ ان شعراء کے اسالیب ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن ان کی ذات میں سے گزرتے ہوئے ان کی شکلیں بدلتے بدلتے ایک اور رخ اختیار کر گئیں۔ یہ دنیا ایک ایمپریکل تجربہ ہے اسے وہ صرف اپنی آنکھ سے دیکھنا چاہتے تھے۔
تنقید کی بات کی جائے توانیس ناگی کی تنقیدی فہرست میں جن ناولوں یا ناول نگاروں نے جگہ پائی ہے ان میں سب سے پہلا نام
’’تو بۃالنصوح ‘‘اور ’’ابن الوقت ‘‘کے خالق مولوی نذیر احمد کا ہے، دوسرا نام مرزا ہادی رسواکا ہے جنہوں نے متعدد ناول لکھے لیکن شہرت’’ امرائو جان ادا ‘‘کے حصے میں آئی۔ اس ناول کے بارے میں انیس ناگی کی رائے ہے۔
’’ اگرچہ اردو میں معیاری ناولوں کا فقدان ہے اور دن بدن ان کی تخلیق بھی کم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ ناول لکھنا کلر کی کرنے کے مترادف ہے، بے شمار صفحات کی تحریر، کرداروں کا دھیان رکھنا، پلاٹ کی چولیں کسنا وغیرہ مشکل کام ہے، تاہم اردو میں خال خال ایسے ناول مل جاتے ہیں جو اردو میں ناول کی پختگی اور اس کے بہتر امکان کی نشاندہی کرتے ہیں‘‘۔انیس ناگی کی یہ رائے ’’ گردشِ رنگ چمن‘‘ تک آتے آتے اس طرح تبدیل ہوئی ہے۔’’گردش رنگ چمن ایک اکتا دینے والا ناول ہے اس میں معاشرتی زندگی کی جو تفاصیل پیش کی گئی ہیں ان سے صرف اہل لکھنو ہی لطف اندوز ہو سکتے ہیں‘‘۔
دیگر عصری ناول نگاروں میں انیس ناگی نے انور سجاد، انتظار حسین، عبداللہ حسین، مستنصر حسین تارڑ اور ممتاز مفتی کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔ ان سب ناول نگاروں کے بارے میں انیس ناگی کی آراء عام قارئین سے قدرے مختلف ہیں۔
انیس ناگی کی افسانہ نگاری کی بات کی جائے تو’’حکایات‘‘ کا تذکرہ لازم ہے۔افسانوں کا یہ مجموعہ انیس ناگی کے اس نظریے کی جانب اشارہ دیتا ہے جب 1960ء کی دہائی میں نئی شاعری کی طرح نئے افسانے کی بھی اصطلاح استعمال کی گئی، ان افسانوں کو انحرافی، تجرباتی اور کثیر المعانی تحریر کے طور پر متعارف کرایا گیا، اس فہرست میں انتظار حسین، انور سجاد، سمیع آ ہو جا، احمد ہمیش، ذکاء الرحمن، منشایاد، مظہر الاسلام، رشید امجد، خالدہ حسین، احمد دائود، اعجاز راہی اور دوسرے افسانہ نویس شامل تھے۔ اپنی دیگر ادبی مصروفیات کے مقابلے میں انیس ناگی افسانے کی جانب ذرا دیر سے متوجہ ہوئے اور کوشش کی متذکرہ افسانہ نگاروں کی موجودگی میں افسانے کو نئے عصری تقاضوں اور عصری حسیت سے متعارف کرائیں۔1976ء کے قریب وہ اس صنف کی جانب سنجیدگی سے بڑھے اور 1982ء میں حکایات کے عنوان سے پہلا مجموع شائع ہوا۔
’’وقت کی کہانیاں‘‘ اور’’ گردش ‘‘کے مختلف مجموعوں کو ازاں بعد انیس ناگی کے افسانوں کے کلیات ’’ بدگمانیاں‘‘ میں جمع کردیا ۔ اس کی چھبیس کہانیوں میں سے پہلی دس کہانیاں حکایات سے تعلق رکھتی ہیں اور دیگر دوسرے دو مجموعوں سے۔ ان افسانوں کے کردار زیادہ تر خوف اور اضطراب کا شکار ہیں، ان میں سے بیشتر کا تعلق دفتری زندگی سے ہے اور یہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اقتصادی مسائل کا شکار ہیں، زیادہ تر افسانوں میں بیورو کریسی اور دفتری نظام پر گہری تنقید کی گئی ہے۔
