کراچی والوں کا سوال تو بنتا ہے !

تحریر : طلحہ ہاشمی


حکومت پنجاب اور پیپلز پارٹی کی جملے بازی جلد ہی کسی نہ کسی کروٹ بیٹھ جائے گی۔ صدرمملکت آصف زرداری، وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی اور مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنما سرگرم ہوچکے ہیں۔ مریم نواز معافی مانگنے سے انکار کرچکی ہیں، بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے،اور تنقید کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کی جانب سے معافی کا مطالبہ برقرار ہے۔

 یہ تو طے ہے کہ حالات بدتر صورتحال کی طرف جانے سے روک دیے جائیں گے۔ دل صاف ہوں یا نہ ہوں زبانیں خاموش ہوجائیں گی، لیکن چند جملے ایسے ہیں جنہوں نے سندھ کے عوام کو رنجیدہ کردیا ہے ۔یہ جملے وزیر اعلیٰ مریم نواز اور وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کے ہیں۔ بقول مریم نواز، اگر کسی صوبے کی سڑکیں خراب ہیں، سفر کے لیے آرام دہ بسیں نہیں، روزگار نہیں ملتا تو عوام کو اپنے حکمرانوں سے سوال کرنا چاہیے، انہیں پوچھنا چاہیے، جو چیز عوام کا حق ہے وہ انہیںدہلیز پر ملنی چاہیے۔پنجاب کی وزیر اطلاعات بھی کہہ چکی ہیں کہ سندھ حکومت اپنے طویل دور کے 17منصوبے پیش کردے، مریم نواز تو 50منصوبے مکمل کرچکی ہیں اور درجنوں جلد مکمل ہونے والے ہیں۔ جملے سخت لیکن جواب طلب تو ہیں، سندھ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر اپنے منصوبوں کی تفصیل عوام کے سامنے رکھے۔ سندھ کے عوام بھی چاہتے ہیں کہ وہ بھی ملک میں سر اٹھا کر چلیں اور بتا سکیں کہ ان کی حکومت خدمت میں پنجاب سے پیچھے نہیں۔ عوام چاہتے ہیں کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔

سندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن کا بھی بڑا اعلان سامنے آگیا ہے کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے ہوں گے، پوائنٹ سسٹم بھی نافذ ہوگا جس کے مطابق مقررہ حد سے زیادہ رفتار، اشارہ توڑنے، غلط سمت میں گاڑی چلانے، اوورلوڈنگ اور بغیر لائسنس ڈرائیونگ سمیت دیگر خلاف ورزیوں پر سخت کارروائی ہوگی۔ اوور سپیڈنگ کی تو موٹرسائیکل پر پانچ ہزار، کار پر 15ہزار، ہیوی ٹرانسپورٹ پر 20 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔اس کے علاوہ 8ڈی میرٹ پوائنٹس بھی ملیں گے۔ بغیر ڈرائیونگ لائسنس گاڑی چلانے پر 50 ہزار روپے تک جرمانہ ہوگا، لاپروا ڈرائیونگ پر 25 ہزار روپے اور 8 ڈی میرٹ پوائنٹس لگیں گے۔ ہیلمٹ کا نہ ہونا، ون ویلنگ، غلط لین میں گاڑی چلانا وغیرہ بھی قابلِ سزا جرم ہوگا۔ شرجیل میمن کے مطابق ڈی میرٹ پوائنٹس سسٹم بار بار خلاف ورزی کرنے والوں کا ریکارڈ رکھنے میں مدد دے گا۔ یہ نظام ترقی یافتہ ممالک میں کامیابی سے چل رہا ہے۔

