سخاوت کا دریا:(دوسری قسط )
چنانچہ مسلمانوں نے کفار کے الزامات کو رد کرنے اور اپنے دین کی حقیقت واضح کرنے کیلئے جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو منتخب کیا۔ انہوں نے دربار میں نجاشی کے سامنے کھڑے ہو کر واضح کیا کہ ان کا دین غالب اور کار ساز قوت اللہ تعالیٰ کی عبادت کی دعوت دیتا ہے۔
گناہوں میں ڈوبے ہوئوں کو نیکی کے راستے پر چلنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اسلام کے عقائد اسی منبع سے پھوٹتے ہیں جس سے سید نا عیسیٰ علیہ السلام نے رہنمائی حاصل کی۔ سید نا جعفر ؓنے نجاشی کے سامنے سورہ مریم کی کچھ آیات کی تلاوت بھی فرمائی۔ نجاشی نے یہ آیات سن کر کہا یقیناً یہ وہی تعلیم ہے جسے لے کر مسیح اور موسیٰ علیہ السلام تشریف لائے تھے۔ اس کے بعد اس نے عمرو بن عاص اور عبداللہ بن ابی ربیعہ کو واپس جانے کا حکم دیا۔
جعفر بن ابی طالبؓ سید نا علی المرتضیٰ ؓ کے سگے بھائی اور نبی کریمﷺ کے چچا زاد بھائی ہیں۔ وہ سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے تھے۔ نہایت متقی، پرہیز گار اور سخی تھے۔ انہوں نے اپنی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے ہمراہ ہجرت کی تھی۔ حبشہ میں قیام کے دوران ان کے ہاں عبداللہ، محمد اور عون نامی بچے پیدا ہوئے۔ جب عبداللہ ؓ کی پیدائش ہوئی تو اس کے کچھ دن بعد نجاشی کے ہاں بھی بیٹا پیدا ہوا۔ اس نے سید نا جعفرؓکے ہاں پیغام بھیجا کہ آپؓ نے اپنے بیٹے کا نام کیا رکھا ہے۔ سید نا جعفر ؓ نے جب بیٹے کا نام بتایا تو اس نے بھی اپنے بیٹے کا نام عبداللہ رکھ لیا۔ اسے اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے دودھ بھی پلایا۔
زندگی میں امن و سکون ہو، اجنبی سرزمین کے اجنبی لوگ، گلے لگا کر اپنوں کا سا پیار دیں تو آدمی ساری مشکلات اور مصائب بھول جاتا ہے۔ البتہ ایک کسک، ایک تڑپ اس کے دل میں ہمیشہ جاگتی رہتی ہے۔ وہ ہے اپنے وطن سے محبت۔ سید نا جعفر بن ابی طالب ؓ اور دیگر صحابہ کرام ؓبھی دل میں واپسی کی شدید خواہش رکھتے تھے۔ ان کی یہ خواہش فتح خیبر کے موقع پر پوری ہوئی۔ خیبر پہنچنے پر رسول اللہ ﷺ نے سید نا جعفر ؓ کو دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔ اور ان کی آمد پر مسرت کا اظہار ان الفاظ میں کیا: '' مجھے معلوم نہیں، جعفر کے آنے کی زیادہ خوشی ہے یا خیبر فتح ہونے کی‘‘۔ سید نا جعفر ؓ نے جنگ موتہ میں شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔ جب نبی کریم ﷺ نے ان کی شہادت کی خبر ان کی بیوی کو دی تو ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی سنائی کہ یقیناً اللہ تعالیٰ نے جعفر ؓکے دو پر لگا دیئے ہیں۔ وہ جنت میں ان پروں کے ساتھ اڑتے پھرتے ہیں۔
