امن جرگہ، بڑی سیاسی پیش رفت
خیبرپختونخوا دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، یہ جملہ گزشتہ بیس سال سے سُن رہے ہیں لیکن اس عفریت سے کیسے چھٹکارا پانا ہے اس پر اتفاق رائے نہیں۔ سیاسی قیادت اور مقتدرہ کبھی ایک پیج پر ہوتے ہیں تو کبھی دو الگ الگ انتہاؤں پر کھڑے ہوتے ہیں۔
سانحہ آرمی پبلک سکول کے وقت تمام تراختلافات کے باوجود سیاسی جماعتیں، مقتدرہ اور عوام ایک پیج پر آگئے تھے جس کے بعد آپریشن شروع ہوئے اور دہشت گردوں کی جنت قرار دیئے جانے والے علاقوں کو صاف کیاگیا۔ یہ سنہری موقع تھا کہ ان علاقوں میں تعمیر وترقی کے دروازے کھلتے، سڑکیں اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی جیسی سکیمیں شروع کی جاتیں، زندگی کی بنیادی سہولیات جیسے صحت اور تعلیم، فراہم کی جاتی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ان علاقوں میں امن کے موقع سے فائدہ نہیں اٹھایاگیا۔نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں ہوئے جس کی ذمہ داری صوبائی اور وفاقی حکومت پر ہے۔ اب ایک بارپھر وانا کیڈٹ کالج میں آرمی پبلک سکول جیسا واقعہ دہرانے کی کوشش کی گئی۔ دہشت گردوں نے کالج کے گیٹ کے سامنے بارود سے بھری گاڑی سے دھماکہ کیا،چار دہشت گرد اندر گھس گئے اور طلبا تک پہنچنے کی کوشش کی، سکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کی اور انہیں ایڈمن بلاک کی طرف دھکیل دیا۔طلبا کی طرف جانے والے راستے مسدود کردیئے گئے۔33 گھنٹے طویل آپریشن کے دوران مختلف مراحل میں پہلے طلبا کو نکالاگیا اور اس کے بعد دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچا یاگیا۔اس دوران دہشت گرد افغانستان میں اپنے سہولت کاروں سے رابطے میں رہے۔ یہ بات ایک بارپھر ثابت ہوگئی کہ ہمسایہ ملک دہشت گردوں کیلئے جنت بن چکاہے جہاں انتہائی خطرناک دہشت گرد تنظیمیں دوبارہ جنم لے رہی ہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان دہشت گردوں کے سہولت کار یہاں بھی موجود ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ عوام کی حمایت کے بغیر نہیں جیتی جاسکتی، اس کیلئے لوگوں کے اعتماد کو جیتنا ہوگا۔سیاسی جماعتوں اور مقتدرہ کوایک پیج پر آنا ہوگا۔وانا کیڈٹ کالج میں 650کے قریب لوگ تھے جن میں 537طالبعلم تھے۔خدانخواستہ اے پی ایس جیسا واقعہ یہاں ہوجاتا توپھر کیاہوتا؟اس کیڈٹ کالج میں زیرتعلیم بچوں کا تعلق انہی علاقوں سے تھا،جواپنا مستقبل سنوارنے آئے تھے۔ دہشت گردوں کے مقامی سہولت کاروں کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ دہشت گردی کا اژدھا ان کے اپنے بچے ہی نگلنے والا تھا۔ وقت آگیا ہے کہ اے پی ایس جیسے واقعے کا انتظار نہ کیاجائے اور تمام سیاسی قوتیں، عوام اور مقتدرہ ایک پیج پر آجائیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے بظاہر اس کی ابتدا کردی ہے۔ گزشتہ روز پشاور میں ہونے والاامن جرگہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ایک امیدافزا پیش رفت دیکھنے میں آئی، سپیکر خیبرپختونخو ا کی طرف سے امن جرگہ بلانے کا اعلان کیاگیا۔پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت خود تمام اپوزیشن جماعتوں کی طرف گئی اور انہیں جرگے میں شرکت کی دعوت دی۔ اس سے بھی خوش آئندبات یہ تھی کہ ان جماعتوں نے شرکت پر آمادگی ظاہر کی۔ یہ پی ٹی آئی کے دورِاقتدار میں آنے کے بعد پہلا موقع ہے کہ اس طرح کا جرگہ منعقد ہوا او راس میں دیگر سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی نے شرکت کی ہو۔