دھرنا: کیا کھویا, کیا پایا ؟

دھرنا: کیا کھویا, کیا پایا ؟

اسپیشل فیچر

تحریر : محمد عامر خاکوانی کا تجزیہ


جمعہ کی شام اسلام آبادمیں جاری دھرنے کے خوشگوار اختتام نے جہاں ملک بھر کے عوام کی بے چینی اور اضطراب کو دور کر دیا ، وہاںاس غیرمعمولی اہم واقعے نے ہمارے سیاسی اور جمہوری نظام کو بھی کئی نئے سبق دیے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں لانگ مارچ اور دھرنے کے ہفتہ بھر کے تجربے سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں۔پاکستان کے عوام، سیاسی اشرافیہ اور مقتدر قوتوں نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ان میں کم عمر ہونے کے باوجود پختگی اور شعور موجود ہے، مشرق وسطیٰ میں عرب سپرنگ یا عرب بہار کے برعکس یہاں پرزیادہ سمجھداری اور ہوشمندی کے ساتھ معاملات سلجھائے گئے۔ حالات بظاہر بندگلی میں چلے جانے کی نشاندہی دے رہے تھے ، مگر اچانک ہی فریقین نے ہوشمندی کا مظاہرہ کیا اورخوبصورتی سے اس پورے قضیے کو نمٹا دیا۔ اس ایک ہفتے کے دوران مختلف سیاسی قوتوں، انٹیلی جنشیا، میڈیا اورمقتدر قوتوں نے کیا کیا کردار ادا کیا،اس کے نتیجے میں انہیں کیا ملا…، اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں: علامہ طاہرالقادری کا کردار آغاز تحریک منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہرالقادری سے کرتے ہیں۔ علامہ صاحب ایک معروف دینی سکالر اور خطیب ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔وہ اپنے بعض بیانات اور ماضی میں چند ایشوز پرموقف بدلتے رہنے کے باعث متنازع رہے ہیں۔ 80ء کی دہائی میں ان کی بشارتوں کے حوالے سے بیان کئے گئے بعض خواب اوراپنے اوپر قاتلانہ حملے کے دعوے کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کے ٹریبونل کی رپورٹ ہمیشہ ان کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔پولیٹیکل سائنس کی اصطلاح میں وہ اچھے خاصے بوجھ(Baggage)کے ساتھ سیاست کی وادی خارزار میںسفر کر رہے تھے۔ چند برس قبل وہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اسمبلی کی رکنیت سے استعفا دے کر کینیڈا چلے گئے تھے، اس وقت کہا گیا کہ وہ اپنا زیادہ وقت علمی وتدریسی مشاغل کو دینا چاہتے ہیں۔ تین چار سال پہلے انہیں وہاں کی نیشنلٹی بھی مل گئی۔اس دوران علامہ صاحب سیاست سے قدرے دور رہے ،مگر ان کے پاکستان میں رابطے مسلسل قائم رہے، منہاج القرآن کا بڑا تعلیمی نیٹ ورک پچھلے چند برسوں میں بہت زیادہ بڑھا، یہ سب علامہ صاحب کی نگرانی میں ہوا۔ اس دوران ان کی تحریر کردہ کئی کتب بھی شائع ہوئیں، جن میں ترجمہ قرآن ’’عرفان القرآن‘‘، احادیث کا مجموعہ اور خودکش حملوں کے خلاف کئی سو صفحوں پر محیط ایک مبسوط فتویٰ قابل ذکر ہے۔ پاکستانی میڈیا لانگ مارچ کے دنوں میںقادری صاحب سے بار بار یہ کہتا رہا کہ آپ اچانک کیسے آ گئے؟ دراصل یہ ہمارے تجزیہ کاروں اور نیوز اینکرز کی روایتی لاعلمی اوربے خبری تھی۔ سیاست کو باریک بینی سے مانیٹر کرنے والے جانتے تھے کہ طاہرالقادری صاحب بتدریج سیاسی اعتبار سے فعال ہو رہے ہیں۔ سال ڈیڑھ پہلے سے لاہور کے بعض موٹر رکشوں کے پیچھے قادری صاحب کا یہ نعرہ نمودار ہوا،چہرے نہیں، نظام بدلو۔ نظام بدلو کے نام سے ایک ویب سائیٹ بھی بنا دی گئی تھی۔اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر قادری صاحب کے حامی اچانک ہی بہت متحرک ہوگئے تھے۔ نظام بدلنے اور قومی سیاست میں جوہری تبدیلیاں لانے کے حوالے سے قادری صاحب کی تقاریر کے ویڈیو کلپس اور تحریریں فیس بک پیجز پر لگائی جانے لگیں۔ رفتہ رفتہ یہ عمل بڑا تیز ہوگیا ۔ اس وقت بھی سوشل میڈیا پر دو تین سب سے متحرک گروپوں میں سے ایک تحریک منہاج القرآن ہے۔ تئیس دسمبر کے جلسے سے چار پانچ ماہ پہلے قادری صاحب نے لاہور کے تھنک ٹینک کونسل آف نیشنل افئیرز کے صحافیوں اور دانشوروں کو منہاج مرکز میں دعوت دی اور ویڈیو کانفرنس کے ذریعے انہیں بریفنگ دی، سوال جواب کا سیشن بھی ہوا۔ اس میں قادری صاحب نے بتایا کہ وہ پاکستان واپس آ رہے ہیں اور ایک بڑا جلسہ کریں گے۔ تاہم اخبار نویسوں نے قادری صاحب کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔پھر تئیس دسمبر کے جلسے کے لئے کمپین شروع ہوگئی، دسمبر کے اوائل میں میڈیا کو احساس ہوا کہ قادری صاحب کے حامی جس محنت سے مہم چلا رہے ہیں، وہ بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ قادری صاحب نے پہلے اپنے جلسے ، لانگ مارچ اور پھر چار پانچ دن کے دھرنے کے بعد اپنا امیج تبدیل کر لیا۔ ایک غیر اہم، مبالغہ آمیز تقاریر کرنے والے خطیب کے بجائے اب انہیں ایک اہم ، عوامی مقبولیت رکھنے والا طاقتور سیاستدان تصور کیا جائے گا۔ آئندہ میڈیا یا کوئی سیاسی جماعت انہیں Easy نہیں لے گی۔ ان کے کسی دعوے یا اعلان کو نظرانداز کرنا اب ممکن نہیں۔ بڑی مہارت اور دانشمندی سے انہوں نے اپنے پتے کھیلے اور اسلام آباد کے قلب میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔انہوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو ایک طرح سے آئوٹ کلاس کر دیا۔ان کا اعتماد بھی دیدنی تھا، چودھری برادران کے پیچھے ہٹنے اور عین وقت پر ایم کیو ایم کے دغا دے جانے کے باوجود وہ اپنے پروگرام سے پیچھے نہیں ہٹے اور کامیابی حاصل کر لی۔ وہ ایک ایسے سیاستدان کے طور پر ابھرے ہیں، جن کی اب ہمارے سیاسی منظرنامے میں ایک خاص جگہ اور مستقبل ہے۔انہوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ لاکھوں افراد کے لئے ایک روحانی رہنما کی حیثیت بھی رکھتے ہیں، ایسا لیڈر جس کے کہنے پر لوگ اپنے معصوم شیر خوار بچے ساتھ لے کر میدان میں کود سکتے ہیں۔ایک زمانے میں پیر پگارا کے حروں کو یہ حیثیت حاصل تھی۔ تحریک منہاج القرآن کا تاثر ایک خالصتاً علمی اور دعوتی تحریک کا تھا، اب اس نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ ان کے پاس انتہائی منظم اور مشکل ترین حالات میں ڈسپلن قائم رکھنے والے کارکن موجود ہیں۔ ایسے کارکن جن پر کسی قسم کے پروپیگنڈہ کا کوئی اثر نہیںاور وہ رہنمائی کے لئے اپنے قائد کی جانب ہی دیکھتے ہیں۔ دھرنے کے سبق قادری صاحب کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خطابت اپنی جگہ ،مگر مطالبے وہی مانے جاتے ہیں جو حقیقت پسندانہ ہوں اور جن کی وسیع پیمانے پر پزیرائی ہوسکے۔