جھوٹی تعریف ایک زہر

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


’’خوشامد کرنے والوں سے ملو تو اُن کے منہ میں خاک جھونک دیا کرو‘‘(صحیح مسلم ) ’’یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جو شخص اپنے کئے پر خوش ہیں، اور چاہتے ہیں کہ اُن کی تعریف اُن کاموں پر بھی کی جائے، جو اُنہوں نے کئے ہی نہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ وہ عذاب سے بچنے میں کامیاب ہوجائیں گے، اُن کیلئے دردناک سزا (تیار) ہے‘‘ (القران)نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو دوسرے کی مبالغہ آمیز تعریف کرتے سنا تو فرمایا ’’ تم نے اِس کو برباد کردیا‘‘ (صحیح بخاری)

انسانی معاشرت میں خوشامد بظاہر ایک نرم، بے ضرر اور خوش کن رویہ دکھائی دیتی ہے، مگر درحقیقت یہ ایک ایسی خاموش بیماری ہے جو فرد کی شخصیت اور سماج دونوں کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیتی ہے۔ سچی رائے اور اصولی تنقید کے بجائے جب محض ذاتی مفاد، خوف یا لالچ کے تحت کسی کی جھوٹی تعریف کی جائے تو نہ صرف حقائق مسخ ہوتے ہیں بلکہ فیصلوں کی بنیاد بھی کمزور پڑ جاتی ہے۔ خوشامدی رویے اقتدار کے ایوانوں سے لے کر عام زندگی تک ہر سطح پر سچائی کو دبانے اور نااہل کو اہل بنانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں انصاف، میرٹ اور اجتماعی بھلائی کا نظام زوال پذیر ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خوشامد کو محض ایک اخلاقی کمزوری نہیں بلکہ ایک خطرناک سماجی زہر سمجھا جاتاہے۔

خوشامد و چاپلوسی یعنی کسی کے منہ پر اُس کی جھوٹی تعریف بیان کرنا اخلاقی پستی، گراوٹ اور ذلت کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ جھوٹ کی بھی ایک قسم ہے۔ جس شخص کی جھوٹی تعریف کی جاتی ہے اُس کیلئے تو ہلاکت و تباہی کا سامان ہو ہی جاتا ہے، لیکن چاپلوسی کرنے والا شخص خود تین بڑے گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ ایسی تعریف کرتا ہے جو واقع کے مطابق نہیں ہوتی، یہ جھوٹ ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ منہ سے جو تعریف کرتا ہے اُس کو اپنے دل میں خود درُست نہیں سمجھتا، یہ نفاق ہے۔ تیسرے یہ کہ اپنے ذاتی مفاد کی خاطر کسی کی خوشامد کر کے اُس کو فخر و غرور میں مبتلا کرتا ہے۔ یہ امر بالمعروف کے خلاف ہے۔ چنانچہ خوشامد و چاپلوسی اور جھوٹی تعریف سے دوسرے شخص کیلئے تباہی و بربادی کا سامان ہو جاتا ہے اور اُس میں دو برائیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ ایک غرور و تکبر اور دوسرے اپنی نسبت غلط فہمی۔ اپنی تعریف و توصیف سن کر غلط فہمی سے وہ خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے جس سے آگے چل کر فخر و غرور اور ناز و تکبر جیسی برائیاں اُس میں جنم لیتی ہیں اور وہ ’’ہم چو ما دیگرے نیست‘‘ کے مفروضے پر عمل پیرا ہوکر تمام لوگوں کو حقارت و نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اپنے آپ کو سب سے بالا و برتر تصور کرتا ہے۔

زمانۂ قدیم سے دُنیا کے بادشاہوں، حکمرانوں اور اربابِ اقتدار کی یہ عادت اور رسم چلی آرہی ہے کہ اُن کے منہ پر اگر کسی نے ہلکی اور ذرّہ سی بھی سچی اور حق بات اپنے منہ سے اگل دی تو فوراً اُس کی گردن اُڑا کر اسے موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا تھا۔ اگر کسی نے ذرّہ سی بھی اُن کی خوشامد و چاپلوسی اور جھوٹی تعریف کردی تو بادشاہ نے اسے یک جنبش قلم موت کی آغوش سے نکال کر آزاد کردیا۔

قرآنِ مجید و احادیث نبویہؐ میں خاشامد و چاپلوسی اور جھوٹی تعریف کرنے کی بڑی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جو شخص اپنے کئے پر بڑے خوش ہیں، اور چاہتے ہیں کہ اُن کی تعریف اُن کاموں پر بھی کی جائے، جو اُنہوں نے کئے ہی نہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ وہ عذاب سے بچنے میں کامیاب ہوجائیں گے، اُن کیلئے دردناک سزا (تیار) ہے‘‘ (سورہ آلِ عمران: 188)

