شاہینوں کی کارکردگی میں عدم تسلسل

تحریر : ارشد لیئق


پاکستان،جنوبی افریقہ ٹی ٹوئنٹی سیریز

مسلسل تجربات کھلاڑیوں اروآفیشلز میں اعتمادکی کمی کا باعث، سلیکشن پر سوالات اٹھنے لگے

پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی میں مسلسل اتار چڑھائو کا سلسلہ جاری ہے، کبھی بظاہر آسان سا ہدف بھی پہاڑ بن جاتا ہے ، گرین شرٹس کی بیٹنگ چلتی ہے نہ ہی بائولنگ اور فیلڈنگ میں بھی کیچ پکڑنا بھول جاتے ہیں جبکہ کبھی کبھی شاہین اس طرح جھپٹتے ہیں کہ شکار خود ہی قدموں میں گر جاتا ہے۔ قومی ٹیم کی کارکردگی میں عدم تسلسل کی کئی وجوہات ہیں مگر سب سے اہم وجہ مسلسل تجربات کے باعث کھلاڑیوں اور ٹیم آفیشلز میں اعتماد کی کمی ہے۔

 شاہینوں کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو ٹیم کی سلیکشن پر سوالات اٹھنے لگتے ہیں، کبھی ہم کسی کھلاڑی کو اچانک باہر نکال دیتے ہیں اور کبھی گھر میں سوئے ہوئے کسی پلیئر کو ٹیم میں شمولیت کی اتنی اچانک خبر سناتے ہیں کہ وہ خود بھی چونک جاتا ہے۔ فواد عالم، محمد عامر، وہاب ریاض اس کی مثال ہیں۔ پاکستان کرکٹ میں تو متعدد ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ کسی کھلاڑی کو اس کے عروج پر قومی ٹیم سے باہر کردیا گیا اور طویل عرصہ باہر رہنے کے بعد اچانک نہ صرف ٹیم میں شامل کیا جاتا ہے بلکہ کپتان بنا کر پوری ٹیم کی قسمت اس کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے،ایسے کھلاڑیوں میں مصباح الحق، سرفراز احمد اور اظہرعلی نمایاں ہیں۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ کسی نوجوان کھلاڑی نے پاکستان سپرلیگ (پی ایس ایل) یاکسی نیشنل ٹی ٹوئنٹی میچ میں دو چار چھکے مار دئیے یا چار پانچ وکٹیں لے لیں تو اسے ٹیسٹ میچ کھلا دیا جاتا ہے اور اگر کسی ایک ٹیسٹ میچ میں فلاپ ہوجائے تو اسے ٹی ٹوئنٹی ٹیم سے بھی باہر کردیا جاتاہے۔ 

دنیا بھر میں ڈومیسٹک سیزن میں مسلسل تین سے چار سال کارکردگی دکھانے والے کرکٹرز کو قومی سکواڈ کا حصہ بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ ٹیم میں آنے سے پہلے ہی میچور ہوتے ہیں اور پھر ان کی کارکردگی مین تسلسل نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کے متعدد کرکٹرز ایسے بھی ہیں جنہوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں شاید دو چار میچز ہی کھیلے ہوں گے، یہی وجہ ہے کہ قومی ٹیم میں آنے کے بعد انہیں اپنی کمزوریاں دور کرنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں اور یہی ان کے کریئر کا اصل پیریڈ ہوتاہے۔

 اسی طرح یہاں یہ رواج بھی عام ہوچکا ہے کہ جو کھلاڑی ایک بار گرین کیپ حاصل کر لیتا ہے توپھر وہ پریکٹس،ٹریننگ اور فرسٹ کلاس کرکٹ سے توجہ ہٹا لیتاہے اور خود کو سپرسٹار سمجھنے لگتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اسے اگر دوبارہ ٹیم میں شمولیت کاموقع ملے تو اس کی کارکردگی بائی چانس ہوتی ہے۔ جب تک ہم ٹیموں کے انتخاب کا کوئی ٹھوس طریقہ رائج نہیں کریں گے اور نوجوان کرکٹرز کی قومی ٹیم میں شمولیت کیلئے زیادہ سے زیادہ فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنا لازمی قرار نہیں دیں گے، اس وقت تک ہمیں مستنند کرکٹرز نہیں مل سکتے اور پھر ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل برقرار رکھنا مشکل ہوگا۔