انہوں نے اسلام آباد پہنچنے کے بعد شروع میںغیر حقیقی مطالبے کئے، حکومت اور وزرا کو سابق اور پارلیمنٹ کی تحلیل اورالیکشن کمیشن کی فوری تشکیل نو کا کہا۔ یہ مطالبے مانے جانے والے نہیں تھے ، شائد وہ دبائو بڑھانے کے لئے ایسا کر رہے تھے ، مگر ان کا زیادہ مثبت اثر نہیں ہوا۔ بعد میںانہوں نے دانشمندی سے اپنے پرانے اور حقیقی نکات پر توجہ دی اور کم وبیش تمام مطالبے منوا لئے۔ اگلے روز اگرچہ میڈیا کے ایک حصے نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ قادری صاحب کے مطالبے نہ مانے گئے ، مگرحقیقت اس کے برعکس تھی۔ علامہ طاہرالقادری کا اصل مطالبہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ ، تریسٹھ کے امیدواروں پر اطلاق، سکروٹنی کی مدت میں توسیع اور عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 77تا 82 میں تبدیلی لانا تھا۔ الیکشن کمیشن کے اختیارات میں اضافہ کامطالبہ بھی اس وجہ سے تھا۔ یہ تمام باتیں مانی گئی ہیں، نگران وزیراعظم کے لئے بھی انہیں ایک سٹیک ہولڈر کے طور پر مان لیا گیا ہے۔ اگر اس معاہدے پر عمل درآمد ہوا تو بڑی حد تک بدنام اور کرپٹ امیدواروں کا صفایا ہوجائے گا۔اس لحاظ سے بڑی کامیابی کہی جا سکتی ہے۔تحریک منہاج القرآن کو یقیناً یہ اندازہ ہو گیا ہو گا کہ دھرنے کے آخری روز بارش کے باعث ان کے لئے آپشنز محدود ہوگئی تھیں، اس سے پہلے بعض اپوزیشن جماعتوں نے میاں نواز شریف کی قیادت میں مشترکہ اعلامیہ جا ری کر کے قادری صاحب اور ان کے حامیوں کو سیاسی طور پر تنہا کر دیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ وہ بند گلی میں چلے گئے ہیں، اگر حکومت دانشمندی سے کام نہ لیتی ، مذاکرات نہ کرتی اور محفوظ راستہ نہ دیتی توصورتحال خاصی مشکل ہو گئی تھی۔ سیاست میں واپسی کے راستے کھلے رکھنے چاہیں، قادری صاحب نے ایسا نہیں کیا، وہ انتہا پر چلے گئے تھے۔ تیونس، مصر اور یمن وغیر ہ میں عرب سپرنگ کی کامیابی کی ایک وجہ ان ممالک کے دارالحکومت کی خاص پوزیشن تھی۔ مصر میں تحریر اسکوائر پر جمع ہونے والے لاکھوں افراد قاہرہ کے رہائشی تھے، اگرچہ دوسرے شہروں سے بھی لوگ آئے ،مگر بنیادی طور پر وہ مظاہرے ان شہروں کے اپنی آبادی نے کئے تھے۔ یہی تیونس اور یمن میں ہوا۔ لیبیا اور شام میں صورتحال مختلف تھی، وہاں دارالحکومت میں اپوزیشن کی گرفت مضبوط نہیں تھی، اس لئے ان مظاہروں کا اس طرح اثر نہ ہوسکا۔ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کا دھرنا بھی وہاں کے مقامی آبادی کا اجتماع تھا، جن کے لئے گھروں سے ساز وسامان لانا بھی آسان تھا اور لوگ اپنی پوزیشنیں بھی بدل سکتے تھے۔ ایک دو راتوں کے بعد ضرورت پڑنے پر چند گھنٹوں کے لئے اپنے گھروں میں سستایا جا سکتا تھا۔ قادری صاحب کے لانگ مارچ میں ایسی کوئی سہولت موجود نہیں تھی۔ اس کا تمام تر دارومدار شرکا کے عزم وایثار پر تھا۔ اگر چہ قادری صاحب خوش قسمتی سے اس بار کامیاب ہوئے ،مگر شرکا کا اس قدر سخت امتحان لینا رسک ہوتا ہے، اگر ایسی بارش دو دن پہلے ہوجاتی ، تب کیا ہوتا؟اس وقت تک تو دھرنے کا ٹیمپو بھی نہیں بنا تھا۔ حکومتی اتحادکی سیاسی کامیابی پیپلز پارٹی کی حکومت پر بہت سے حوالوں سے سخت تنقید کی جاتی ہے، جو یکسر بے وزن بھی نہیں، ایک بات مگر اس نے یہ ثابت کر دی ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت ہے اور سیاسی انداز سے سوچتی ہے۔ ایک وقت میں وفاقی حکومت سخت مشکلات کا شکار تھی، پنجاب حکومت لانگ مارچ کو پنڈی پہنچا کر سکون سے تماشا دیکھ رہی تھی،تمام تر دبائو مرکز پر تھا۔ اس مشکل وقت میں پیپلز پارٹی نے اپنے اتحادیوں کو ساتھ ملایا اوراعلیٰ سطحی وفد کے ذریعے مذاکرات کئے ،یوں ڈیڈلاک بھی ختم کیا اوراس معاہدے پر عمل درآمد کرا کر وہ الیکشن کے عمل کا شفاف بنانے کا کریڈٹ بھی لے سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے سخت گیر سوچ رکھنے والوں کو سائیڈ پر کیا اور اس کے ثمرات بھی انہیں مل گئے۔ اگر خدانخواستہ تصادم ہوجاتا تو اس کے خوفناک نتائج نکلتے۔ لال مسجد کے سانحے کے اثرات سے ہم ابھی تک نہیں نکل سکے، ملک کسی اور ہولناک واقعہ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔پیپلز پارٹی کا اصل امتحان لانگ مارچ ڈیکلئریشن پر عمل کرانا ہے۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ صرف منہاج القرآن ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں انتخابی اصلاحات کی خواہش موجود ہے۔ یہ اچھا موقعہ ہے کہ ہمارے سیاستدان جمہوری نظام کی تطہیر کریں، اس سے جمہوریت دشمن قوتوں کو شدید حوصلہ شکنی ہوگی۔ میڈیا اور تجزیہ کار اب یہ مان لینا چاہیے کہ میڈیا اور ہمارے تجزیہ کاروں نے علامہ طاہرالقادری کو انڈر اسٹیمیٹ کیا۔ وہ علامہ صاحب کے شخصی اثر اور قوت کا اندازہ نہ لگا سکے۔ میڈیا کے بیشتر حصے کو یقین تھا کہ لانگ مارچ ہو ہی نہیں سکے گا۔دھرنے کے دوران بھی کوریج کرتے ہوئے انہیں شرکا ء کے موڈکا اندازہ نہیں ہوسکا۔ کئی اینکر خواتین چیختی رہیں کہ آپ لوگوں کو سردی کیوں نہیں لگ رہی، بچے بیمار ہوجائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ انہیںسمجھنا چاہیے تھا کہ لوگ کسی جذبے اور کمٹمنٹ کے ساتھ ہی یہاں تک آئے ہیں اور یہ یوں واپس نہیں جائیں گے۔ ہمارے اہل دانش اور تجزیہ کاروں نے سب سے اہم غلطی یہ کی کہ انہوں نے طاہرالقادری کی شخصیت کو بے رحمی سے نشانہ بنایا ،مگر ان کے ایجنڈے کو نظر انداز کر گئے۔ انہیں یہ ادراک نہ ہوسکا کہ انتخابی اصلاحات کرنا اور تبدیلی لانے کے ایجنڈے کی عوام میں زبردست کشش موجود ہے۔ قادری صاحب نے اس خلا میں قدم رکھا ،جو ہماری دوسری سیاسی جماعتیں پر کرنے میں ناکام رہیں۔ جیسا کہ شرکا کے انٹرویوز سے ظاہر بھی ہوا کہ ان میں تمام لوگ منہاج القرآن کے نہیں تھے، بہت سے لوگوں نے بتایا کہ وہ عمران خان کے ووٹر ہیں، بعض دوسری جماعتوں کے حامی بھی تھے۔ ایجنڈے پر زیادہ بات ہونا چاہیے تھی، وہ نہ ہوسکی اور تمسخر،پیروڈی،طنز وتشنیع ہمارے میڈیا پر حاوی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمعہ کو دھرنے کی کامیابی کے بعد بہت سے اینکروں اور تجزیہ کاروں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا ردعمل دیں۔ جن باتوں کا وہ مذاق اڑاتے رہے، وہ تقریباً سب مان لی گئیں۔ جہاں تک اسمبلیوں کی تحلیل اور الیکشن کمیشن کی فوری تشکیل کی بات تھی، یہ دبائو بڑھانے کا حربہ تھا، حقیقی مطالبہ نہیں تھا۔میڈیا اور انٹیلی جنشیا کو آنے والے دنوں میں زیادہ محتاط اور باریک بین ہونا پڑے گا۔ الیکشن میں اصلاحات کے عمل پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت پڑے گی۔ مسلم لیگ ن مسلم لیگ ن نے بظاہر بڑی عقل مندی اور ہوشیاری سے چالیں چلیں۔ انہوں نے لانگ مارچ کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی کہ اس کا رخ اسلام آباد کی جانب تھا۔ جب انہوں نے محسوس کیا کہ دھرنے میں خاصے لو گ آگئے ہیں اور یہ اجتماع خطرناک ثابت ہوسکتا ہے تووہ متحرک ہوئے۔ میاں صاحب نے کمال مہارت سے کئی اہم جماعتوںسے رابطے کئے۔ بلوچستان سے اچکزئی صاحب اور حاصل بزنجو کے ساتھ ساتھ مولانا فضل الرحمن اورجماعت اسلامی کو ساتھ ملا لینا ان کی بڑی کامیابی تھی۔ انہوں نے اپنے مشترکہ اعلامیہ سے علامہ طاہرالقادری کو بالکل تنہا کر دیا۔ یہ جمہوریت کے لئے اچھا شگون تھا کہ ہماری سیاسی جماعتیں ہر قسم کی تبدیلی کے لئے انتخابات کی جانب ہی دیکھنے لگی ہیں۔ میاں صاحب نے دانستہ یا نا دانستہ ایک بڑی غلطی یہ کی کہ انہوں نے قادری صاحب کو محفوظ راستہ نہیں دیا۔اے پی سی کے شرکا میں سے کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اسلام آباد میںکئی روز سے ہزاروں افراد کا دھرنا جاری ہے۔دھرنے کے شرکا اور ان کے لیڈر قادری صاحب اتنا آگے جا چکے ہیں کہ ان کے لئے کچھ حاصل کئے بغیر واپس لوٹنا شرمندگی کے مترادف ہے۔ انہیں محفوظ راستہ دینا (Face saving)دینا ضروری تھا۔ دوسری صورت میں شرکاء فرسٹریٹ ہو کر تصادم کی طرف جا سکتے تھے، ایسا ہو جاتا تو پھر کچھ بھی نہ بچ پاتا۔ جس طرح کا اعلیٰ سطحی وفد حکومت نے مذاکرات کے لئے بھیجا، ویسا کام پہلے نواز شریف صاحب بھی کر سکتے تھے۔ اگر ایسا کرتے تو وہ محاورے کے مطابق میلہ لوٹ لیتے۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا، شائد وہ اپنی مخالف وفاقی حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہتے تھے، مگر اختتام میں اس کا تمام تر نقصان انہیں ہی ہوا۔ ٹی وی چینلز پر ن لیگ کے رہنمائوں کی تلخی دیکھ کر انہیں پہنچنے والے دھچکے کی شدت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ؟ ہمارے اہل دانش اور تجزیہ کاروں کو ہر ایشو میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار دیکھنے کا رویہ بھی بدلنا ہوگا۔ یوں لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا آسیب ان کی دانش کے گرد لپٹ گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ویسے بھی دو تین باتیں سمجھنی چاہیں۔ دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ پر و’’ سٹیٹس کو‘‘ ہوتی ہے۔ نظام بدلنے یا تبدیلی لانے کا نعرہ کبھی انہیں راس نہیں ہوتا۔ ایسا نعرہ لگانے والوں کو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قادری صاحب والے معاملے کو زیادہ غور سے دیکھنا چاہیے تھا۔ اگر اس میں اسٹیبلشمنٹ شامل ہوتی تو معروف اسٹیبلشمنٹ نواز جماعتیں اس سے دور نہ رہتیں اور وعدہ کر کے واپس نہ چلی جاتیں۔ جو مارچ یا دھرنا اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر کیا جاتا ہے ، اس کے تیور ہی الگ ہوتے ہیں، اس کے شرکا شروع ہی سے ڈنڈے لے کر چلتے ہیں اور تباہی ان کا مشن ہوتی ہے۔ ایسے جلوسوں میں لوگ خود اپنی خوشی سے اپنی بیویوں، بہنوں اور شیر خوار بچوں کو نہیں لاتے۔ پیسے خواہ جتنے ملیں، اولاد آدمی کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ اس دھرنے کے پرامن اختتام نے یہ ثابت کر دیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی رٹ لگانے والے تجزیہ کاروں نے ٹھوکر کھائی، اصولاً تو انہیں اپنے قارئین اور ناظرین سے معذرت کرنی چاہیے، مگرافسوس کہ ہمارے ہاں ایسی اچھی روایتیں موجود نہیں۔ ویسے اس حوالے سے فورسز کا رویہ مثبت رہا۔ کورکمانڈرز کانفرنس کو بعض حلقوں نے معنی خیز نظروں سے دیکھا ،مگر آئی ایس پی آر نے بروقت وضاحت کر دی۔ ہماری مقتدرہ قوتوں کو یہ یاد رکھناچاہیے کہ سیاست صرف سیاستدانوں کے کھیلنے کا میدان ہے۔ عسکری قوتوںکو اپنے پروفیشنل فرائض ہی انجام دینے چاہیں۔ ایسا کرنا ہی ان کے وقاراور عزت میں اضافہ کرے گا۔ اس دھرنے کا پرامن انجام یہ ثابت کرتا ہے کہ ملک میں جمہوریت پنپ رہی ہے اورہمارا بظاہر کمزور جمہوری سسٹم اس قسم کے بڑے دھچکوں کو برداشت کرنے کی سکت اور قوت رکھتا ہے۔اس سے ہمارے سیاستدانوں اور جمہوری قوتوں نے خاصا کچھ سیکھا ہوگا۔ تحریک انصاف عمران خان اور ان کے بعض حامیوں کو ممکن ہے اب اندازہ ہو رہا ہو کہ انہوں نے ملنے والے ایک بڑے موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ تحریک انصاف میں لانگ مارچ کے حمایت میں ایک مضبوط لابی موجود تھی،ان کے کئی اہم سیاسی لیڈروں کا خیال تھا کہ ہمیں قادری صاحب کے ساتھ شامل ہونا چاہیے، ان کی جماعت کا سیاسی نیٹ ورک موجود نہیں ،ا س لئے سیاسی کامیابی کے تمام تر ثمرات تحریک انصاف کو پہنچیں گے۔ اس لابی کی بات نہیں مانی گئی، عمران خان اور ان کے بعض غیر سیاسی مگر پارٹی کے لئے تھنک ٹینک کا درجہ رکھنے والے لوگوں کی بات مانی گئی۔ تاہم عمران خان نے لانگ مارچ اور دھرنے پر تنقید بالکل نہیں کی، وہ اسے بڑی احیتاط سے دیکھتے رہے، جائزہ لیتے رہے ،مگر شامل نہیں ہوئے۔ ممکن ہے انہیں خطرہ ہو کہ یہ دھرنا کسی اور جانب جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی تمام تر توجہ انتخابات کی جانب مبذول کی اور اس حوالے سے دبائو بڑھانے کی کوشش کی ،مگر تحریک انصاف کے بہت سے نوجوان کارکنوں کو اب یقیناً مایوسی ہو رہی ہوگی۔پی ٹی آئی نے اس معاملے میں اگرچہ کھویا بھی زیادہ نہیں۔ ان کے لئے انتخابات کے حوالے سے قادری صاحب کے ساتھ ہاتھ ملانے کی آپشن موجود ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف آنے والے دنوں میں کیسے پتے چلتی ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
23اپریل:کتابوں کا عالمی دن کتاب سے دوستی کیجئے!