 دوسری طرف حکومت نے موٹروہیکل آرڈیننس جاری کردیا ہے جس کے بعد یہ نظام نافذ ہوگیا ہے، جبکہ عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اورکہا کہ مہنگائی نے پہلے ہی جینا دوبھر کردیا، بجلی ، گیس کے بل، مہنگا پٹرول پہلے ہی پریشانی کا باعث ہے جرمانے کہاں سے بھریں گے؟ بعض لوگوں نے تو یہاں تک کہا کہ ٹریفک جرمانوں کا نام نہاد نظام کراچی کے عوام کو لوٹنے کی منصوبہ بندی ہے اور اگر یہ بات غلط ہے تو حکومت ثابت کرے۔ آج بھی سندھ کے کسی دوسرے شہر چلے جائیں، گاؤں دیہات دیکھ لیں، اکثر گاڑیوں پر نمبر پلیٹ تک نہیں ہوتی، شیشے کالے ہوتے ہیں، اکا دُکا موٹرسائیکل سوار ہی ہیلمٹ میں نظر آئے گا، ٹریفک قوانین کی پابندی کرنے والا خال خال ملے گا۔ سڑکوں کی بات کریں تو کراچی کے متعدد علاقوں میں سڑک نام کی چیز نظر نہیں آتی۔ سڑک پر چلنے والی گاڑیوں کے لیے قوانین تو بنادیے گئے سڑک بھی تو بنا دیں۔ ہر طرف ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اس پر مستزاد سڑک کے ہر موڑ پر ٹریفک پولیس اہلکار جتھوں کی شکل میں کھڑے  نظر آتے ہیں۔ان اہلکاروں کو بیچ سڑک کھڑے ہوکر مسافر اتارنے والی بسیں اور منی بسیں نظر نہیں آتیں، بغیر نمبر پلیٹ بڑی گاڑیاں دکھائی نہیں دیتیں، اگر کوئی نظر آتا ہے تو موٹرسائیکلیں اور نجی گاڑیاں جو آسان ہدف ہوتی ہیں۔ بیچ سڑک کے روکیں، چالان کی پرچی تھمائیں، چالان نہیں چاہیے تو مبینہ طور پر رشوت دو اور آگے بڑھ جاؤ۔ عوام کا کہنا ہے کہ مقصد  ٹریفک کی اصلاح نہیں بلکہ پیسے جمع کرنا ہے۔

اگر واقعی حکومت اصلاح چاہتی ہے تو جرمانے عائد کرنے سے پہلے عوام میں آگاہی مہم چلانی چاہیے جیسا مہذب معاشروں میں ہوتا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ سمیت سب کو تربیت فراہم کی جائے۔ حکومت نے گاڑی لین میں چلانے کی بات کی تو پہلے سڑک پر لین تو بنائیں۔ لوگوں کو یہ تو پتا چلے کہ کون سی گاڑی کون سی لین میں چلے گی۔ عوام سڑک پر روزانہ کی بنیاد پر کس عذاب کا سامنا کرتے ہیں اس پر بھی تو کسی کی نظر ہونی چاہیے۔ قوانین بنا دینے سے کچھ نہیں ہوتا، ان کے نفاذ کی منصوبہ بندی بھی ذمہ داری سے کرنی چاہیے۔ اسی کے ساتھ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر ٹریفک پولیس نے کسی کا ناجائز اور غلط چالان کیا ہے تو عوام کی مدد کو کون آئے گا؟ کیا کوئی ایسا طریقہ کار بھی اس نظام کا حصہ ہے کہ کوئی ٹریفک اہلکار کسی پر ناجائز جرمانہ عائد نہ کرسکے؟ کراچی کے عوام ایک سوال اور بھی اٹھاتے ہیں کہ چالان اور جرمانوں کی مد میں سندھ سے کتنی رقم جمع ہوتی ہے، حکومت گزشتہ ایک سال کا ریکارڈ سامنے لائے تاکہ پتہ چلے کہ کراچی سے کتنا جرمانہ وصول کیا گیا اور صوبے کے باقی حصوں سے جرمانے کی کتنی رقم وصول کی گئی۔ اور اس رقم کو کس کام پر خرچ کیا گیا۔ سوال تو بنتا ہے، جواب کا انتظار ہے!

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