ماضی میں قومی ٹیم کی کارکردگی میں تسلسل کی ایک بڑی وجہ کھلاڑیوں کا مضبوط فرسٹ کلاس کریئر ہوتا تھا۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر نوید قریشی اور عرفان بھٹی جیسی متعدد مثالیں موجود ہیں جنہیں طویل فرسٹ کلاس کریئر اورقومی سطح پر مسلسل بہترین کارکردگی کے باوجود صرف ایک یا دو انٹرنیشنل میچز ہی کھیلنے کو ملے۔ اگر وہ آج کے دور میں ہوتے تو شاید ٹی ٹوئنٹی کے سپرسٹارز ہوتے۔ 

قومی ٹیم کی حالیہ کارکردگی کو ہی سامنے رکھ لیں، پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی جنوبی افریقہ کرکٹ ٹیم کے خلاف گرین شرٹس نے لاہور میں سیریز کا پہلا ٹیسٹ میچ چوتھے روز ہی جیت لیا۔ راولپنڈی میں بالکل ویسی ہی سپن پچ تیار کرنے کے باوجود ہم مہمان ٹیم کو قابو نہ کرسکے اور پروٹیز نے پہلے ٹیسٹ کا بدلہ پنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں لے کر سیریز ایک، ایک سے برابر کر کے پاکستان کا ہوم گرائونڈ پر ٹیسٹ سیریز جیتنے کا خواب چکنا چور کردیا۔ اسی طرح جنوبی افریقہ کے خلاف راولپنڈی میں پہلے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ ہارنے کے بعد لاہور میں شاہینوں نے پروٹیز کا حساب برابر کردیا اور دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں مہمان ٹیم کو 9وکٹوں سے شکست دے کر تین میچوں پر مشتمل سیریز 1-1سے برابر کردی۔ تاہم یہ سطور شائع ہونے تک ٹی ٹوئنٹی سیریز کا تیسرا اور فیصلہ کن میچ بھی کھیلا جاچکاہوگا ، تاہم اب بھی وقت ہے کہ ہم ٹیموں کی سلیکشن میں قومی مفاد اور سبز ہلالی پرچم کے وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک ٹھوس پالیسی بنائیں اور پھر اس پر عمل بھی کیا جائے۔ 

سابق کرکٹرز اور ماہرین نے موجودہ ٹیم کی سلیکشن پر کئی بارسوالات اٹھائے لیکن مسئلے کے حل پر تاحال کوئی توجہ نظر نہیں آتی۔سابق وکٹ کیپر کامران اکمل نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ٹی ٹوئنٹی کپتان سلمان علی آغا کی اپنی جگہ ٹیم میں نہیں بنتی جبکہ سابق کپتان راشد لطیف کا کہنا ہے کہ اس وقت قومی ٹیم میں وکٹ کیپرز کی بجائے صرف سٹاپرز کو کھلایا جا رہاہے۔ارباب اختیار کو تمام مسائل پر توجہ دیتے ہوئے قومی مفاد مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنے ہوں گے اور کھلاڑیوں و کوچنگ سٹاف کو نوازنے کی بجائے سو فیصد میرٹ پر انتخاب یقینی بنانا ہو گا۔

پاکستان کرکٹ ٹیم نے ابھی فیصل آباد جنوبی افریقہ کے خلاف تین ایک روزہ انٹرنیشنل میچز کھیلنے ہیں جبکہ اس کے بعد راولپنڈی میں سری لنکا کے خلاف تین ایک روزہ میچز کی میزبانی بھی کرنی ہے۔ اس کے بعد سری لنکا اور زمبابوے کے ساتھ سہ ملکی سیریز بھی باقی ہے۔ اس طرح ابھی پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس وقت بھی ہے اور موقع بھی ہے کہ حالیہ ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی سیریز مین سامنے آنے والی خامیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اہم فیصلے کیے جائیں تاکہ آئندہ ورلڈکپ کی تیاریوں میں مدد مل سکے اور عالمی کپ تک ایک مضبوط سکواڈ تشکیل پاسکے۔  پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں پاکستان کے اہم فاسٹ بائولر شاہین شاہ آفریدی سب سے مہنگے ثابت ہوئے اور ٹیم کو شکست ہوئی لیکن جب بورڈ نے ان کی جگہ سلمان مرزا کو ٹیم میں شامل کیا تو نہ صرف انہوں نے بہترین کارکردگی پیش کی بلکہ ٹیم کو فتح سے بھی ہمکنار کیا۔ اسی طرح ہمیں سٹارز اور پسند و ناپسند کے چکر سے نکل کر ڈومیسٹک کارکردگی کی بنیاد پر کھلاڑیوں کو موقع دینا چاہئے۔ 