23اپریل:کتابوں کا عالمی دن کتاب سے دوستی کیجئے!

کتاب انسان کی بہترین دوست ہوتی ہے مگر افسوس کہ آج کے جدید دورمیں کتاب کی جگہ موبائل فون نے لے لی ہے۔ اس موبائل فون کی بدولت ہم اپنے اچھے دوست اور تنہائی کے بہترین ساتھی سے دور ہو رہے ہیں۔کتاب ہماری اخلاقی و معاشرتی تربیت کرتی ہے مگر ہماری آج کی نوجوان نسل کتاب سے فائدہ اٹھانے، اس کو پڑھ کر سیکھنے کی بجائے موبائل کی رنگینیوں میں کھوگئی ہے۔ نئی نسل کو کتاب سے دوستی اور پڑھنے کی طرف راغب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ایک بہت ہی مشہور مقولہ ہے ''ریڈرز ہی لیڈرز ہوتے ہیں‘‘۔ یہ جملہ کتابوں کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے لوگوں کے پاس اب کتاب پڑھنے کا وقت نہیں رہا، حالانکہ انسانی شعور کے ارتقاء میں کتابوں نے ہی مرکزی کردار اد ا کیا ہے۔ دنیا جب لکھنے کے فن سے آشنا ہوئی تو شروع میں درختوں کے پتوں،چمڑے اور پتھروں پر الفاظ کشید کر کے کتابیں لکھنے کا کام شروع کیاگیا،جیسے ہی انسانی تہذیب نے ترقی کی ویسے ہی کتاب نے بھی ارتقاء کی منزلیں طے کرنا شروع کر دیں،درختوں کی چھال سے لے کر پرنٹنگ پریس اور پھر ای بکس تک کا سفرجاری ہے۔قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ ''جاننے والے اور نہ جاننے والے کبھی برابر نہیں ہوسکتے‘‘ بلکہ جاننے والوں کو دیکھنے والے جبکہ نہ جاننے والوں کو اندھوں سے تشبیہ دی ہے ۔ مجموعی طور پر مسلمان اور خاص طور پر ہم پاکستانی کتاب سے کیوں دور ہوتے جا رہے ہیں، اس کے مختصر اسباب، غربت، بے روزگاری کی وجہ سے عام پاکستانی اسی چکر میں ساری زندگی گزار دیتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک عالم کی عزت میں بھی بے پناہ کمی آئی ہے،دوسری طرف صاحب علم بے روزگار ہیں اور علم کی سرپرستی حکومت نہیں کرتی، پھر انفرادی طور پر ہم اتنے بدذوق ہوچکے ہیں کہ عموماً کتابوں کا مطالعہ کرنے کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ہمارے ہاں کتاب کو فضول سمجھا جاتا ہے۔ہمارے گھروں میں لائبریری تو دور کی بات چند کتابیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ ہمارے ہاں کتابیں خریدنے اور پڑھنے والے کو مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسے خبطی،کتابی کیڑا، پاگل کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایک تو شرح خواندگی کم ہے اور دوسری طرف مہنگائی کی وجہ سے بھی کتاب بینی میں کمی آئی ہے ۔ پھر جدید طریقوں کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائل فونز کے استعمال کی وجہ سے بھی کتاب کی اہمیت متاثر ہوئی ہے۔ اگر موضوع اچھا ہو تو کتاب آج بھی خریدی اور پڑھی جاتی ہے پاکستان میں زیادہ ترکتابیں شاعری کی شائع ہوتی ہیں اور ان کی شاعری بھی اس قابل نہیں ہوتی اس لیے بھی رجحان کم ہے۔ پاکستان میں سنجیدہ موضوعات پر لکھی گئی کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد بھی دیگر ممالک سے کم ہے اور پھر فلسفے، تاریخ، نفسیات اور سائنس پر لکھی گئی کتابیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کا حل دیگر زبانوں کی کتابوں کے تراجم کی صورت میں نکالا جانا چاہیے۔ پاکستان میں کتاب سے دوری کے اسباب میں لائبریری کی کمی بنیادی وجہ میں سے ایک ہے ۔پاکستانی معاشرے میں انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثرات کے باعث کتابوں کے خریداروں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے ۔پاکستان میں کتاب کا فروغ کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہا ، یورپ میں کتاب کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے ،یہاں پر لوگ دوران سفر،انتظار گاہ میں اور فارغ اوقات میں کتاب پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔پاکستان میں اوّل تو کتابیں لکھنا مشکل ہے، اگر لکھی بھی جائیں تو ان کو پبلش کرنا مشکل ترین مرحلہ ہے۔اگر آپ کتاب لکھ کر چھپوالیں تو اسے مفت میں مانگا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ تھوڑے پیسے خرچ کر کے لکھنے والے کی حوصلہ افزائی اور مدد کی جائے۔ 80فیصد لکھاری اپنی جیب سے کتاب چھپوا کر دوستوں میں بانٹ رہے ہیں، پاکستان میں صرف کتابیں لکھ کر گزر اوقات ممکن نہیں ہے۔کسی بھی معاشرے ،قوم ،ملک کی ترقی کا دارومدار علم پر ہوتا ہے اور علم کا کتاب پر ،تاریخ اس کی گواہ ہے ،یونان اور اس کے بعد مسلمانوں کا عروج جب دنیا جہاں سے کتابیںمسلمان خرید رہے تھے اور ان کو ترجمہ کر رہے تھے ، آج آپ دیکھ لیں مغرب میں کتاب دوستی ہے ،یہی وجہ ہے کہ آج مغرب ترقی یافتہ کہلاتا ہے۔پاکستان میں گزشتہ 30 برسوں سے کتاب بینی کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے ۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں42فیصد کتابیں مذہبی، 32 فیصد عام معلومات یا جنرل نالج، 36 فیصد فکشن اور 07 فیصد شاعری کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ کتابوں سے دوری کی وجہ سے نوجوان نسل اپنے اسلامی، سیاسی، مذہبی کلچر اور ادب سے بھی غیر مانوس ہونے لگی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میںہر سال23 اپریل کو کتابوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کی شروعات 1616ء میں سپین سے ہوئی، 1995ء میں اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جنرل کونسل نے 23 اپریل کو ''ورلڈ بک ڈے‘‘ قرار دے دیا۔ ہم ایسے دن منانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں جن سے قوم کا بھلا ہوتا ہو۔ کتب بینی انسان کے وقت کو نہ صرف ضائع ہونے سے بچاتی ہے بلکہ غم خوار ومددگار ثابت ہوتی ہے۔کتاب تنہائی کی بہترین ساتھی ہوتی ہے، جب انسان گردشِ ایام کے ہجوم میں الجھ کر مایوس ہوکر اندھیروں میں کہیں گم ہوجاتا ہے، زندگی کی خوبصورت نعمتوں سے فیض یاب نہیں ہوپاتا تو اس وقت کتاب ہی اندھیروں میں روشنی لے کر امید کی کرن بن کر سامنے آتی ہے اور انسان تاریکیوں سے نکل کر روشنی میںآ جاتا ہے اور اس روشنی میں خود کو سمجھنے لگتا ہے۔کتب بینی کیلئے ایسے اقدامات کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے گھروں میں ایسا ماحول پیدا کرنا چاہیے جس سے گھر کے بچوں سمیت ہرفرد کو مطالعہ کرنے میں دلچسپی ہو کتاب سے دوستی ہو۔ ماں باپ کو خود مطالعہ کرکے مثال قائم کرنی چاہیے۔ اپنے حلقہ احباب میں اچھی کتب کا ذکر مطالعہ ، تبصرہ ، تجزیہ کر کے شوق کو اُبھارنا چاہیے۔ہمارے اشاعتی اداروں کو اب ایک بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ وہ معیاری کتب کے ساتھ ساتھ سستی کتابوں کو شائع کریں ، اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری نسل مایوس ہو کر دوبارہ گلوبل ویلج کی چکا چوند میں کہیں گم ہو جائے گی اور اسے ڈھونڈنا مشکل ہو گا۔

