پی ٹی آئی کا داخلی انتشار، ذمہ دار کون؟

تحریر : سلمان غنی


بلدیاتی ایکٹ چیلنج، انتخابات ممکن ہو پائیں گے؟

ایک طرف حکومت اور اس کے اتحادی 27ویں آئینی ترمیم کیلئے سرگرم اور پرُعزم ہیں تو دوسری طرف پی ٹی آئی میں داخلی کشمکش عروج پرہے۔ جیل سے باہر پارٹی کے ذمہ داران سوشل میڈیا پر آپس میں الجھتے نظر آ رہے ہیں جبکہ بانی پی ٹی آئی اپنے مزاحمتی بیانیہ پر پسپائی کیلئے تیار نہیں اور اپنے مخصوص انداز میں ریاست اور اداروں کو ہدف بناتے نظر آ رہے ہیں۔پارٹی کی اندرونی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو پی ٹی آئی اپنے بانی کے جیل میں ہونے کی وجہ سے کشمکش کا شکار ہے اور پارٹی کی موجودہ قیادت ان مسائل سے نمٹنے میں ناکام نظر آ تی ہے۔ پہلے تو اس کے پاس صلاحیت اور قابلیت ہی نہیں کہ پارٹی اور قیادت کو اس صورتحال سے نکال سکے، دوسری بات یہ کہ آج بھی پارٹی کے کارکن، ذمہ داران اور خصوصاً اراکین اسمبلی ان کی طرف دیکھنے کے بجائے اڈیالہ جیل کے قیدی کی طرف دیکھتے ہیں اور وہ اپنے بیانات اور احکامات کے ذریعہ جیل سے باہر قیادت کیلئے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ اس مشکل صورتحال میں موجودہ لیڈر شپ سیاسی طور پر منقسم ہے تو یہ ٹکرائو ان کیلئے مسائل کا باعث بنے گا۔ غالباً یہی وجہ پارٹی کے بعض منحرفین کیلئے سرگرم ہونے کا باعث بنی اور انہوں نے پارٹی کے سینئر رہنما مخدوم شاہ محمود قریشی سے پی کے ایل آئی میں، جہاں وہ زیر علاج تھے، ملاقات کرکے مفاہمت کے نام پر سرگرمیوں کا آغازکیا اور یہ ظاہر کیا کہ مخدوم شاہ محمود قریشی بھی مفاہمتی طرز عمل اختیار کرنے پر آمادہ ہیں اور ان کے ساتھ مل کر کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن عملاً دیکھنے میں آیا کہ خود پارٹی کی لیڈر شپ نے ان کی سرگرمیوں سے برأت کا اظہار کیا بلکہ یہاں تک کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مشکل صورتحال میں پارٹی کو چھوڑ گئے اب کس بنیاد اور کس اشارے پر سرگرم ہوئے ہیں؟ اس حوالے سے مخدوم شاہ محمود قریشی کا وضاحتی بیان بھی آ چکا ہے لہٰذا مفاہمت کیلئے منحرفین جو خلا پرُ کرنا چاہتے تھے ان کو کوئی کامیابی تو نہیں ملی لیکن بانی پی ٹی آئی کی جانب سے آنے والے تازہ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی مفاہمت کے خواہاں نہیں اور اب تو انہوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے بھی بات نہیں ہوگی۔ مطلب یہ کہ وہ ایک مرتبہ پھر پارٹی کا امتحان لینے پر مُصر ہیں اور ہدایات دے رہے ہیں کہ احتجا ج اور مزاحمت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ پی ٹی آئی قیادت نومبر میں ایک مرتبہ پھر اسلام آباد پر چڑھائی کا سوچ رہے ہیں اور ملک بھر میں اپنی تنظیموں اور ذمہ داران سے کہا جا رہا ہے کہ دس دس، بار بارہ کی ٹولیوں میں اسلام آباد پہنچیں گے۔

دیکھنا ہوگا کہ پی ٹی آئی اپنے اس ایجنڈا پر عمل پیرا ہو پائے گی کیونکہ گزشتہ سال 26نومبر کو اسلام آباد مارچ کے نتیجہ میں پیدا شدہ صورتحال کے بعد اس طرح کی کوئی کیفیت حکومت اور ریاست کیلئے چیلنج ہو گی۔ ویسے بھی نئے حالات میں حکومت اس بات کی متحمل نہیں ہو پائے گی کہ اسلام آباد میں ایسی صورتحال پیدا ہو جس کے نتیجہ میں دنیا کے سامنے اچھی تصویر نہ جائے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے خیبر پختونخواکے نئے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو نہ صرف مبارکباد دی بلکہ حال ہی میں چترال میں ہونے والی ایک تقریب میں خیبر پختونخوا کی نئی حکومت سے تعاون کا عندیہ بھی دیا۔ ان کے اس طرز عمل کو نئے حالات میں سنجیدگی سے دیکھا جا رہا ہے لیکن کیا حکومت اپوزیشن کے حوالے سے صرف بیانات اور اعلانات تک محدود رہے گی یا عملاً کچھ اقدامات بھی ہوں گے جس سے ملک میں ہنگامی یا غیر معمولی صورتحال پیدا نہ ہو۔

 ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے پیدا شدہ صورتحال کے بعد حکومت کو دہشت گردی کے سدباب اور ملک کے اندرونی استحکام کیلئے قومی حکمت عملی اور بیانیہ ترتیب دینا چاہئے جس پر عمل پیرا ہو کر ملک کو احتجاجی صورتحال سے نکالا جا سکے۔ اس حوالے سے وزیراعظم شہبازشریف ایسے اعلانات اور بیانات دیتے نظر آتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس صورتحال کا ادراک بھی رکھتے ہیں اور ڈیڈ لاک کو توڑنا چاہتے ہیں، لہٰذا اب جبکہ بانی پی ٹی آئی پھر سے ملک کے اندر خصوصاً اسلام آباد میں ہنگامی صورتحال طاری کرنے پر مصر ہیں، بہتر سیاسی حکمت عملی سے اس کا توڑ نکالا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد کے حالات کو ساز گار رکھنا ضروری ہے، اس لیے جیل سے باہر پی ٹی آئی کی لیڈر شپ سے رابطے بحال کئے جا سکتے ہیں۔

پنجاب کے سیاسی محاذ پر صوبہ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ایک بڑے ایشو کے طور پر موجود ہے۔ پنجاب حکومت نے بلدیاتی انتخابات کیلئے ہنگامی بنیادوں پر بلدیاتی ایکٹ پاس کروایا اور بعد ازاں پنجاب اسمبلی میں بلدیاتی انتخابات کی آئینی حیثیت کیلئے سیاسی جماعتوں کی متفقہ قرارداد کی منظوری کو بلدیاتی سسٹم سے کمٹمنٹ اور انتخابات کے تسلسل کے حوالہ سے اہم قرار دیا گیا، تاہم بلدیاتی انتخابات کا انعقاد اب بھی بڑا چیلنج نظر آرہا ہے۔ دیکھنایہ ہے کہ حکومت اس پر پیش رفت کر پائے گی یا نہیں؟پی ٹی آئی نے حکومت پنجاب کے بلدیاتی ایکٹ کی متعدد سیکشنز کو ہائیکورٹ میں چیلنج بھی کر دیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر معین الدین ریاض قریشی کی جانب سے دائر کی جانے والی درخواست میں 2025ء کے بلدیاتی ایکٹ میں بیورو کریسی کو اختیارات دینے کو ٹارگٹ کیا گیا ہے اور اسے آرٹیکل 140 اے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا گیاکہ آئین پاکستان  اختیارات منتخب نمائندوں کو دینے کی بات کرتا ہے اور ان اداروں کی انتظامی، سیاسی اور مالی خود مختاری کا خواہاں ہے لیکن یہاں افسر شاہی کو کردار سونپا جا رہا ہے۔ مذکورہ اپیل میں انتخابات کے غیر جماعتی انعقاد پر بھی تنقید کی گئی ہے اور اسے آئین کے آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ امیدواروں کو انتخاب سے پہلے سیاسی جماعت سے وابستگی ظاہر کرنے سے روکنا غیر آئینی ہے جبکہ سیاسی جماعتوں سے وابستگی ظاہر کرنا بنیادی آئینی حق ہے۔

مذکورہ معاملے کا حتمی فیصلہ تو عدالت عالیہ کرے گی لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل ایشو بلدیاتی انتخابات کرانا ہے اس سے قطع نظر کہ سیاسی جماعتوں کا بالواسطہ یا بلاواسطہ کردار کیا ہوگا۔ ماضی میں بھی انتخابات کا انعقاد بعض ٹیکنیکل ایشوز کی بنا پر ممکن نہیں ہو سکا، اب بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت انتخابات کی جانب پیش رفت شروع کرے۔ یہ انتخابات ماضی میں بھی غیر جماعتی ہوتے رہے ہیں لیکن بعد ازاں ان کی جماعتی حیثیت بن جاتی ہے لہٰذا اصل مسئلہ انتخابات کا انعقاد ہے۔ پی ٹی آئی کو بھی دیکھنا چاہیے کہ اس کے کسی عمل سے حکومت کو بلدیاتی انتخابات التوا میں ڈالنے کا موقع تو نہیں مل جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