ان آیات کا شانِ نزول اگر چہ خاص ہے جس میں یہودیوں اور منافقوں کے ایک مخصوص گروہ کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور اُن کے انجام بد کی اُن کو خبر دی گئی ہے، لیکن ان آیات کے عموم میں اُن تمام لوگوں کو مراد لیا گیا ہے جو اپنے بارے میں کسی کے منہ سے خوشامد و چاپلوسی اور جھوٹی تعریف سن کر عجب و خود پسندی کا شکار ہو کر تکبر و شیخی اور غرور وناز میں مبتلا ہوجائے ۔اپنے کئے ہوئے کاموں پر اترانے لگے اور نہ کئے ہوئے کاموں پر ایک مدح و تعریف کو چاہنے لگے کہ یہ ایسے گناہ ہیں کہ جن کی سزا اور عذاب سے بغیر توبہ و استغفار کے بچنا انسان کیلئے بڑا مشکل ہے۔ پھر اِس کا وبال صرف اِس شخص کی حد تک نہیں رہتا بلکہ جس شخص نے خوشامد و چاپلوسی اور جھوٹی تعریف کر کے اِس کو عجب و خود پسندی کا شکار بنا کر تکبر و غرور اور فخر وناز میں مبتلا کیا ہے اُس پر بھی اِس کا وبال پڑتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو دوسرے کی مبالغہ آمیز تعریف کرتے ہوئے سنا تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے اِس کو برباد کردیا۔ (صحیح بخاری2663:)۔اسی طرح ایک اور موقع پر ایک شخص نے دوسرے کی حد سے زیادہ تعریف کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے اپنے ساتھی کی گردن ماردی۔ اگر تم کو کسی کی تعریف ہی کرنی ہو تو یوں کہو کہ میں یہ گمان کرتا ہوں، بشرط یہ کہ اُس کے علم میں وہ واقعی ایسا ہی ہو۔ اور قطعیت کے ساتھ غیب پر حکم نہ لگایا جائے۔ (بخاری:2662، مسلم: 7501 ، 7502 ، ابوداؤد:4805)۔

ایک مرتبہ ایک شخص نے حضرت عثمان بن عفانؓ کے منہ پر اُن کی تعریف بیان کی تو حضرت مقدادؓ نے اُس کے منہ میں خاک جھونک دی اور فرمایا کہ رسولِ اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ خوشامد کرنے والوں سے ملو تو اُن کے منہ میںخاک جھونک دیا کرو (صحیح مسلم : 7505)۔

لہٰذا ہر مسلمان کو اِس بات کا خاص اہتمام کرنا چاہیے کہ وہ کسی کی خوشامد و چاپلوسی اور منہ پر اُس کی جھوٹی تعریف بیان نہ کیا کرے کہ اِس سے خود تو یہ متعدد گناہوں کے ارتکاب کا سبب بنے گا ہی، ساتھ میں جس کی خوشامد و چاپلوسی کی ہے اُس کے گناہوں کی نحوست اور بوجھ بھی اِس پر آکر پڑے گا اور خود اُس شخص کو بھی جس کی خوشامد و چاپلوسی کی گئی ہے، اِس عمل بد سے جنم لینے والے گناہوں کا عذاب بھگتنا پڑے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دہشت گردی آئوٹ، دوستی ناٹ آئوٹ: کرکٹ جیت گئی

پاکستان نے سری لنکا کیخلاف سیریز جیت لی، سہ ملکی سیریز بھی راولپنڈی میں شروع ہوگی

سخاوت کا دریا

سید نا عبداللہ بن جعفررضی اللہ عنہ بڑے معزز اور سخی تھے۔ اللہ کی راہ میں ایسے شخص کی طرح خرچ کرتے جسے فقر و فاقے کا قطعاً خوف نہ ہو۔ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے انہیں اس بات کی بالکل فکر نہیں ہوتی تھی کہ وہ خود تنگ دست ہو جائیں گے۔

بڑا نقصان

سلیم صاحب کے دو بیٹے حماد اور ارمان تھے۔ دونوں ہی بہت شرارتی تھے۔ گھر ہو یا اسکول، ان کی شرارتوں کے چرچے ہر جگہ مشہور تھے۔ ہر وقت شرارتیں ہی سوجھتے اور کرتے رہتے۔

خدایا ! ملے علم کی روشنی

خدایا! ملے علم کی روشنیمنور ہو اس سے مری زندگیچلوں نیک رستے پہ میں عمر بھر

کائنات کتنی بڑی ہے؟

ہمارے سورج کو ملکی وے کہکشاں کے گرد ایک چکر مکمل کرنے میں 25کروڑ سال لگتے ہیں۔ ملکی وے کہکشاں تقریباً 1لاکھ نوری سال چوڑی اور 1ہزار نوری سال موٹی ہے۔

ذرا مسکرائیے

ایک آدمی نوکری کی تلاش میں ایک شخص کے پاس پہنچا۔ اس شخص نے پوچھا: ’’کھانا پکانا جانتے ہو؟‘‘