دنیا کی پہلی خاتون ماہر فلکیات

دنیا کی پہلی خاتون ماہر فلکیات

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے شعری مصرعے ''ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘ پر عمل کرتے ہوئے جرمن نژاد برطانوی خاتون کیرولین ہرشل نے دور بین کے شیشے صاف کرتے کرتے خلائوں کا مشاہدہ شروع کیاتو اس حیرت انگیز انوکھی دنیا کے کئی رازوںپر سے پردہ اٹھایا۔ ان کے مشاہدات آج بھی ماہر فلکیات کیلئے مشعل راہ ہیں۔ کیرولین ہرشل دنیا کی پہلی ماہر فلکیات خاتون ہیں۔ کیرولین ہرشل 16 مارچ 1750 کو ہینوور، جرمنی میں پیدا ہوئیں۔ کیرولین ہرشل کے والدآئزک مقبول موسیقار تھے۔کیرولین پانچ بہن بھائی تھے جو کہ ریاضی، فرانسیسی اور موسیقی کی کا علم حاصل کر رہے تھے جبکہ کیرولین کی والدہ نے لڑکی ہونے کی وجہ سے اسے تعلیم دینا ضروری نہ سمجھی اور گھر کے کام کاج میں لگا دیا اور وہ گھریلو ملازمہ کی طرح باقی بہن بھائیوں کے کام کرنے لگی۔ دس سال کی عمر میں کیرولین بیمار ہوگئی اس مہلک بیماری نے اس کی نشونما کو مستقبل طور پر روک دیا۔بیماری کے باعث ہرشل کی شادی نہ ہوسکی اور 22 سال تک اپنے والدین کے گھر ہی گھریلو ملازمہ کی طرح زندگی گزارتی رہی۔ ان دنوں ان کا بھائی ولیم تعلیم حاصل کرنے اور روز گار کے سلسلے میں انگلینڈ کیلئے روانہ ہوا تو کیرولین کو بھی اپنے ساتھ ہی لے گیا۔ ولیم موسیقی کا ماہر تھا اس لئے و لیم نے اپنی بہن ہرشل کیرولین کو بھی موسیقی کی تعلیم دی اور اس طرح ہرشل ایک ماہرپیشہ ور گائیکہ بن گئی ۔ولیم فلکیات کے علم کا بھی شوق رکھتا تھا۔اس نے فلکیات کے علم میں دلچسپی کی وجہ سے ایک طاقتور دور بین بنانا شروع کی۔ یہ ایک ایسی دوربین تھی جس سے وہ خلا میں گہرائی تک دیکھ سکتا تھا۔ ہرشل کیرولین بھی گھرکے کام کاج کے ساتھ ساتھ بھائی ولیم کی ٹیلی سکوپ بنانے میں مدد کرنے لگی۔ اس دوران ہرشل کو بھی خلائوں میں جھانکنے کا شوق پیدا ہوا اورزیاد ہ سے زیادہ وقت اپنے بھائی کے ساتھ گزارنا شروع کردیا اور ولیم کے فلکیاتی علم میں مدد کرنا شروع کر دی۔ ولیم نے ٹیلی سکوپ بنانے میں اتنی شہرت حاصل کی کہ اس نے موسیقار کی نوکری چھوڑ دی اور باقاعدہ طورپر دور بین بنانے اور فلکیات پر تحقیق شروع کر دی۔ ولیم نے 1781ء میں سیارہ یورینس دریافت کیا اور اس کے بعد اسے کنگ جارج III کے درباری ماہر فلکیات کا خطاب دیا گیا اور حکومت کی طرف سے باقاعدہ تنخواہ کا اعلان بھی کیاگیا۔ اکثر اوقات ولیم اپنے تیار کردہ ٹیلی سکوپ کے ذریعے سیڑھی پر کھڑے ہو کر خلاء کا مشاہدہ کرتا اور مشاہدے کے دوران جو نظر آتا وہ کیرولین ہرشل کو بتاتا اور وہ اسے قلمبند کرتی جاتی ۔ اس طرح ہرشل بھی فلکیات کے مشاہدے میں گہری دلچسپی لینے لگی۔ ولیم نے آسمان کا سروے شروع کیا۔ اپنی دوربین پر ایک سیڑھی پر کھڑے ہو کر، اس نے اپنے مشاہدات کیرولین کو بتا ئے۔ آخر کار، انہوں نے 2,500 نئے نیبولا اور ستاروں کے جھرمٹ کی ایک فہرست مرتب کی، جسے ''نیو جنرل کیٹلاگ‘‘ (NGC)کا نام دیا گیا۔ خلائوں میں بہت سی غیر تاریک اشیاء کی شناخت ان کے ''این جی سی نمبر‘‘ سے ہوتی ہے۔ کیرولین اکثر اپنے طور پر آسمان کا مطالعہ کرنے کیلئے ایک چھوٹا نیوٹنین سویپر استعمال کرتی تھی۔ 26 فروری 1783ء کو کیرولین نے ایک کھلا جھرمٹ دریافت کیا جسے آج ''این جی سی 2360‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کیرولین ہرشل نے تین نئے نیبولا (دھندلے بادل جہاں ستارے بنتے ہیں) دریافت کئے۔یکم اگست 1786ء کو، کیرولین نے رات کے وقت آسمان سے آہستہ آہستہ سفر کرنے والی ایک چیز (دم دار ستارے )حرکت کرتے ہوئے دیکھی ۔ اس نے اگلی رات دوبارہ اس کا مشاہدہ کیا اور فوری طور پر دیگر ماہرین فلکیات کو خط کے ذریعے دم دار ستارے کی دریافت کے بارے آگاہ کیا تا کہ وہ بھی ان کے بتائے ہوئے خطوط پر خلاء کا مشاہدہ کرتے ہوئے مطالعہ کریں اوردم دار ستارے کو دیکھیں۔ دم دار ستارے کی دریافت کے بعد ہرشل کیرولین کی صلاحیتوں کو تسلیم کرتے ہوئے اسے ماہر فلکیات تسلیم کرلیا گیا۔ 1787ء میں، کنگ جارج III نے اسے ولیم کے اسسٹنٹ کے طور پر ملازم رکھا۔ اس طرح سائنسی خدمات کیلئے تنخواہ حاصل کرنے والی پہلی خاتون ماہر فلکیات بن گئیں۔ 1786ء اور 1797ء کے درمیان اس نے آٹھ دم دام ستارے دریافت کیے۔ کیرولین نے اپنی اور ولیم کی ہر دریافت کی فہرست بنائی۔ کیرولین ہرشل کے شائع کردہ فلکیاتی کیٹلاگ میں سے دو آج بھی استعمال میں ہیں۔ ان کی چھیاسیویں سالگرہ پر ''کنگ آف پرشیا کے گولڈ میڈل آف سائنس‘‘ سے نوازا گیا۔ 1822ء میں ولیم کی موت کے بعد، کیرولین جرمنی واپس آگئیں اور نیبولا کے اپنے کیٹلاگ پر کام جاری رکھا۔ اس نے رائل آسٹرونومیکل سوسائٹی کا گولڈ میڈل حاصل کیا اور رائل سوسائٹی میں اعزازی رکنیت حاصل کی۔کیرولین ہرشل کا انتقال9 جنوری 1848ء کو ہوا۔ اس نے اپنے مقبرے کے پتھر پر یہ نوشتہ لکھا، جس میں لکھا ہے: "The eyes of her who is glorified here below turned to the starry heavens."  

آج کا دن

آج کا دن

ردھم کلب کی آگ''ردھم کلب کی آگ‘‘ یا ''نچیز ڈانس ہال ہولوکاسٹ‘‘ 23 اپریل 1940ء کی رات نچیز، مسیسیپی کے ایک ڈانس ہال میں لگنے والی آگ تھی، جس میں 209 افراد ہلاک اور متعدد شدید زخمی ہوئے۔ سیکڑوں افراد عمارت کے اندر پھنس گئے۔ اس وقت، یہ ملککی تاریخ میں عمارت میں لگنے والی دوسری مہلک ترین آگ تھی۔ اسے امریکی تاریخ کی اب تک کی چوتھی سب سے مہلک کلب فائر کے طور پر درجہ دیا گیا ہے۔یوٹیوب پر پہلی ویڈیو جاری23اپریل 2005ء کو یوٹیوب پر پہلی ویڈیو ''می ایٹ دی ذو‘‘ اپ لوڈ کی گئی۔ 19 سیکنڈ کی ویڈیو میں یوٹیوب کے شریک بانی جاوید کریم کو دکھایا گیا ہے، جن کی عمر اس وقت 25 سال تھی۔ جاوید کریم کیلیفورنیا کے سان ڈیاگو چڑیا گھر میں دو ہاتھیوں کے سامنے کھڑے ہیں۔ اسے کریم کے کیمرے پر اس کے ہائی سکول کے دوست یاکوف لیپٹسکی نے ریکارڈ کیا تھا۔ اسے ویب سائٹ کی تاریخ میں سب سے اہم ویڈیو کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ کئی مواقع پر جاوید کریم نے ویڈیو کو یوٹیوب کے کاروباری اقدامات پر تنقید کرنے کیلئے استعمال کیا ہے۔''سویوز 1‘‘ کی لانچنگ1967ء میں آج کے روز سوویت خلائی پروگرام ''سویوز 1‘‘ Soyuz-1)) کو لانچ کیا گیا۔ خلائی جہاز کرنل ولادیمیر کوماروف کو لے کر خلاء میں روانہ ہوا۔ ''سویوز 1‘‘ سویوز خلائی جہاز کی پہلی کریو فلائٹ تھی۔ پرواز تکنیکی مسائل سے دوچار ہوئی اور کوماروف اس وقت ہلاک ہو گیا جب ڈیسنٹ ماڈیول پیرا شوٹ کی خرابی کی وجہ سے زمین سے ٹکرا گیا۔ یہ خلائی پرواز کی تاریخ میں پرواز کے دوران ہونے والی پہلی ہلاکت تھی۔اصل مشن کا منصوبہ پیچیدہ تھا، جس میں ''سویوز2‘‘ کے ساتھ جڑنا اور زمین پر واپس آنے سے پہلے عملے کے ارکان کا تبادلہ شامل تھا۔ ویتنام جنگ : طلباء کا مظاہرہ1968ء میں ویتنام کی جنگ کے دوران آج کے روز نیو یارک شہر کی کولمبیا یونیورسٹی میں طلباء مظاہرین نے انتظامیہ کی عمارتوں پر قبضہ کر لیا اور یونیورسٹی کو بند کر دیا۔ کولمبیا یونیورسٹی میں مظاہروں کا سلسلہ اس سال دنیا بھر میں ہونے والے مختلف طلباء کے مظاہروں میں سے ایک تھا۔ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب طلباء نے یونیورسٹی اور ویتنام جنگ میں ریاستہائے متحدہ کی شمولیت کی حمایت کرنے والے ادارہ جاتی آلات کے درمیان روابط دریافت کیے اور ساتھ ہی قریبی مارننگ سائیڈ پارک میں تعمیر کیے جانے والے مبینہ طور پر الگ کیے گئے جمنازیم پر بھی ان کی تشویش پائی گئی۔ . مظاہروں کے نتیجے میں یونیورسٹی کی کئی عمارتوں پر طلباء کا قبضہ ہو گیا اور نیو یارک سٹی پولیس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے مظاہرین کو پرتشدد طریقے سے ہٹا دیا گیا۔ 

