جان بچ گئی
کسی جنگل میں بہت سے اونچے اونچے خوب صورت درخت تھے۔ ان میں سے ایک درخت کا تنا ٹیڑھا
تھا اور شاخیں ادھر اُدھر جھاڑ کی طرح پھیلی ہوئی تھیں۔
ٹیڑھا درخت ایک دن اپنے دل میں کہنے لگا: '' جنگل کے دوسرے درخت کیسے سیدھے اور خوب صورت ہیں، مگر میں ٹیڑھا ہوں ۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر میں بھی دوسرے درختوں کی طرح سیدھا اور خوبصورت رہتا۔اس ٹیڑھے پن نے تو میری شکل بگاڑ دی ہے۔‘‘ درخت بہت دیر تک اپنی حالت پر افسوس کرتا رہا۔
ابھی زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ ایک بڑھئی اس جنگل میں آ پہنچا۔ وہ اپنے ساتھیوں کی مدد سے جنگل کے درختوں کو کاٹنے لگا۔ اس نے اونچے اور سیدھے درختوں میں سے ایک کو بھی نہ چھوڑا۔
ٹیڑھے درخت کو دیکھ کر بڑھئی بولا: '' یہ درخت ہمارے کام کا نہیں ہے۔ اس میں سے میزکرسیاں اور دوسری چیزوں کیلئے تختے نہیں نکل سکتے‘‘۔
یہ کہہ کر اس نے ٹیڑھے درخت کو چھوڑ دیا۔ درخت دل میں کہنے لگا: '' جس چیز کو میں برا سمجھتا تھا، اس کی وجہ سے آج میری جان بچ گئی ہے‘‘۔
اخلاقی سبق: خدا کے ہر کام میں حکمت ہے۔