سید نا جعفر ؓ کے لاڈلے بیٹے عبداللہ ؓسے رسول اللہ ﷺ کو بہت زیادہ محبت تھی۔ صرف اس لئے نہیں کہ وہ ان کے چچا زاد بھائی کا بیٹا تھا بلکہ خود ان میں بہت سی ایسی صفات تھیں جن کی بنا پر وہ سب کی توجہ اور محبت حاصل کر لیتے تھے۔ جو شخص بھی عبداللہ بن جعفرؓکو دیکھتا تو اس کا دل بے اختیار اس بات کی شہادت دینے لگتا کہ اس بچے کی ذات میں بھلائی اور نیکی کی خوبیاں نمایاں ہیں۔ جو ان کی گفتگو سن لیتا وہ پہچان لیتا کہ وہ عمدہ عقل و دانش کے مالک ہیں۔ ایک دن ابو سفیان ؓ اپنی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے۔ ام حبیبہؓرسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ تھیں۔ اس وقت ان کے پاس عبداللہ بن جعفرؓبھی موجود تھے۔ انہیں دیکھ کر ابو سفیان ؓنے کہا: '' اے میری پیاری بیٹی! اس لڑکے سے سخاوت کی مہک اٹھ رہی ہے، عزت و شرف چمک رہا ہے اور شرم و حیا جھلک رہی ہے‘‘۔
عبداللہؓ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت رسول کریم ﷺ کے ساتھ گزارتے، جس کے نتیجے میں انہیں بھی زیادہ توجہ اور محبت ملتی۔ لوگوں نے بھی دیکھا تھا کہ سید نا جعفرؓ کی شہادت والے دن آپ ﷺ نے عبداللہ ؓکا ہاتھ پکڑا اور اس کے سر پر اپنا ہاتھ پھیرتے رہے، حتیٰ کہ منبر پر چڑھے اور عبداللہ ؓ کو منبر کی نیچے والی سیڑھی پر بٹھا لیا اور لوگوں کو ان کے باپ کی وفات کی خبر دی۔
عبداللہ بن جعفر ؓ کی ہمیشہ یہ خواہش اور کوشش رہتی تھی کہ نبی مہرباںﷺ کی توجہ کا مرکز بنے رہیں۔ ان کی قربت کی تمنا انہیں ہمیشہ ساتھ ساتھ رکھتی۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے مجھے سواری پر اپنے پیچھے بٹھا لیا اور چپکے سے مجھے ایک بات کہی جو میں نے لوگوں میں سے کسی کو نہیں بتائی کیونکہ وہ صرف میرے لئے تھی۔ اپنے پیچھے سواری کا شرف بخشا اور اپنے ساتھ کسی بات میں شریک کرنا، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ نبی ﷺ کے دل میں ان کا ایک خاص مقام تھا اور وہ بہت زیادہ قرب رکھتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ سفر سے واپس آئے تو سید نا حسن رضی اللہ عنہ یا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ انہیں بھی پیچھے سوار کر لیا۔ اس طرح تینوں ایک ہی جانور پر سوار ہو کر مدینہ میں داخل ہوئے۔ عبداللہ بن جعفر ؓفرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک بات فرماتے سنا۔ مجھے وہ بات سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب ہے( سرخ اونٹ بڑے قیمتی ہوتے ہیں یعنی قیمتی اونٹوں سے زیادہ محبوب ہے) آپ ﷺ نے فرمایا: '' جعفر میری جسامت اور اخلاق میں سب سے زیادہ میرے مشابہ تھے، اور اے عبداللہ، تمام مخلوق میں سب سے زیادہ تم اپنے باپ سے مشابہ ہو‘‘۔ غالباً رسول اکرم ﷺ کے فرمان کا مقصد یہ تھا کہ تم شکل و صورت اور اخلاق میں میری مشابہت رکھتے ہو۔ اس قربت اور مقام کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ عبداللہ ؓ کیلئے دعا کیا کرتے تھے: ''اے اللہ! جعفر کے اہل و عیال میں خلیفہ بنا دے اور عبداللہ کے سودے میں برکت فرما دے‘‘۔
ایک مرتبہ سید نا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے غیر آباد، بنجر زمین خرید لی۔ زمین خریدنے کے بعد اس میں دو رکعت نماز پڑھی اور دعا کی۔ ان کے سجدے کی جگہ سے ایک چشمہ پھوٹ پڑا اور تمام زمین اسی چشمے کی بدولت زرخیز اور شاداب ہو گئی۔ یہ سب نبی کریم ﷺ کی دعائوں کا اثر تھا۔ (جاری ہے)