آ ج14 ویں برسی منشا یاد کہانیوں میں گھرا آدمی

تحریر : سعید واثق


انوکھے، اچھوتے اور فکر انگیز افسانے انہیں بلند مقام پر فائز کرتے ہیں منشا یاد کہتے تھے کہ آدمی جتنا حساس ہو اور جتنا زیادہ سوچے اور محسوس کرے اتنی ہی زیادہ کہانیاں بنتی چلی جاتی ہیں‘زندگی کے معاملات اور تجربوں کو سمجھنے کے لئے کہانی سے بہتر کوئی چیز نہیں۔‘‘

منشا یاد کی مختصر سوانح

منشا یاد 5 ستمبر 1937ء کو فاروق آ باد ضلع شیخوپورہ کے نزدیک گائوں ٹھٹھہ نشتراں(پرانا نام سچا سودا)کے قریب ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔گجیانہ نو میں ابتدائی تعلیم حاصل کی،میٹرک کا امتحان حافظ آ باد سے پاس کیا۔1955ء میں رسول کالج سے انجینئرنگ میں ڈپلومہ کیا۔1964ء میں اردو فاضل کا امتحان بھی پاس کیا۔1972ء میں پنجاب یونیورسٹی سے پنجابی میں ماسٹرز کیا۔ان کی شادی1960ء میں اپنی کزن سے ہوئی اور ان کے ہاں تین بیٹے اور ایک بیٹی کی ولادت ہوئی۔ وہ کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ملازم رہے اور 1997ء میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر ریٹائر ہوئے۔ اصل نام محمد منشاتھا تاہم منشا یاد کے قلمی نام سے لکھنے کا سفر شروع کیا۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ1975ء میں شائع ہوا۔’’بند مٹھی میں جگنو‘‘، ’’ماس اور مٹی‘‘ ، ’’خلا اندر خلا ‘‘ ،’’وقت سمندر‘‘ اور ’’درخت آ دمی‘‘ان کی کہانیوں کے معروف مجموعے ہیں۔ چند کتب کے تراجم بھی کئے۔

انہوں نے متعدد ڈرامے لکھے جن میں ’’جنون‘‘، ’’بندھن‘‘، ’’آواز‘‘ اور’’پورے چاند کی رات‘‘ ان کے مشہور ٹی وی ڈرامے ہیں۔ ان کے پنجابی ناول ’’ٹاواں ٹاواں تارا‘‘ کو  1999ء میں ڈرامہ سیریل میں ڈھالا گیا جو ’’راہیں‘‘ کے نام سے نشر ہوا اور بہت مقبولیت حاصل کی۔حکومت پاکستان نے 2004ء میں تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔ 2006ء میں پنجابی میں بہترین ناول نگاری کا بابا فرید ادبی ایوارڈ دیا گیا۔ 2010ء میں عالمی فروغِ ادب ایوارڈ حاصل کیا۔ منشا یاد 15 اکتوبر 2011ء کو دل کا دورہ پڑنے سے اسلام آباد میں وفات پاگئے اور وہیں تدفین ہوئی۔

 

 محمد منشا یاد کا تعلق انتظار حسین کے بعد کی نسل سے ہے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کے یہاں نئے افسانے کی عمومی فارمولا زدگی سے ایک واضح گریز ملتا ہے۔ انہوں نے حقیقت بیانی اور فینٹسی کے بیچ ایک الگ راہ نکالی جو شہروں سے الگ، چوپال کے قصے کہانیوں کی روایت سے ملتی جلتی ہے۔ لیکن منشا یاد کا بیانیہ فقط سطح پر نہیں گہرائی میں بھی چلتا ہے۔ اس لحاظ سے وہ پچھلوں سے الگ بھی ہیں اور ان سے جڑے ہوئے بھی۔ ان کی کہانیوں میں پنجاب کے قصبوں کی جڑیں پھیلی ہوئی ہیں اور اس زندگی کا بھرا پرُاپن ہے جس میں صدیوں سے چلی آ رہی سادگی اور معصومیت بھی ہے اور زمین سے جڑے ہوئے انسان کی بنیادی خواہشیں اور تضادات بھی۔ منشا یاد اپنے معاصرین میں اس لحاظ سے الگ پہچانے جاتے ہیں کہ انہیں قصباتی کرداروں سے ہم کلامی کا گُر آتا ہے اور باطن میں جھانکنے کا عمل ان کے فن کا حصہ ہے۔ بقول امجد اسلام امجد، انتہائی انوکھی، اچھوتی، فکر انگیز اور شرفِ انسانی کی بحالی کے سوز میں ڈوبی ہوئی کہانیاں انہیں اپنے ہم عصروں میں ہی ممتاز نہیں کرتیں بلکہ اردو افسانے کے پورے تناظر میں بھی ایک بلند مقام پر فائز نظر آتی ہیں۔

