سخاوت کا دریا (پہلی قسط )
آسمان پر ستارے ٹمٹما رہے تھے۔ چاند کے بغیر وہ کتنے ادھورے لگ رہے تھے۔ ان کی چمک دمک اور جھلملاہٹ زمین پر پھیلی تاریکی کو دور کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی تھی۔ زمین پر پھیلی اندھیرے کی چادر میں چندہیولے حرکت کر رہے تھے۔ ان کے انداز میں ڈر، خوف اور اندیشہ نمایاں تھا۔ چند قدم چل کر وہ رک کر پیچھے کی جانب دیکھنے لگتے۔ پھر مطمئن ہو کر دوبارہ سفر شروع کر دیتے، شاید انہیں کسی کے تعاقب کا اندیشہ تھا۔
جس راستے پر وہ سفر کر رہے تھے، وہ نہایت دشوار گزار اور انتہائی پرخطر راستہ تھا۔ کہیں بلند و بالا پہاڑ تھے تو کہیں ریتلے میدان، کہیںراستے میں خار دار جھاڑیاں بچھی تھیں، تو کہیں چٹیل سنگلاخ میدان، انہیں سمندر تک پہنچنا تھا۔ لیکن سمندر تک پہنچ کر بھی ان کے سفر کو ختم نہیں ہونا تھا، بلکہ وہاں سے انہیں ایک نئے اور خطروں سے بھرپور سفر کا آغاز کرنا تھا۔
ان مسافروں کو سفر کا آغاز کیے کتنا ہی وقت بیت چکا تھا اور اب ان کی منزل قریب تھی۔ رات کی سیاہی ختم ہونے والی تھی کہ انہیں سمندر کی پرشور لہروں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ ان کے چہروں پر زندگی کی نئی لہر دوڑ گئی۔ مسلسل سفر نے انہیں نڈھال اور بے جان سا کر دیا تھا لیکن سمندر کو اپنے سامنے دیکھ کر ان کی ساری تھکاوٹ دور ہو گئی۔ جس مقام پر وہ لوگ پہنچے تھے، اس کا نام ’’شعیبہ‘‘ تھا۔ یہیں سے انہوں نے اپنے نئے سفر کا آغاز کرنا تھا۔
سفر کیلئے انہوں نے تجارت کیلئے استعمال کی جانے والی کشتیوں کا انتظام کیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کشتیاں اپنی ابتدائی شکل میں تھیں۔ آج کے زمانے کی کشتیوں کی طرح مضبوط اور طاقتور نہیں تھیں۔ اس وقت کے لحاظ سے وہ بھی غنیمت تھیں۔ وہ لوگ کشتیوں میں سوار ہو گئے۔ اس طرح ایک نیا سفر شروع ہو گیا۔ سمندر کی بلند و بالا لہروں پر کشتیاں کھلونوں کی مانند اُچھل رہی تھیں۔ طوفانی لہروں کے دوش پر بہتی ان کشتیوں کا رخ جنوب کی طرف تھا۔ افریقہ کی طرف،جہاں انہیں ملک حبشہ پہنچنا تھا۔ مسلسل سفر کرتے ہوئے وہ ’’باب المندب‘‘ سے اوپر چڑھے جو جزیرہ عرب اور افریقہ کے ساحلوں کے درمیان بحر احمر میں نہایت تنگ جگہ ہے اور سمندر کو عبور کرتے ہوئے افریقہ کی طرف چلے تاکہ اپنی نئی منزل ’’حبشہ‘‘ پہنچ سکیں۔
حبشہ کا حکمران نجاشی انصاف پسند حکمران تھا۔ وہ نہ تو کسی پر ظلم کرتا تھا اور نہ ظلم کرنے والوں کو پسند کرتا تھا۔ عرب کے خطے سے ہجرت کرکے آنے والوں کو اس کے ہاں پناہ مل گئی اور وہ بے خوف و خطر زندگی گزارنے لگے۔ آپ یقیناً جان چکے ہوں گے کہ ہجرت کرکے آنے والے یہ لوگ کون تھے؟ اور انہیں اپنا ملک چھوڑ کر ہجرت کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی؟
یہ وہ دور تھا جب خطۂ عرب پر نبوت کا چاند طلوع ہو چکا تھا۔ محمد مصطفیﷺ اپنی رسالت کا اعلان کر چکے تھے۔ جن لوگوں نے آپ ﷺ کی دعوت پر اسلام قبول کیا، کفار نے ان کو شدید اذیتیں دیں۔ ان کو طرح طرح کی سزائیں دیں۔ ان پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا حتیٰ کہ وہ زندگی سے عاجز آ گئے۔ یہ صورت حال رسول اللہ ﷺ کیلئے تکلیف کا باعث تھی۔
