ستائیسویں آئینی ترمیم

تحریر : عدیل وڑائچ


تمام نظریں پاکستان پیپلز پارٹی کی ہاں پر ہیں۔ آج ہونے والا پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس 27ویںآئینی ترمیم سے متعلق پارٹی پالیسی طے کرنے جا رہا ہے، مگر ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی بظاہر اس ترمیم کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔

 اس ترمیم کا اعلان بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے کیا جانا بھی دلچسپ تھا۔ ایک ایسے وقت میں جب حکومتی وزرا بھی لا علم تھے کہ27ویںآئینی ترمیم میں کیا ہے اور یہ کب آئے گی، یہ اعلان پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی جانب سے اس کی تفصیلات کے ساتھ کیا جانا ملکی سیاست میں بھونچال لے آیا۔ یہ اعلان بلاول بھٹوکی جانب سے اس لئے کیا گیا کیونکہ انہیں اندازہ ہے کہ ملک کی موجودہ صورتحال میں یہ ترمیم نا گزیر ہے اور ان کے پاس ہاں کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ تو انہوں نے اپنا اور اپنی سیاسی جماعت کا قد اور اہمیت بڑھانے کیلئے خود پہل کی اور اعلان کیا کہ ملکی سیاست میں آگے کیا ہونے جا رہا ہے اور پیپلز پارٹی کی ہاں کے بغیر یہ ہو نہیں سکتا۔ 

ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی جن ایشوز پر مزاحمت کرتی آئی ہے اب انہی کی سپورٹ کرنا پڑ رہی ہے، اور وہ تمام ایشوز جن پر پیپلز پارٹی بات تک نہیں کرنا چاہتی تھی، بلاول بھٹو نے اپنی ایکس پوسٹ میں لکھ کر بتایا کہ ان آئینی شقوں میں ترمیم ہونے جارہی ہے۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ایکس پر بیان میں کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں (ن) لیگ کے وفد نے صدرآصف علی زرداری اور اُن سے ملاقات کی اور کہا کہ حکومت نے 27 ویں ترمیم کی منظوری کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی سے تعاون کی درخواست کی ہے۔ تجاویز میں آئینی عدالتوں کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس، ججز کے تبادلوں کی شقیں، این ایف سی میں صوبائی کوٹے کے تحفظ کا خاتمہ اورآرٹیکل 243 میں ترامیم شامل ہیں۔آئینی ترامیم کی تجاویز میں تعلیم اورآبادی کی منصوبہ بندی کے شعبوں کی وفاق کو واپسی اور الیکشن کمیشن میں تقرریوں پر ڈیڈ لاک توڑنے سے متعلق نکات بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی پالیسی کا فیصلہ کرنے کیلئے پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس 6 نومبر کو ہو گا۔ حکومت نے آئینی ترمیم کا مسودہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ شیئر کر دیا ہے۔ اس مسودے میں یو ں تو تمام مجوزہ ترامیم اہمیت کی حامل ہیں مگر جو چیزیں موجودہ صورتحال میں توجہ طلب ہیں ان میںآئین کے آرٹیکل 160 اور آرٹیکل 243 میں ترامیم ہیں۔