انیس ناگی نے جو تراجم کئے ان میں پہلی کتاب البیرکامیوکی سیفس کی کہانی ہے، یہ ایک فلسفیانہ کتاب ہے جو وجودیت اور لایعنیت کے تصور کو دلچسپی سے بیان کرتی چلی جاتی ہے۔ یہ ترجمہ 1977ء میں اشاعت پذیر ہوا، اس کا ایک ایڈیشن اردو سائنس بورڈ نے بھی شائع کیا۔ یہ ترجمہ فرانسیسی سے کیا گیا ہے۔
’’تنقید شعر‘‘ بھی ان کی اہم کتاب ہے۔انہوں نے نے کتاب کے دوسرے ایڈیشن شائع شدہ1968ء کے پیش لفظ میں لکھا۔
’’شاعری سے لطف اندوز ہونے کیلئے جذباتی تربیت ایک اہم شرط ہے۔ شاعری کی تحسین میں ’’ آہ‘‘ اور ’’ واہ‘‘ کا تنقیدی اسلوب فرسودہ ہو چکا ہے۔ تخیلاتی ادب اور بالخصوص شاعری سے لطف اندوز ہونے اور اس کی معنویت کو سمجھنے کیلئے تجزیاتی طریق فکر کی ضرورت ہے۔ شاعری کے اجزائے ترکیبی اور تخلیقی عمل کو سمجھنے کی خواہش نے مجھے ’’ تنقید شعر‘‘ کی تخلیق پر مجبور کیا‘‘۔
کتاب میں شاعری کے مختلف نظریات، شاعرانہ خیال، شاعرانہ تجربے، شاعرانہ ہیئت، لفظ، شعر، متخیلہ، شاعرانہ آہنگ، استعارہ، علامت اور تنقیدی شعر کے موضوعات بیان کئے گئے ہیں۔ مبادیات شعر کے اس مطالعے سے متعلق ڈاکٹر سید عبداللہ کی رائے ہے:
’’ یہ مضامین بظاہر تدریسی ضرورتوں کے تحت لکھے گئے معلوم ہوتے ہیں مگر ان میں شعر و شاعری کی دریافت، ساخت اور دریافت کے سلسلے میں معلومات اس طرح پیش کی گئی ہیں کہ قارئین بھی ان کو مفید پائیں گے۔ انیس ناگی کا قلم ان مضامین میں محتاط ہو کر چلا ہے تاکہ قارئین قطعی تصورات کو اخذ کر لیں۔ اعتدال و احتیاط کی اس خوبی کے باعث مجموعے کی افادیت یقینی ہو گئی ہے‘‘۔
شاعری کے مختلف نظریات کے باب میں ارسطو کے استاد افلاطون سے لے کر فرائیڈ کی تحلیل نفسی تک نہایت آسان زبان میں ایک محاکمہ موجود ہے ۔آخری مضمون میںلکھتے ہیں۔
’’شاعری کی فنی تنقیدی شعری و اردات کو مخصوص انداز سے پرکھنے کا ایک انداز ہے، بعض حالتوں میں تمام قیود کو قبول کرتے ہوئے بھی اس سے باہر نکل جاتی ہے، شاعری کی تنقید کے مختلف منصب ہیں، کبھی یہ شعری تصورات سے بحث کرتی ہے۔ کبھی فنی محاسن و معائب کا جائزہ لیتی ہے اور کبھی شعری ذوق کی اصلاح کی ذمہ داری قبول کرتی ہے، ان تمام مراحل کی غرض و غایت شاعری کا افہام ہوتا ہے اور اس کو ایک تخلیقی فعلیت کے طور پر مان کر اس کی انسانی زندگی میں قدرو قیمت کو متعین کرنا ہوتا ہے۔
انیس ناگی کے فن کی بات کی جائے تو اس کے لئے متعدد کتب درکار ہوں گی تاہم اختتام پہ اتنا ضرور بتانا چاہیں گے کہ وہ 10ستمبر 1939کو شیخوپورہ میں مولوی ابراہیم ناگی کے گھر پیدا ہوئے۔ان کاخاندانی نام یعقوب علی ناگی اور قلمی نام انیس ناگی تھا۔ ان کا انتقال7 اکتوبر2010 کو ہوا۔