1940ء سے 1960ء تک کی دو دہائیوں میں اُردو افسانے نے ایسی حیرت انگیز ترقی کی جس کی نظیر اُس وقت کے عالمی ادب میں کہیں  نظر نہیں آتی، تاہم اردو افسانہ 60 اور70 کی دہائیوں میں پٹری سے اُتر گیا تھا، اس کی بہت سی وجوہات بیان کی جاتی ہیں ،اگر ان سب کو سچ مان لیا جائے تب بھی یہ حقیقت اپنی جگہ قائم رہتی ہے کہ ’’جدیدیت‘‘ کے بخار نے افسانے میں سرسام کی سی کیفیت پیدا کر دی تھی اور ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب یہ مریض بچتا دکھائی نہیں دیتا تھا، ایسے میں جو نوجوان لوگ مسیحا بن کر ابھرے ان میں منشا یاد کا نام سب سے اوپر ہے۔کہانی کاروں کے اس کارواں میں مظہر الاسلام، انجم الحسن رضوی، منیر احمد شیخ، اسد محمد خاں، امرائو طارق، سلطان جمیل نسیم، امر جلیل، طارق محمود، سعید شیخ،نیلو فر اقبال اور عطیہ سید وغیرہ کے نام شامل ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ دو عالمی جنگوں کے بعد یورپ میں آزادی کی تحریکوں اور ان کے حصول کے بعد تیسری دنیا میں انسانی رشتوں کا ایک بالکل نیا اور بہت پیچیدہ جہان آباد ہوا اور اقدار کا ایک ایسا تصور ابھرا جسے پچھلی صدی کا انسان شاید سوچ بھی نہیں سکتا تھا، مگر ادب کا کام حسن  شناس کی طرح ہوا کے رخ پر اڑنا نہیں ہوتا۔ یہاں تو تینوں زمانے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلتے ہیں اور چراغ سے چراغ جلتا ہے، سواچھی کہانی وہی ہوتی ہے جس میں کہانی پن ہو، انسان ہوں، ان کے دکھ درد اور خوشیاں ہوں اور انہیں دنیا کی اس بھیڑ میں کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ پہچانا جا سکے۔یہ رنگ منشا یاد کی کہانی میں ہی ملتا ہے۔

منشا یاد اور ان کے بہت سے ہم عصر علامت نگاروں میں بنیادی فرق یہی ہے وہ علامت کوObsession نہیں بناتے اور اسے اسی قدر استعمال کرتے ہیں جتنی ضرورت ہو۔ان کی کہانیوں میں موضوع اور ہیئت کا یہی خوبصورت توازن ہے جس نے ان کے اسلوب کو انفرادیت عطا کی ہے۔’’ بند مٹھی میں جگنو‘‘ سے ’’ درخت آدمی ‘‘ تک ان کی بہت سی کہانیوں کا اسلوب جدید اور جدید تر ہونے کے باوجود اپنی زمین، ماحول، عوام، حقیقت نگاری اور کہانی پن سے اس طرح روشن اور معطر ہے کہ علامت کہیں بھی آپ کا راستہ نہیں روکتی، کہیں بھی آپ کو گمراہ نہیں کرتی اور کہیں آپ سے پہاڑے نہیں سنتی۔

لکھنے والوں سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ انہوں نے کیسے لکھنا شروع کیا۔ منشا یاد کی بات کی جائے تو جس ماحول اور گھر میں پیدا ہوئے اور ان کا بچپن گزر؟ا یہ ایک بہت ہی غیر معمولی بات تھی لیکن یقیناً اس کی کوئی ایک وجہ نہیں ہوگی۔ یوں تو ان کے لکھنے کی ابتدا تب ہوئی جب وہ اپنے آبائی گائوں سے دُور شہر کے ہائی سکول میں پڑھتے تھے اور اپنی خالہ کے پاس رہتے تھے اور سکول کی بزم ادب میں حصہ لیتے تھے لیکن شعر و ادب سے ان کالگائو بہت پہلے سے تھا، شاید جب سے انہوں نے ہوش سنبھالا تھا۔ والدین زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے، ان کی تعلیم دینی اور مکتبی تھی پھر بھی ان میں کوئی ایسی بات ضرور تھی جس نے منشا یاد کو ادب کی طرف راغب کیا۔ گائوں میں سب سے زیادہ کتابیں انہی کے گھر میں تھیںاور جس گھر میں رات کو دیر تک دیا جلتا رہتا وہ بھی انہی کا گھر تھا۔ گھر میں منظوم قصے اور کتابیں ہوتیں اور باقاعدہ گا کر پڑھی اور ایک دوسرے کو سنائی جاتیں۔ منشا یاد کی والدہ اور پھوپھی گھر کا کام کاج کرتے ہوئے اکثر بارہ ماہوں، دوہڑوں اور سی حرفیوں کے ابیات گنگاتی رہتیں۔ رات کو گھر میں خوب محفل جمتی۔ بلاشبہ ان چیزوں نے انہیں علم و ادب سے بہت رغبت دلائی ہوگی۔

