اصل امتحان
شام کی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ درختوں کی ہلکی سرسراہٹ اور پرندوں کی واپسی کا شور فضا کو خوبصورت رنگ دے رہا تھا مگر ایسے ماحول میں بھی نوفل پریشان دکھائی دے رہا تھا۔ امتحانات کو گزرے ہوئے کئی دن ہو چکے تھے لیکن اس کا دل اب تک انگریزی کے پرچے کی فکر میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ بار بار اپنے پیپر کو یاد کرتا اور خود کو ملامت کرتا کہ فلاں سوال کو یوں لکھنا چاہیے تھا، فلاں حصے کو ٹھیک طرح حل کر لینا چاہیے تھا۔
اسی سوچ میں گم وہ کرسی پر بیٹھا آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا کہ اچانک دروازے کی گھنٹی بجی۔ باہر جا کر دیکھا تو اس کا قریبی دوست حمزہ تھا، جو اس کے ساتھ ہی اندر آگیا۔ حمزہ کی شوخ طبیعت محفل کو لمحوں میں بدل دیتی تھی۔
اس نے نوفل کے چہرے پر غیر معمولی سنجیدگی دیکھی تو پوچھ بیٹھا:یار نوفل! اتنے اداس کیوں ہو؟ امتحان ختم ہوئے کتنے دن گزر گئے، کیا ابھی سے نتیجے کا سوچ رہے ہو؟
نوفل نے گہری سانس لی اور آہستہ آواز میں بولا: حمزہ! میرا انگریزی کا پرچہ بہت برا ہوا تھا۔ دل میں بار بار خیال آتا ہے کہ کہیں ناکام نہ ہو جاؤں۔ اگر ایسا ہوا تو سب کے سامنے کتنی شرمندگی ہو گی۔ لوگ پوچھیں گے، رشتہ دار باتیں بنائیں گے، میں کیا جواب دوں گا؟
حمزہ نے مسکراتے ہوئے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا: پرچہ میرا بھی اچھا نہیں ہوا، لیکن فکر کی بات نہیں۔ کامیابی اور ناکامی سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ تم بس دعا کرتے رہو۔ دیکھنا اللہ بہتر کرے گا۔
حمزہ کے یہ الفاظ وقتی طور پر نوفل کے دل کو سہارا دے گئے مگر اندر ہی اندر وہ اب بھی مضطرب تھا۔ رات کے وقت جب سب سو گئے تو نوفل اپنے کمرے کے کونے میں جائے نماز پر بیٹھ گیا۔ اس نے ہاتھ پھیلا کر اللہ سے گڑگڑا کر دعا مانگی: یا اللہ! مجھے اس امتحان میں کامیاب کر دے، مجھے شرمندگی سے بچا لے۔
اگلی دو تین راتیں بھی وہ اسی طرح جاگ جاگ کر اللہ سے فریاد کرتا رہا۔ اب اس کی پریشانی کم ہو چکی تھی۔
کرتے کرتے نتائج کا دن آ گیا۔ تھوڑی ہی دیربعد فون آیا۔ اسکرین پر حمزہ کا نام جگمگا رہا تھا۔ دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ فون اٹھایا تو حمزہ نے جوش سے کہا:نوفل! نتیجہ آگیا ہے، میں پاس ہو گیا ہوں۔ تم فوراً اپنا رول نمبر بتاؤ تاکہ تمہارا نتیجہ بھی دیکھ لوں۔
نوفل کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ دل دھک دھک کرنے لگا۔ اس نے بہانہ بنایا: مجھے رول نمبر یاد نہیں، سلپ بھی نہیں مل رہی، کل دیکھ لوں گا۔یہ کہہ کر اس نے جلدی سے فون بند کر دیا اور ایک بار پھر جائے نماز پر جا بیٹھا۔ آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ اس نے اللہ سے عاجزی سے کہا:اے میرے رب! اگر تو نے چاہا تو میں بھی کامیاب ہو جاؤں گا، بس مجھے رسوا نہ کرنا۔
کچھ ہی دیر بعد دوبارہ فون بجا۔ اس بار آواز میں حمزہ کی خوشی اور بھی زیادہ تھی۔ مبارک ہو نوفل! میں نے تمہارا رول نمبر تلاش کر لیا ہے۔ تم پاس ہو گئے ہو!
یہ سن کر نوفل کی آنکھوں میں آنسو آ گئے لیکن اس بار یہ آنسو خوشی کے تھے۔ اس نے سجدہ شکر ادا کیا۔ رات بھر خوشی کے مارے اسے نیند نہ آئی۔ صبح فجر کی نماز کے بعد اس نے شکرانے کے نوافل بھی ادا کیے۔
نماز کے بعد جب وہ دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے بیٹھا تھا تو اس کے دل میں نیا خیال ابھرا۔
میں نے دنیا کے ایک چھوٹے سے امتحان کیلئے کتنی شدت سے دعائیں مانگیں، روتا رہا، جاگتا رہا۔ لیکن وہ بڑا امتحان جو ہر انسان نے قیامت کے دن دینا ہے، اس کی فکر کبھی دل میں کیوں نہیں جاگی؟ وہاں تو کوئی سفارش نہیں، کوئی رول نمبر سلپ نہیں، نہ چھپنے کا موقع ملے گا۔ ہر ایک کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ اگر میں وہاں ناکام ہو گیا تو کون بچا ئے گا؟
یہ سوچ کر نوفل کی آنکھیں بھر آئیں، وہ رو رو کر اللہ سے مغفرت مانگنے لگا اور عہد کیا کہ اب وہ صرف دنیا کیلئے نہیں بلکہ آخرت کی کامیابی کیلئے بھی نیک عمل کرے گا۔
پیارے بچو! نوفل کو تو یہ بات سمجھ آ گئی کہ دنیا کا امتحان اگرچہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن اصل امتحان تو آخرت کا ہے۔ اس دن کوئی کسی کی مدد نہیں کر سکے گا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آخرت میں کامیاب ہوں تو آج ہی سے اچھے کام شروع کریں۔ سچ بولیں، دوسروں کی مدد کریں، نماز پڑھیں اور ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کریں۔ اگر اللہ راضی ہو گیا تو آخرت کا نتیجہ سب سے شاندار ہوگا۔