اس جرگے کی سفارشات کو بھی اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔ جرگے سے قبل مخالفین کی طرف ہاتھ بڑھانے کی اس کوشش کی داد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور سابق سپیکر اسد قیصر کو دینی بنتی ہے۔ اس تمام معاملے میں اسد قیصر پیش پیش رہے اور مختلف جماعتوں کو دعوت دینے خود گئے۔ سب سے خوش آئند بات گورنر خیبرپختونخو فیصل کریم کنڈی کو بھی اس جرگے میں دعوت دینا ہے۔ گورنر وفاق کا نمائندہ ہوتاہے اور ان کی شرکت کا مطلب وفاق کی نمائندگی ہی سمجھا جائے گا، یعنی صوبائی حکومت کے بلائے گئے جرگے میں وفاق کی نمائندگی۔اس جرگہ میں پیش کی گئی سفارشات انتہائی اہم ہیں۔ صوبائی حکومت کے اس جرگے سے قبل اضلاع کی سطح پر جرگے منعقد کئے گئے تھے اور ان کی جانب سے پیش کی گئی تجاویزکی روشنی میں یہ جرگہ بلایا گیا۔
وزیراعلیٰ سہیل آفریدی صوبے میں امن کے قیام کیلئے سنجیدہ لگتے ہیں لیکن اس کیلئے انہیں اپنے الفاظ کے چناؤ پر غور کرنا ہوگا۔انہوں نے مساجد میں کتے باندھنے کا جو بیان دیا ہے وہ انتہائی غلط اور بھونڈا الزام ہے۔ خیبرپختونخوا کا کوئی بھی صحافی جو گزشتہ بیس پچیس سالوں سے ان علاقوں میں رپورٹنگ کررہا ہے ایسے کسی بھی واقعے کی تصدیق نہیں کرسکتا۔اس میں دو رائے نہیں کہ آپریشنز کے دوران عوام بھی فائرنگ یا گولہ باری کا نشانہ بنے ہیں لیکن یہ کہنا کہ مساجد میں کتے باندھے گئے یہ ایک غیر ذمہ دارانہ بیان ہے جس سے ان کے حوالے بعض حلقوں میں پائی جانے والی منفی سوچ مزید پروان چڑھ سکتی ہے۔ اس تاثر کو وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی جانب سے مثبت اقدامات کے ذریعے زائل کرنا ہوگا۔جس طرح سے انہوں نے خیبرپختونخواکی اپوزیشن کیلئے اپنے دروازے کھولے ہیں، جیسے وہ بار بار گورنر کو گلے لگا رہے ہیں اسی طرح انہیں ان حلقوں کو بھی اپنی طرف مائل کرنا ہوگا جو ان کے ماضی قریب میں دیئے گئے بیانات کی وجہ سے ان کے بارے میں منفی تاثر رکھتے ہیں۔
پشاور میں ہونے والاامن جرگہ محض ایک جرگہ نہیں بلکہ یہ امن کی طرف ایک بہت بڑی پیش رفت تھی۔ اگریہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ پی ٹی آئی کی ایک بہت بڑی سیاسی پیش رفت ہے۔ جے یو آئی جو علی امین گنڈا پور کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں تھی وہ بھی صوبے میں امن کی خاطر آگے بڑھنے کو تیار ہوگئی ہے۔ یہی موقع ہے کہ پی ٹی آئی ماضی کی تلخیوں کو کم کرے، سیاسی جماعتوں سے تعلقات استوار کرے،سیاسی رہنماؤں کے خلاف غلط الفاظ کااستعمال بند کرے، مقتدرہ کے ساتھ تعلقات بحال کرے اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ امن وامان کے حوالے سے سکیورٹی فورسز کی جانب سے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی بریفنگ لیں۔ وفاق اور مقتدرہ کے مؤقف کو سمجھیں، انہیں اپنا مؤقف سمجھائیں اور مل جل کر آگے بڑھیں۔ اس وقت ہماری مشرقی اور مغربی دونوں سرحدیں گرم ہیں، سازشوں کے جال بُنے جارہے ہیں، دہشت گرد اسلام آباد تک پہنچ گئے ہیں، وقت آگیا ہے کہ باہمی اختلافات ختم کئے جائیں، دہشت گردی کے خلاف ایک پالیسی بنائی جائے چاہے وہ مذاکرات کی ہو یا آپریشن کی لیکن پالیسی ایک ہونی چاہئے ورنہ اب یہ نوشتۂ دیوار ہے کہ دامن کسی کا بھی نہیں بچے گا،گھر کسی کا بھی سلامت نہیں رہے گا۔افغانستان میں اگنے والی دہشت گردی کی نرسریاں اس ملک کی وحدت کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ پی ٹی آئی کو ان سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے بھی لاتعلقی اختیار کرناہوگی جو ڈالروں کی خاطر اس کی پالیسیوں پر اثرانداز ہورہے ہیں اور فوج اور عوام کے مابین نفرت پھیلارہے ہیں۔ان مفاد پرست گروہوں سے جان چھڑانے کاوقت آگیا ہے۔