منشا یاد کے والد کو سیف الملوک اور یوسف زلیخا اور تایا جی کو ہیر وارث شاہ پسند تھی۔ تایا جی بہت خوش الحان تھے اور ہیر پڑھنے کے بعض مقابلوں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ وہ ہمہ وقت نئی نئی طرزیں بنا کر مختلف قصے کہانیاں گاتے رہتے۔ ان کی آواز کے عاشقوں اور پرستاروں کی ایک ٹولی ہر وقت ان کو گھیرے رکھتی۔ جب وہ اپنی خوش الحان آواز میں گاتے تو بہت سوں پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی۔ اس طرح انہیں کتابیں اور خصوصاً کہانیاں پڑھنے کا شوق گھر سے ملا اور اس کی تکمیل، جب انہوںنے پانچویں جماعت میں داخلہ لیا، شہر میں آکر ہوئی۔ وہاں کتابیں آسانی سے مل جاتی تھیں۔ سکول اور میونسپل لائبربری میں طرح طرح کے رسالوں سے تعارف ہوا۔ آنہ لائبریری سے کرائے پر ناول مل جاتے۔وہ دوستوں کے ساتھ پیدل سکول جاتے تھے۔ سکول تین چار میل دور تھا۔ وقت گزاری کیلئے باری باری سب دوست ایک دوسرے کو کہانیاں سناتے۔ آخر کار سب کی کہانیاں ختم ہو گئیں مگر ان کی کہانیاںکبھی ختم نہ ہوئیںکیونکہ وہ ضرورت کے مطابق کہانی کو طویل کر دیتے یاتبدیل کر دیتے۔ اپنے پاس سے فوری طور پر نئی کہانی گھڑ لیتے اور اسے ایسے ایسے پیچیدہ راستوں پر لے نکلتے کہ سننے والوں کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ جاتا۔ ایک بار تو ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے شہزادے کو اس برُی طرح پھنسایا کہ اب اسے وہاں سے نکالنے کا کوئی آبرو مندانہ طریقہ خود انہیں بھی نہیں سوجھ رہا تھا۔ اس لئے کہانی کو کل پر ڈال دیا مگر ساتھیوں کی جان پر بنی تھی۔ انہوں نے اصرار کیا کہ ابھی بتائو ’’ پھر کیا ہوا؟‘‘ مگر وہ ضد پر قائم رہے۔ نتیجتاً لڑائی ہو گئی۔ وہ تعداد میں زیادہ تھے انہوں نے منشا یاد کوتختیوں سے پیٹا۔

مگر وہ اس طرح زبردستی ان کے اندر سے کہانی تو نہ نکال سکتے تھے اور اندر تھی ہی کہاں۔عوامی سطح پر یہ منشا یاد کا کہانی کے فن کا پہلا اور کامیاب مظاہرہ تھا۔ اس کے بعد انہوں نے بچوں کے رسائل میں لکھنا شروع کر دیا۔ساتویں آٹھویں تک انہوں نے بے شمار کتابیں پڑھ ڈالیں۔ پیسہ سیریز کی ایک ایک کتاب۔ بانگِ درا، پریم پچیسی، احمد ندیم قاسمی، منٹو، بیدی اور کرشن چندر کے افسانے، مرزا ادیب کے صحرا نورد کے خطوط، میاں ایم اسلم، رشید اختر ندوی، رئیس احمد جعفری اور نسیم حجازی کے متعدد ناول۔ سردیوں میں کورس کی کتابوں میں چھپا کر اور گرمیوں میں رات کو گھر والوں سے چھپ کر چاند کی روشنی میں پوری پوری کتاب ختم کرڈالتے۔ اسی طرح میلے ٹھیکے، سرکس، تھیڑ اور فلمیں دیکھنے کا بھی انہیں بہت شوق تھا۔ گرمی کی چھٹیوں میں بیٹری سے چلنے والاریڈیو  کرائے پر لے آتے یا گراموفون سے جی بہلاتے۔ ان سب چیزوں نے ان کے ادبی ذوق کے نکھار میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔

اس کثرتِ مطالعہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ اوائلِ عمر میں ہی قوت متخیلہ متحرک ہو گئی ۔ان کادماغ طرح طرح کے خیالات اور سوچوں سے بھر گیا بلکہ چھلکنے لگا اور شعر و ادب سے گہرا لگائو پیدا ہو گیا۔ اس وقت ان کے لکھنے کا ایک ہی مقصد تھا۔ اپنے ساتھیوں اور دوستوں میں مقبول، مختلف اور ممتاز نظر آنا اور رسالے میں اپنا چھپا ہوا نام دیکھ کر خوش ہونا۔ لیکن لکھنے کے ساتھ پڑھنا بھی ضروری ہوتا ہے اور پڑھنے سے ذہن کشادہ ہوتا ہے؛ چنانچہ تعلیم میں اضافے، ذوق میں نکھار اور فکر میں اٹھان سے کچھ دوسری حسیات ابھرنے لگیں جیسے احساسِ محبت و ہمدردی، احساسِ جمال و انبساط اور معاشرتی ناہمواری اور ناانصافی کا احساس۔ اپنے ارد گرد کی زندگی میں طرح طرح کے تضادات، مظالم اور مصائب۔ کہانی اب ایک آئوٹ لیٹ، ایک دریچہ بن گئی۔ جو بات منہ پر نہ کہی جا سکتی وہ منشا اپنی کہانی میں کہہ لیتے۔ جس احتجاج کی کھلے عام اجازت نہ ہوتی وہ کہانی کے پردے میں کر لیا جاتا۔ جن جذبات کا اظہار کسی کے سامنے نہ کیا جا سکتا اسے کہانی سمیٹ لیتی۔ آہستہ آہستہ کہانی ایک ہمراز، رفیق اور ہمدرد دوست بنتی چلی گئی۔ عمر اور فکر کی مزید پختگی کے ساتھ لکھنا  انہیںایک سماجی ذمہ داری اور فریضہ محسوس ہونے لگا ۔

 منشا یاد کہتے تھے کہ آدمی جتنا حساس ہو اور جتنا زیادہ سوچے اور محسوس کرے اتنی ہی زیادہ کہانیاں بنتی چلی جاتی ہیں۔ کسی انوکھے خیال یا معمول اور معقولیت سے ہٹی ہوئی کسی بات کی پونی ہاتھ آتی ہے تو ذہن فوراً ہی کسی نئی کہانی کا سوت کاتنے لگتا ہے ۔ وہ کہتے تھے ’’ہر کہانی کار کی طرح میرے اندر بھی ایک جولاہی بیٹھی ہے جو دن رات مختلف خیالوں کے رنگا رنگ گنجل کھولتی، انہیں ایک دوسرے سے الگ کرتی اور گولے پنے بناتی رہتی ۔ میں کہانیوں میں گھرا ہوا آدمی ہوں۔ میرے چاروں طرف بے شمار کہانیاں ہیں اور ہر کہانی جلدی میں ہوتی ہے۔ اپنی باری کا انتظار بھی نہیں کرتی۔کہانی آپ کو زندگی کے بہت سے رازوں اور تجربوں سے آگاہ کرتی ہے۔ ہر نئی کہانی ہمیں ایک نئے کردار اور ایک نئی دنیا سے متعارف کراتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ زندگی کے معاملات اور تجربوں کو سمجھنے کے لئے کہانی سے بہتر کوئی چیز نہیں۔‘‘

یہ سچ ہے کہ سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے ساتھ انسان روز بروز مشین میں ڈھلتا جا رہا ہے اور نت نئے تباہ کن ہتھیار ایجاد کر رہا ہے۔ کمپیوٹر کی ترقی نے اسے ادبی اور شعری ذوق سے اور بھی دور اور بیگانہ کر دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ زندگی کے سچے ذائقوں کیلئے مار دھاڑ کی سوشل میڈیا کی بجائے نسلِ نو میں شعر و ادب کا ذوق بحال کیا جائے اور انہیں ہلے گلے کی مصنوعی اور ہنگامی وقت گزاری کی بجائے سچی خوشی اور لطف و انبساط سے متعارف کرایا جائے۔ جو کلاسیکی موسیقی اور شعر و ادب کی دنیا کے علاوہ کہیں نہیں پائی جاتی۔یہی منشا یاد کا مطمح نظر بھی تھا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