یادرفتگاں: معین اختر:ایک ہمہ جہت شخصیت

یادرفتگاں: معین اختر:ایک ہمہ جہت شخصیت

کچھ فنکار ایسے ہوتے ہیں جن کے فن کی ایک نہیں بلکہ کئی جہتیں ہوتی ہیں۔ قدرت کی طرف سے انہیں جو صلاحیتیں عطا ہوتی ہیں وہ عمر بھر ان کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ یوں وہ لوگوں کو بہت زیادہ متاثر کرتے ہیں اورلوگ ان جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ معین اختر کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں قدرت نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ ٹی وی، ریڈیو، سٹیج اور فلم کے ایک مزاحیہ اداکار اور ایک باکمال کمپیئر تھے ۔ اس کے علاوہ وہ بطور فلم ہدایتکار، پروڈیوسر، گلوکار اور مصنف بھی اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے تھے۔ ان کا کیرئر45برس سے زائد عرصہ پر محیط ہے۔پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے معین اختر 24دسمبر 1950ء کو پیدا ہوئے اوران کا تعلق ایک پڑھی لکھی سادہ فیملی سے تھا،ان کی فیملی کے زیادہ تر لوگ ٹیچنگ کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ سکول کے ایک ڈرامہ میں کام کر کے انہوں نے اپنے فنکارانہ کریئر کا آغاز کیا ۔ٹیلی ویژن پر ان کی پہلی انٹری 6 ستمبر 1966ء کو ہوئی۔انہوں نے سرکاری ٹی وی پر ایک ورائٹی شو میں شرکت کی۔ یہ ورائٹی شو پہلا یوم دفاع منانے کیلئے منعقد کیا گیا تھا۔ جس کے بعد انہوں نے کئی ٹی وی ڈراموں، سٹیج شوز میں کام کرنے کے بعد انور مقصود اور بشریٰ انصاری کے ساتھ ٹیم بنا کر کئی معیاری پروگرام پیش کئے۔ انہوں نے کئی زبانوں میں مزاحیہ اداکاری کی ہے جن میں انگریزی، سندھی، پنجابی، میمن، پشتو، گجراتی اور بنگالی کے علاوہ کئی دیگر زبانیں شامل ہیں اور اردو میں ان کا کام انہیں بچے بڑے، ہر عمر کے لوگوں میں یکساں مقبول بناتا ہے۔وہ ایک بہترین اداکار بھی تھے۔ ٹی وی ڈراموں کے علاوہ انہوں نے کچھ فلموں میں بھی کام کیا۔ انہیں ''روزی‘‘ کا کردار ادا کرنے پر بین الاقوامی شہرت ملی۔ یہ کردار انہوں نے ڈرامہ سیریل میں نبھایا تھا جس سے انہیں ملک گیر شہرت حاصل ہوئی۔اس ڈرامے میں انہوں نے ایک خاتون ٹی وی آرٹسٹ کا کردار ادا کیا۔ یہ ڈرامہ ہالی وڈ کی فلم ''Tootsie‘‘ سے متاثر ہو کر تیار کی گئی تھی جس کا مرکزی کردار ہالی وڈاداکار ڈسٹن ہوفمین (Dustin Hoffman)نے ادا کیا تھا۔ روزی کے کردار کے بارے میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ ان کے یادگار کرداروں میں سے ایک تھا۔ ان کی دیگر مقبول ٹی وی سیریلز میں ''ڈالر مین‘‘، ''مکان نمبر 47‘‘، ''ہاف پلیٹ‘‘، ''فیملی 93‘‘، ''عید ٹرین‘‘، ''بندر روڈ سے کیماڑی‘‘، ''سچ مچ‘‘ اور ''آنگن ٹیڑھا‘‘ شامل ہیں۔ معین تھیٹر کے بانیوں میں سے ایک تھے اور انہوں نے بیشمار بامقصد ڈراموں میں ضیا محی الدین جیسی شخصیت کے ساتھ ڈرامے کئے ہیں ۔انہوں نے تھیڑ پر شیکسپیئر کے ڈرامے ''مرچنٹ آف وینس‘‘ میں شائی لوک کا کردار ادا کیا۔ہمسایہ ملک بھارت میں ان کے سٹیج ڈرامے ''بکرا قسطوں پر‘‘ اور ''بڈھا گھر پر ہے‘‘ بہت مقبول ہوئے تھے۔وہ ایک باکمال کمپیئر تھے اور ان کے ٹی وی پروگرامز بہت مقبول تھے۔ انہوں نے مشہور لوگوں کے بڑے زبردست انٹرویو کئے۔ ان میں پاکستان کے علاوہ بھارت کی معروف شخصیات بھی شامل ہیں۔ ان کے مداحین میں بالی وڈ کے لیجنڈ دلیپ کمار بھی شامل تھے۔ معین اختر1995ء میں شروع ہونے والے ٹی وی ٹاک شو'' لوزٹاک‘‘ میں 400سے زیادہ بار مختلف کرداروں میں نظر آئے۔ اس میں انور مقصود انٹرویو کرتے تھے اور معین اختر بڑی اہم شخصیات کاروپ دھارتے۔ ان میں لیجنڈ بھارتی اداکار دلیپ کمار، لتا منگیشکر اور مادھوری ڈکشٹ بھی شامل ہیں۔ معین اختر کا بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے ایک کھلاڑی کے روپ میں انور مقصود نے انٹرویو کیا اور ان کی کارکردگی کو انتہائی پسند کیا گیا۔ پھر وہ جاوید میاں داد کے روپ میں بھی سامنے آئے۔ طرح طرح کے کردار ادا کرنے میں انہیں خاصی مہارت حاصل تھی۔''لوزٹاک‘‘ ایک ایسا شو تھا جسے ہر شخص نے پسند کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معین اختر اور انور مقصود نے اس بات کی طرف بھر پور توجہ دی کہ ناظرین ٹی وی کے سامنے بیٹھے رہیں۔ معین اختر کبھی کلرک بن کر سامنے آتے اور کبھی کسٹم آفیسر کے روپ میں ناظرین کو حیرت زدہ کر دیتے۔ وہ جس روپ میں بھی سامنے آتے تھے، ان کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ ناظرین انہیں دیکھ کر اس بات پر سوفیصد یقین کر لیں کہ انہوں نے کوئی روپ نہیں دھارا بلکہ وہ ایک حقیقت ہیں۔ معین اختر کچھ دیر کیلئے گیم شو'' کیا آپ بنیں گے کروڑ پتی‘‘ میں میزبان کے طور پر سامنے آئے۔ ان کے مقبول ترین ٹی وی شوز میں ''سٹوڈیو ڈھائی‘‘ اور سٹوڈیو پونے تین‘‘ شامل ہیں۔ معین اختر کی خوبی یہ تھی کہ ان کا مزاح فحاشی سے بالکل پاک تھا۔ یہ مزاح بہت اعلیٰ معیار کا تھا۔ معین اختر نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر اپنے مداحین کا ایک وسیع حلقہ بنا لیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مزاحیہ اداکاری آسان کام نہیں۔ اگر آپ کی مزاحیہ اداکاری سے لوگوں کی دل آزاری ہو اور وہ آپ کو داد دینے کی بجائے کوسنا شروع کر دیں تو یہ بات اس فنکار کیلئے شرم ناک ہو گی۔ان کی حس مزاح بہت متحرک تھی اور اس کی کئی جہتیں تھیں۔ انہیں مختلف اداکاروں کی نقل اتارنے میں بھی ملکہ حاصل تھا۔ انہوں نے ہالی وڈ کے مشہور اداکار انتھونی کوئن کی نقل اتاری اور پھر سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی تقریریں انہی کے انداز میں سنائیں۔معین اختر نے کچھ فلموں میں بھی کام کیا جن میں ''کالے چور‘‘ اور '' راز‘‘ شامل ہیں۔ معین اختر کئی بھارتی فنکاروں کے پروگراموں میں کمپیئر کی حیثیت سے سامنے آئے اور ان کے منفرد انداز کو ہمیشہ سراہا گیا۔ دلیپ کمار، متھن چکرورتی، گوندا اور قادر خان ان کے بہت بڑے مداح تھے۔ معین اختر نے بڑے کامیاب شوز کیے اور بڑی اہم شخصیات کو مدعو کیا۔ ان میں اردن کے شاہ حسین، گیمبیا کے وزیراعظم وائودی الجوزا، صدر ضیاء الحق، غلام اسحاق خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل پرویز مشرف، وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بالی وڈ لیجنڈ دلیپ کمار شامل ہیں۔ ان کے گیتوں اور البمز میں'' چھوڑ کے جانے والے، چوٹ جگر پہ کھائی، رو رو کے دے رہا ہے، تیرا دل بھی یوں ہی تڑپے، درد ہی صرف دل کو ملا، دل رو رہا ہے اور ہوتے ہیں بے وفا‘‘ شامل ہیں۔1972ء میں آپ کی شادی اپنی ایک کزن سے ہوئی، ان کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ انہوں نے حج کی سعادت بھی حاصل کر رکھی تھی۔ انہیں ان کے کام کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی طرف سے ''پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ اور ''ستارہ امتیاز‘‘ سمیت متعددایوارڈ بھی دیئے گئے۔ 22اپریل 2011ء کو معین اختر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ معین اختر بین الاقوامی شہرت کے حامل فنکارتھے اور پوری دنیا میں ان کے مداح آج بھی موجودہیں۔  

