جان بچ گئی

تحریر : علشبہ فاطمہ( فیصل آباد)


کسی جنگل میں بہت سے اونچے اونچے خوب صورت درخت تھے۔ ان میں سے ایک درخت کا تنا ٹیڑھا

تھا اور شاخیں ادھر اُدھر جھاڑ کی طرح پھیلی ہوئی تھیں۔

ٹیڑھا درخت ایک دن اپنے دل میں کہنے لگا: '' جنگل کے دوسرے درخت کیسے سیدھے اور خوب صورت ہیں، مگر میں ٹیڑھا ہوں ۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر میں بھی دوسرے درختوں کی طرح سیدھا اور خوبصورت رہتا۔اس ٹیڑھے پن نے تو میری شکل بگاڑ دی ہے۔‘‘ درخت بہت دیر تک اپنی حالت پر افسوس کرتا رہا۔

ابھی زیادہ دیر نہ ہوئی تھی کہ ایک بڑھئی اس جنگل میں آ پہنچا۔ وہ اپنے ساتھیوں کی مدد سے جنگل کے درختوں کو کاٹنے لگا۔ اس نے اونچے اور سیدھے درختوں میں سے ایک کو بھی نہ چھوڑا۔

ٹیڑھے درخت کو دیکھ کر بڑھئی بولا: '' یہ درخت ہمارے کام کا نہیں ہے۔ اس میں سے میزکرسیاں اور دوسری چیزوں کیلئے تختے نہیں نکل سکتے‘‘۔

یہ کہہ کر اس نے ٹیڑھے درخت کو چھوڑ دیا۔ درخت دل میں کہنے لگا: '' جس چیز کو میں برا سمجھتا تھا، اس کی وجہ سے آج میری جان بچ گئی ہے‘‘۔

اخلاقی سبق: خدا کے ہر کام میں حکمت ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