آرٹیکل 243 کمانڈآف آرمڈ فورسز سے متعلق ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ مسلح افواج کی کمان اور کنٹرول وفاقی حکومت کے پاس ہو گا۔ صدر، وزیر اعظم کے ساتھ مشورے پر چیئرمین جوائنٹ چیف آ ف سٹاف کمیٹی، چیف آف آرمی سٹاف، چیف آف نیول سٹاف، اور چیف آف ایئر سٹاف کا تقرر کریں گے اور ان کی تنخواہوں اور الاؤنسز کا تعین بھی کریں گے۔ آئین کاآرٹیکل 160 قومی مالیاتی کمیشن سے متعلق ہے۔ 2010ء میں جب ساتواں این ایف سی ایوار ڈآیا توآئین کے تحت ہر پانچ سال بعد اس کی تشکیلِ نو ہونا تھی مگرآٹھواں، نواں اور دسوں ایوارڈ جاری نہ ہو سکا۔ اب جب حکومت اس ایوارڈ میں تبدیلی کرنا چاہتی ہے تاکہ صوبوں کو ملنے والے محاصل کا کوٹہ تبدیل کیا جائے تو آرٹیکل 160 کی ذیلی شق تھری اے آڑے آئے گی جوکہتی ہے کہ نئے این ایف سی ایوار ڈ میں صوبوں کا کوٹہ اگر تبدیل کرنا ہے تو اسے بڑھایا تو جا سکتا ہے گزشتہ ایوارڈ سے کم نہیں کیا جا سکتا۔ اس رکاوٹ کو دور کرنے کیلئے آئین کے آرٹیکل 160 تین اے میں تبدیلی کی جارہی ہے، اس تبدیلی کے بعد این ایف سی ایوارڈ کا فارمولا بھی تبدیل کیا جا رہا ہے، اس وقت محاصل کی تقسیم کا فارمولا آبادی کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ موجودہ این ایف سی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وفاق کماتا ہے مگر قرض لیتا ہے اور صوبے صرف خرچ کرتے ہیں۔ پاکستان میں معاشی مسائل کی ایک بڑی وجہ یہ فارمولا بھی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی این ایف سی میں تبدیلی کی تجاویز کی ہمیشہ مخالفت کرتی رہی مگر اس مرتبہ پیپلز پارٹی کو اس ترمیم پر مہر ثبت کرنی ہے۔ 

آرٹیکل 191میں ترمیم کرکے مستقل آئینی عدالتیں بنانے کی تجویز ہے۔ اس سے قبل 26 ویں ترمیم کے ذریعے اس آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل آئینی بنچز بنائے گئے۔ ججز کے تبادلوں کی شق میں تبدیلی کیلئے آئین کے آرٹیکل 200 میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن اراکین کے تقرر کے دوران پیدا ہونے والے ڈیڈ لاک کے خاتمے کیلئے آئین کے آرٹیکل 213 ٹو اے، ٹو بی میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔تعلیم اورآبادی کی منصوبہ بندی سے متعلق اہم ترین شعبے اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل کر دیئے گئے تھے مگر صوبے ان شعبوں میں ڈیلور کرنے میں ناکام رہے۔ 27ویںآئینی ترمیم کے بعد یہ دونوں اہم ترین شعبے وفاق کو واپس کرنے کی تجویز ہے۔ 

آئینی ترمیم سات نومبر کو پہلے سینیٹ میں پیش ہو گی اور دو سے تین روز میں منظوری کے بعد قوی اسمبلی جائے گی۔ حکمران اتحاد کے پاس آئینی ترمیم کیلئے نمبرز پورے ہیں۔ قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو 224 ارکان درکار ہیں جبکہ اس کے پاس 237 اراکین ہیں۔ جن میں مسلم لیگ (ن) کے 125، پاکستان پیپلزپارٹی کے 74، ایم کیو ایم کے 22، (ق) لیگ کے 5، استحکام پاکستان پارٹی کے 4، آزاد4، نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ضیا اور بلوچستان عوامی پارٹی کا ایک ایک رکن شامل ہیں۔ سینیٹ میں دو تہائی اکثریت کیلئے 64 اراکین کے ووٹ درکار ہیں جبکہ حکومت کے پاس 65 کا نمبر ہے۔ ایوانِ بالا میں پیپلز پارٹی کے 26، (ن) لیگ کے 21،آزاد 6، اے این پی کے 3، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، ایم کیو ایم کے 3، نیشنل پارٹی اور( ق) لیگ کا ایک ایک سینیٹر ملا کر حکومت کے پاس سینیٹ میں دو تہائی اکثریت موجود ہے، مگر سینیٹ میں قومی اسمبلی کے مقابلے میں دو تہائی اکثریت صرف دو ووٹوں سے ہے، یہی وجہ ہے کہ پہلے سینیٹ کا مرحلہ عبور کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 27ویںآئینی ترمیم ملک کے آئندہ سیاسی منظر نامے پر بڑی تبدیلیاں رونما کرنے جا رہی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