وہ اشیاء جنہیں مستقل ساتھ رکھنے سے گریز کریں

وہ اشیاء جنہیں مستقل ساتھ رکھنے سے گریز کریں

بہت سی چیزیں ہم اپنے ساتھ رکھنا ضروری سمجھتے ہیں جو ہر وقت ہمارے پرس یا جیب میں رہتی ہیں۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے بارے میں ہمارا یہ خیال ہوتا ہے کہ ہمیں وہ لازمی اپنے ساتھ رکھنی چاہئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان چیزوں کو اپنے ساتھ رکھنا اکثر خطرناک بھی ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے ان چیزوں کو اپنے ساتھ رکھنے سے گریز کریں۔ وہ چیزیں کونسی ہیں، آئیے ان کے بارے میں بتاتے ہیں۔ پاس ورڈاگر آپ کو پاس ورڈ یاد کرنے میں مشکل ہوتی ہے تو یقیناً آپ انہیں لکھ کر اپنے پاس رکھتے ہوں گے۔ کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کے پاس ورڈز اس لیے ان کے بیگ میں محفوظ ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنا بیگ ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ آپ اپنا بیگ یا پرس بہت آسانی سے کھو سکتے ہیں۔ اس لیے گزارش ہے کہ کوشش تو یہ کیجیے کہ اپنے پاس ورڈز یاد رکھیں،اگر ایسا نہیں کرسکتے توسمارٹ فون ایپس اس حوالے سے آپ کی بہت مدد کرسکتی ہیں۔ڈیبٹ کارڈکریڈٹ کارڈ کی طرح سکیورٹی نہ ہونے کی صورت میں ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے آپ کو چیزیں خریدتے وقت بہت دھیان رکھنا پڑتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے آپ اپنے خود کے پیسے خرچ کرتے ہیں اور اگر ڈیبٹ کارڈ چوری ہوجائے تو آپ کا فوری طور پر نقصان ہو سکتا ہے ۔ کارڈ کی گمشدگی کی صورت میں فوری طور پر ادارے کو مطلع کرکے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔لیپ ٹاپلیپ ٹاپ شاید آپ کے بیگ میں سب سے زیادہ وزنی شے ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق لیپ ٹاپ کا وزن آپ کے کندھے میں تکلیف کا سبب بنتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ گردن، ریڑھ کی ہڈی اور کاندھے پر چوٹ بھی آسکتی ہے۔ اگر آپ کو اپنا لیپ ٹاپ کہیں لے جانا ہے تو کوشش کیجیے کہ ایسا بیگ استعمال کریں جس کا وزن بیگ خود اٹھاسکے اور آپ کو اسے صرف چلانا ہو۔بغیر لاک موبائل فونبہت سے لوگ اپنے موبائل کو ایک سادہ سا فون سمجھتے ہیں، وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ ایک موبائل کمپیوٹر ہے جو صرف کال کرنے یا موصول کرنے کیلئے نہیں رہا۔ اپنے فون کو بغیر لاک کیے رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ دوسروں کو اس بات کی اجازت دے رہے ہیں کہ وہ آپ کے فون میں موجود معلومات اور ڈیٹا بآسانی چرا لیں۔ خصوصاً آج کے دور میں موبائل کے اندر اہل خانہ کی ایسی تصاویر بھی ہوتی ہیں جو کسی کے ہاتھ لگنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ ان تصاویر کو فوٹو شاپ میں ایڈٹ کرکے بلیک میلنگ اور غلط مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے کوشش کیجیے کہ موبائل میں پیچیدہ پاس ورڈ لگائیں۔چیک بکیہ اہم چیز ہے کیونکہ اگر چیک بک کے ذریعے کوئی آپ کو دھوکا دے تو پیسے کی واپسی کا امکان بہت معدوم ہوجاتا ہے، لیکن اگر آپ کے فراہم کردہ ثبوتوں کی روشنی میں یہ ممکن ہو بھی جائے، تب بھی پیسوں کی واپسی میں ایک ماہ تو لگ ہی جاتا ہے۔ اس لیے کوشش کیجیے کہ چیک بک اپنے ساتھ ہرگز نہ رکھیں۔ یا تو کسی اور تاریخ پر لوگوں کو پیسے دینے کی عادت ڈالیں یا پھر ضرورت کے تحت بس ایک یا دو چیک اپنی جیب میں رکھیں تاکہ نقصان کے امکان کم سے کم رہیں۔شناختی کارڈشناختی کارڈ درحقیقت انسان کیلئے بنیادی ضرورت ہے اور اگر یہ کھوجائے تو آپ کی زندگی کے بہت سارے کام رک جاتے ہیں۔ نہ آپ بینک کا کوئی کام کرسکتے ہیں، نہ سڑک پر گھوم پھرسکتے ہیں کیونکہ کبھی بھی کوئی پولیس والا آپ سے شناختی کارڈ کا تقاضا کرسکتا ہے، لہٰذا ان مشکلات سے بچنے کیلئے کوشش کریں کہ اصل شناختی کارڈ گھر پر ہی رکھیں۔ اگر بہت ضرورت ہے تو فوٹو کاپی ساتھ رکھیں۔پاسپورٹبیرون ملک سفر کرنے کیلئے پاسپورٹ کا کردار بنیادی ہوتا ہے۔ اس کی اہمیت جتنی زیادہ ہے، اس کا حصول اتنا ہی مشکل ہے اور خرچہ الگ۔ اس لیے ان تمام تر مشکلات سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ پاسپورٹ گھر پر ہی رکھا جائے اور یہ صرف اْسی صورت باہر لے جایا جائے جب اس کے بغیر کام کا انجام پانا ممکن نہ ہو۔

