ایمانداری!

تحریر : طوبیٰ سعید


غلام محی الدین آٹھویں جماعت کا ایک بہت شرارتی، ضدی ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی صاف گو بچہ بھی تھا۔ اس کی پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔اس کی امی ایک نجی سکول کی پرنسپل تھیں۔ وہ اسے پڑھائی میں کامیاب بنانے میں ہر وقت پیش پیش رہتیں۔ان کی کوشوں کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ آٹھویں جماعت تک بمشکل پہنچا تھا۔

 

غلام محی الدین کی آٹھویں کا بورڈ کا امتحان تھا۔ اس کی امی نے اسے کھیل کود سے بہت مشکل سے روک رکھا تھا تاکہ اس کا مستقبل بن جائے۔امی نے اسے بیٹھا بیٹھا کر امتحان کی تیاری کروائی۔

امتحانات کے دوران نقل عروج پر تھی ۔ تمام طالب علم امتحانی عملہ سے مل کر نقل کرنے میں مصروف تھے مگر غلام محی الد ین کو جتنا اور جیسا آتا ، پیپر کرکے آ جاتا۔ ایک روز اسے پیپر بے حد مشکل لگ رہا تھا اور وہ اسے حل نہیں کر پارہا تھا۔امتحانی وقت ختم ہونے میں کوئی آدھا گھنٹہ رہ گیا تھا۔ امتحانی عملے نے اس کی صورتحال کو جانچتے ہوئے اسے پرچہ جلدی کروانے کے چکر میں کچھ پرچہ کے نقل شدہ صفحات مہیا کیے کہ یہ جلدی جلدی سارا پرچہ حل کرلے لیکن غلام محی الدین نے نقل والے صفحات لینے سے انکار کردیا۔ تھوڑا بہت جیسا بھی آتا تھا، اپنی مدد آپ کے تحت پیپر کرنے میں لگا رہا۔ اسے ہال میں موجود کئی لوگوں نے حتیٰ کہ قریبی ساتھیوں نے بھی نقل کرنے کا کہا کہ جلدی کرلو پھر باہر جاکر کھیل لیں گے۔ مگر غلام محی الدین ذرا ٹس سے مس نہ ہوا اور برابر اپنا پیپر کرنے میں لگا رہا۔بالآخر وقت ختم ہو گیا اور وہ پرچہ جمع کروا کر گھر روانہ ہوگیا۔

شدید غصہ میں بڑبڑاتا ہوا گھر پہنچا تو اس کی امی نے حسب معمول پرچہ کے بارے میں پوچھا۔ جہاں اس کے کئی کز نز بھی موجود تھے۔ غلام محی الدین شدید غصے میں سب کے سامنے بولا''میں آئندہ کوئی پیپر نہیں دوں گا۔ اتنی نقل، میرے سامنے کاغذ رکھ دیے کہ کر لو، اوپر سے مجھے آ بھی نہیں رہا تھا‘‘۔

اس کی امی نے پوچھا '' کیا تم نے نقل کی ‘‘۔ تو آگے سے بولا'' نہیں میں کیسے نقل کرلوں، مجھے اچھا نہیں لگتا۔ مجھے جتنا آتا تھا، چپ کر کے کرلیا۔ بس اب اور نہیں پڑھا جاتا مجھ سے‘‘۔ اس کا جواب سن کر اس کے کزنز کافی متاثر ہوئے اور اسے شاباش دی۔

غلام محی الدین بولا'' میں جب بڑا ہوکر کچھ بن گیا نا تو نقل اس ملک سے سب سے پہلے ختم کروں گا ‘‘۔ غلام محی الدین کے اس عزم سے سب بہت خوش ہوئے۔

اس کی امی نے کہا ''اس کیلئے پہلے تمہیں دل لگا کر پڑھنا پڑے گا، پھر ہی کچھ حاصل ہوگا ‘‘ ۔ غلام محی الدین پڑھائی کا نام سن کر پھر سے منہ بنانے لگا۔

تین ماہ بعد رزلٹ آیا تو غلامی محی الدین 50فیصد نمبرز سے پاس ہوگیا۔ اس کے پاسنگ نمبر حاصل کرنے کو اس کی امی نے کامیابی سمجھا اور اسے بہت پیار دیا۔ اس کی امی نے اس کی سکول ٹیچرز کو اس کی ایمانداری کے بارے میں بتایا کہ اس نے دورانِ امتحان کس طرح خود کو نقل کرنے سے بچایا اور اپنی مدد آپ کے تحت پاس ہوا۔ یہ سن کر سب ٹیچرز نے اسے شاباش دی اور نویں کلاس میں پوری محنت کرنے اور ایمانداری جاری رکھنے کا حوصلہ دیا۔ جس سے اس میں بھی پڑھنے اور آگے بڑھنے کا اعتماد بحال ہوا۔

اب یہی غلام محی الدین ایک بہت اچھا اور کامیاب صاحبِ روزگار ہے اور پوری ایمانداری سے اس کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔

تو پیارے بچوں! جو بچہ پڑھائی میں کم دلچسپی رکھتا ہو نا وہ ضروری نہیں کہ وہ نالائق ہو، بے ایمان ہو یا ناکام ہو۔ ان میں ضرور کوئی اچھے گٹس ہوتے ہیں جو انھیں کامیابی کی جانب لے جاتے ہیں۔ چاہے وہ کتنے ہی آہستہ آگے بڑھیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