جب معاملہ انتہائی شدت اختیار کر گیا تو آپ ﷺ نے مسلمان ہونے والوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت دے دی۔ چنانچہ مسلمانوں نے بچتے بچاتے، رات کے اندھیرے میں ہجرت کیلئے، اپنی ہی سرزمین ’’مکہ‘‘ کو چھوڑ دیا۔ مکہ، جہاں تاریخی اور ابدی سچائی کا مظہر بیت اللہ تھا۔ اپنے گھر بار، مال مویشی ہر چیز انہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کیلئے چھوڑ دی تھی۔ ان ہجرت کرنے والوں میں سید نا عثمان رضی اللہ عنہ، ان کی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا جو کہ رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی تھیں، اور سید نا جعفر بن ابی طالبؓبھی شامل تھے۔
جب ان لوگوں نے اپنے قدم ہجرت کی خاطر مکہ سے باہر نکالے تو قریش کے مشرکین بہت تلملائے۔ وہ تو اسلام قبول کرنے والوں کو تڑپا تڑپا کر اذیتیں دے دے کر، اپنے آبائو اجداد کے مذہب کی طرف پھیرنا چاہتے تھے۔ انہیں اپنے قبضے میں رکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے جیسے ہی انہوں نے سنا کہ مسلمان ہجرت کر گئے ہیں۔ وہ انہیں ہجرت سے روکنے کیلئے نکل پڑے لیکن انہیں دیر ہو چکی تھی۔ وہ سمندر کے کنارے اس وقت پہنچے جب مسلمان کشتیوں پر سوار ہو کر نگاہوں کی حدوں سے دور جا چکے تھے۔ وہ کفِ افسوس ملتے ہوئے پلٹ آئے۔
کفار مکہ نے اس کے بعد بہت کوشش کی کہ ہجرت کا یہ سلسلہ رک جائے لیکن اسلام قبول کرنے والے لوگ یکے بعد دیگر موقع ملتے ہی گروپ کی شکل میں حبشہ کی طرف ہجرت کر جاتے۔ اب کفار یہ سوچنے لگے کہ مسلمان آخر حبشہ ہی کیوں ہجرت کر رہے ہیں۔ بہت غورو فکر کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی کہ وہاں کا حکمران نجاشی ان کو یقیناً خوش آمدید کہتا ہوگا اور وہ ان کیلئے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہوگا۔ تب ہی یہ لوگ وہاں کا رخ کر رہے ہیں۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ نجاشی چونکہ ایک عیسائی حکمران ہے، اس کو مسلمانوں کے خلاف کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوگا، انہیں وہاں جانا چاہیے۔
اس مقصد کیلئے انہوں نے سب سے پہلے نجاشی کے درباری کاہنوں سے رابطہ کیا۔ کاہن، نجومی یا غیب کی باتیں بتانے کا دعویٰ کرنے والے کو کہتے ہیں۔ ان کاہنوں کو قیمتی تحائف سے نوازا گیا۔ جس کی بنا پر وہ کفار کا ساتھ دینے پر آمادہ ہو گئے۔ کفار کا وفد عمرو بن عاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ پر مشتمل تھا۔ یہ دونوں بڑے ذہین اور فصیح و بلیغ تھے۔ ان دونوں نے کاہنوں کی مدد سے نجاشی کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ مسلمانوں کو اپنے ملک سے نکال دے۔ لیکن نجاشی ایک عقل مند اور کھلے دل کا مالک شخص تھا۔ کفار کے دلائل سن کر اس نے اصرار کیا کہ مسلمانوں کو بھی ان دلائل کے جواب دینے کا موقع ملنا چاہیے۔ (جاری ہے)