ناصر الدین محمود:درویش صفت بادشاہ

ناصر الدین محمود:درویش صفت بادشاہ

آج سے تقریباً سات سو پچھتر سال قبل دہلی میں غلام خاندان کا ایک شخص تھا جسے 1246ء میں ناصر الدین محمود کے نام سے امراء نے تخت پر بٹھایا جو کہ دراصل شمس الدین التتمش کا پوتا تھا۔ جب التتمش کا بیٹا شہزادہ ناصر الدین لکھنائونی میں منگولوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوا تو اس کی موت کے بعد اس کے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا تھا، جو اس کا سب سے چھوٹا لڑکا تھا، التتمش نے اپنے مرحوم بیٹے سلطان ناصر الدین کی محبت میں اپنے نوزائیدہ پوتے کا نام بھی وہی رکھا۔خاندانی اسباب کی بنا پر التتمش نے یہی چاہا کہ بچے کو اس کا پوتا نہیں بلکہ اس کا بیٹا شمار کیا جائے۔ وہ ایک درویش صفت بادشاہ تھا۔ اس کی خوبی یہ تھی کہ اپنے عہد حکومت میں کبھی سرکاری خزانے کو ہاتھ نہیں لگایا اور قرآن شریف لکھ کر روزی کماتا تھا، اس کی پوری زندگی اولیا اور صالحین کا نمونہ تھی۔ زیادہ تر وقت عبادت اور تلاوت کلام پاک میں صرف کرتا۔ جس وقت دربار لگتا اس وقت وہ شاہی لباس زیب تن کرتا تھا اور دربار برخاست ہونے کے بعد اپنا سادہ لباس پہنتا۔ وہ خاص طور سے اس بات کا خیال رکھتا تھا کہ اس کے لکھے ہوئے قرآن کے نسخے معمولی قیمت پر فروخت ہوں اور کسی کو یہ پتا نہ چلے کہ وہ بادشاہ کے لکھے ہوئے ہیں۔ایک روایت کے مطابق ایک بار اس کی ملکہ کھانا پکا رہی تھی۔ توے سے روٹی اتارتے وقت اس کا ہاتھ جل گیا۔ تکلیف کی وجہ سے وہ سلطان کے پاس حاضر ہوئی بادشاہ اس وقت قرآن کی کتابت کر رہا تھا۔ ملکہ کو تکلیف میں دیکھ کر پوچھا: ''کیا بات ہے ملکہ! ہاتھ میں کیا ہوا‘‘؟بادشاہ نے کتابت چھوڑ دی اور دوا لے کر ملکہ کے جلے ہوئے ہاتھ پر لگا دی۔''جہاں پناہ! گھر میں کوئی نہیں ہے۔ دوسرے کام بھی کرنے ہیں۔ اب کھانا کون پکائے گا؟‘‘ ملکہ نے سوال کیا؟تم فکر نہ کرو، جب تک تمہارا ہاتھ ٹھیک نہیں ہوتا تمہارا ہاتھ میں بٹائوں گا‘‘۔''اپنے آپ پر یہ ظلم نہ کیجئے۔ میری مانیے۔ کچھ عرصے کیلئے ایک خادمہ رکھ لیجئے۔ جب میرا ہاتھ ٹھیک ہو جائے گا تو پھر سارا کام میں خود ہی کر لیا کروں گی‘‘۔''تم جان بوجھ کر انجان بنتی ہو۔ میں اتنی آمدنی کا مالک نہیں ہوں کہ خادمہ رکھ سکوں‘‘ حکومت کے کام سے ہی فرحت کم ملتی ہے۔ چھ ماہ میں مشکل سے ایک کلام پاک کی کتابت کر پاتا ہوں۔ اس ہدیے سے مشکل سے گھر کا خرچ چلتا ہے۔ اب ایسے میں خادمہ کیلئے گنجائش کہاں سے نکالوں‘‘؟''آپ یہ کیا فرما رہے ہیں؟ آپ بادشاہ وقت ہیں۔ شاہی خزانہ آپ کے قبضے میں ہے۔ اگر آپ اپنی واجب ضرورت کیلئے کچھ رقم لے لیں تو اس میں کیا حرج ہے؟‘‘۔''بیگم: شاہی خزانہ رعایا کی امانت ہے۔ اسے خرچ کرنے کا حق مجھے نہیں یہ تو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کیلئے ہے، میں تو صرف ان کا امین ہوں‘‘۔سلطان کا جواب سن کر ملکہ خاموش ہو گئی۔کوئی افسانہ نہیں بلکہ ہندوستان کے ایک نیک دل بادشاہ ناصر الدین محمود کی زندگی کی وہ حقیقت ہے، جس کا بیس سالہ دور حکومت تاریخ ہند میں سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ اس نے شاہی میں فقیری کی مثال پیش کی۔ اس نے دوسرے بادشاہوں کی طرح اپنے منصب سے ناجائز فائدہ کبھی نہیں اٹھایا۔ وہ تقویٰ،پرہیزگاری، خوش اخلاقی اور سادگی کا پیکر تھا۔ ایک روایت مشہور ہے کہ ایک بار کوئی امیر اس سے ملنے آیا۔ بادشاہ نے اسے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک کتاب دکھائی۔ امیر نے اس میں کچھ غلطیاں نکالیں اور درست کرنے کی التجا کی۔ بادشاہ نے اس کے مشورے پر ان الفاظ کے گرد حلقے بنا دیئے، لیکن جب امیر چلا گیا تو بادشاہ نے وہ حلقے مٹا دیے۔ درباریوں میں سے کسی نے حلقوں کے مٹانے کا سبب پوچھا توبادشاہ نے جواب دیا: ''دراصل یہ غلطیاں نہ تھیں، میرے دوست کو خود غلط فہمی ہوئی۔ چونکہ ایک خیر خواہ کا دل دکھانا مجھے پسند نہ تھا اس لئے ان کے کہنے پر میں نے الفاظ کے گرد حلقے بنا دیئے تھے۔ اب انہیں مٹا دیا‘‘اس دور کے سلطان کے خوش اخلاقی کا یہ حال تھا کہ اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ نبی کریم ﷺ کا احترام اس قدر کرتا تھا کہ بلا وضو آپﷺ کا نام لینا بھی بے ادبی سمجھتا تھا۔ ایک بار اپنے درباری کو جس کا نام محمد تاج الدین تھا، صرف تاج الدین کہہ کر پکارا۔ درباری نے سمجھا کہ لگتا ہے سلطان مجھ سے خفا ہیں۔ اس لئے خوف سے کئی دن دربار میں حاضر نہ ہوا۔ سلطان کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو اسے یقین دلایا کہ میں تم سے بالکل خفا نہیں ہوں۔ اس دن تمہارا پورا نام نہ لینے کی وجہ یہ تھی میں باوضو نہ تھا اور بغیر طہارت کامل کے لفظ''محمد‘‘ میں اپنی زبان سے ادا نہیں کر سکتا تھا۔التتمش کے مرنے کے بعد اس کے بیٹوں، بیٹیوں، پوتوں اور دوسرے دعوے داروں میں تخت و تاج کیلئے کافی کشمکش رہی۔ ناصر الدین محمود طبیعت کا نیک تھا۔ حکومت کی ذمہ داریوں کا پورا احساس رکھتا تھا۔ چنانچہ ان ہنگاموں سے بالکل الگ تھا۔ اس کے باوجود خود غرضوں کے بے جا انتقام کا شکار بنا اور قید کر دیا گیا۔قیدو بند کا زمانہ بھی اس نے صبرو استقلال سے گزارا۔ اس معذوری میں بھی اپنی معاش کیلئے اس نے کسی کا احسان لینا گوارا نہ کیا اور نہ اپنا وقت ہی ضائع ہونے دیا۔ اس تنہائی اور یکسوئی سے فائدہ اٹھا کر اس نے اپنی علمی لیاقت بڑھائی اور خوش نویسی سیکھ لی۔ اس کے بعد کتابیں لکھ کر گزر اوقات کرنے لگا۔ رعایا ایسے پرہیز گار اور خدا ترس بادشاہ سے خوش ہوئی۔ اللہ نے بھی اس کے تقویٰ کی لاج رکھی، اس پر اپنا فضل کیا اور حکومت کے فرائض کو بہتر طریقے سے انجام دینے کے لئے۔ بلبن جیسا مدبر اور فرض شناس وزیر عطا فرمایا۔1266ء میں ہندوستان کا یہ درویش صفت، متقی،عبادت گزار اور سادہ لوح فرماں روا اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس کو مروانے میں غیاث الدین بلبن کا ہی ہاتھ تھا۔ اس کا مزار دہلی میں یہی پال پور کے پاس سلطان غازی کے نام سے مشہور ہے۔