بابر اعظم کے 2 اعزاز

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان بابر اعظم نے گزشتہ دو میچوں کے دوران دو اعزاز اپنے نام کئے۔ بابر اعظم نے راولپنڈی میں جنوبی افریقہ کے خلاف صفر پر آئوٹ ہو کر شاہد آفریدی کا ناپسندیدہ ریکارڈ برابر کر دیا۔ بابر اعظم نے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں آٹھویں مرتبہ صفر پر آئوٹ ہوئے۔وہ سب سے زیادہ مرتبہ صفر پر آئوٹ ہونے والے پاکستانی کھلاڑیوں کی فہرست میں شاہد آفریدی کے ساتھ تیسرے نمبر پر آگئے ہیں۔ اس فہرست میں عمر اکمل، صائم ایوب اور کامران اکمل بھی شامل ہیں۔

لاہور میں کھیلے گئے دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں بابراعظم ٹی20 انٹرنیشنل میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز بن گئے۔ جنوبی افریقہ کیخلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کے دوسرے میچ میں جب بابر اعظم بیٹنگ کیلئے میدان میں آئے تو انہوں نے 129 میچز کی 122 اننگز میں 4223 رنز بنا رکھے تھے۔ انہیں روہت شرما کی جگہ لینے کیلئے صرف 9 رنز درکار تھے۔ یہ سنگ میل عبور کرتے ہی وہ 4232 رنز کے ساتھ ٹی 20 انٹرنیشنل کے سب سے کامیاب بیٹر بن چکے ہیں۔ روہت شرما نے 4231 رنز 159 میچز کھیل کر بنائے۔ بابر اعظم نے یہ اعزاز اپنے 130 ویں ٹی 20 انٹرنیشنل میں حاصل کیا۔ ان کی رنز بنانے کی اوسط 39.46 ہے۔بابر اعظم نے اب تک اپنے ٹی 20 انٹرنیشنل کیریئر میں 3 سنچریاں اور 36 نصف سنچریاں بنا رکھی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستانی معاشرہ میں اتحاد کی ضرورت!

’’تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو‘‘( آل عمران) ’’یقینامومن آپس میں مضبوط بنیاد کی طرح ہیں،وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑکرمضبوط ہوتے ہیں‘‘(صحیح بخاری)اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا مت کرو ورنہ (متفرق اور کمزور ہو کر) بزدل ہو جاؤ گے اور (دشمنوں کے سامنے) تمہاری ہوا (یعنی قوت) اکھڑ جائے گی(الانفال)

ناشکری : نیکیوں کو برباد کرنے والا عمل

’’اگر تم شکر ادا کروگے تو ہم تم کو مزید عطا کریں گے‘‘:(سورہ ابراہیم) ’’ اللہ تعالیٰ اس بات سے(بھی) راضی ہوتا ہے کہ بندہ کھانا کھا کر اس کا شکر ادا کرے یا پانی پی کر اس کا شکر ادا کرے‘‘(صحیح مسلم )

اخراجات پر کنٹرول کس طرح ممکن!

اخراجات میں میانہ روی اختیار کرنا نصف معیشت (زندگی گزارنے کا طریقہ) ہے( البیہقی) ’جب کسی پر کچھ خرچ کریں تو احسان نہ جتلائیں، اور ریاکاری سے خرچ نہ کیاجائے(سورۃ البقرہ)

مسائل اور ان کا حل

زکوٰۃ کی رقم سے مکان بنواکر دینا سوال :میں کسی شخص کے ذریعے مکان تعمیر کراکر کسی مستحق شخص کو زکوٰۃ کی مد میں دینا چاہتا ہوں،کیا ایسا کرنے سے میری زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ؟(مرزا ندیم،ڈسکہ)

ستائیسویں آئینی ترمیم

تمام نظریں پاکستان پیپلز پارٹی کی ہاں پر ہیں۔ آج ہونے والا پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس 27ویںآئینی ترمیم سے متعلق پارٹی پالیسی طے کرنے جا رہا ہے، مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی بظاہر اس ترمیم کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔

پی ٹی آئی کا داخلی انتشار، ذمہ دار کون؟

بلدیاتی ایکٹ چیلنج، انتخابات ممکن ہو پائیں گے؟